انسانی رویوں کے مختلف پہلو۔ ۔ ۔


آپ میں سے بیشتر افراد نے اپنے ارد گرد ایسے لوگ ضرور دیکھے ہوں گے جو بڑی بے دردی اور بہت آسانی سے دوسرے انسانوں، ان کے احساسات، جذبات اور ان کی پسندیدہ اشیا کو رد کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ بظاہر کوئی چیز انہیں پسند نہیں آتی۔ کوئی انسان ان کے خود ساختہ معیارات پر پورا نہیں اترتا۔ کوئی جذبہ انہیں خالص نہیں لگتا اور کوئی یقین دہانی انہیں مطمئن نہیں کر پاتی۔ وہ نہ کسی کو کھل کر سراہتے ہیں نہ کسی کی خوبی کا اعتراف کرتے ہیں۔ نہ کسی پر اعتبار کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کو جلد اپنا رازدار بناتے ہیں۔

عموماً ایسے افراد کو بد دماغ، ضدی، خود سر، خود پسند، مغرور، گھمنڈی اور انا پرست جیسے خطابات سے نوازا جاتا ہے۔ لوگ اسی خیال کے تحت کہ یہ مغرور اور بد دماغ ہیں اول تو ان کے قریب آنے سے گھبراتے ہیں اور اگر آتے بھی ہیں تو کچھ ہی وقت گزرنے کے بعد ان کے عام لوگوں سے مختلف رویے اور طور طریقے دیکھتے ہوئے ان سے فاصلہ اختیار کرنے لگتے ہیں۔ کیونکہ ظاہر ہے ہم روزمرہ زندگی میں عمومی نظر سے دیکھ کر ہی دوسروں کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں اور پھر اسی رائے کے مطابق فیصلے کرتے ہیں تو عمومی نظر سے دیکھنے پر ایسے افراد کے بارے میں مذکورہ بالا منفی آرا ہی قائم ہو سکتی ہیں۔

جبکہ ہمیشہ نہ سہی عموماً حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔

بظاہر خود پرست اور مغرور نظر آنے والے ان افراد میں زیادہ تر ایسے ہوتے ہیں جو دراصل مسلسل بے چینی اور غیر یقینی صورتحال کا شکار ہونے کے سبب خوفزدہ رہتے ہیں۔ لیکن اپنے اس خوف کو کسی یا کم از کم ہر کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔

ان کی اس مخصوص ذہنی حالت کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ جن میں سے بیشتر کا تعلق ان کی پیچیدہ نفسیاتی گرہوں یا پھر عمومی ذہنی الجھنوں سے ہوتا ہے۔

ایک نفسیاتی مسئلہ ”بارڈر لائن پرسنیلٹی ڈس آرڈر“ بھی ہے جو ممکنہ وجوہات میں سے ایک ہو سکتا ہے۔ یہ مسائل عموماً ذہنی نشوونما کے ابتدائی ادوار یعنی بچپن، اوائل عمری یا نوجوانی میں شروع ہوتے ہیں اور اگر ایسے فرد کے آس پاس موجود دیگر افراد اس مسئلے کو شروعات میں سمجھ نہ پائیں یا اہمیت نہ دیں اور فوری طور پر اس کا تدارک نہ کیا جائے تو اس کے منفی اثرات متاثرہ فرد کے لیے مستقبل میں دیر تک اور دور تک کئی حوالوں سے مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔

عموماً ایسے افراد کے ماضی، خصوصاً بچپن کی ناآسودہ خواہشات یا لڑکپن کی کوئی قلبی واردات انہیں ان سیکیور کر دیتی ہیں۔

ایک عام سی مثال ہے کہ انہیں بچپن میں کوئی کھلونا بہت پسند آیا جو کسی وجہ سے مل نہیں سکا۔ پھر ایسا کپڑوں، سکول بیگ یا دیگر چیزوں کے حوالے سے بار بار ہوتا رہا۔ والدین کی آپسی ناچاقی و عدم توجہی، دیگر بھائی بہنوں کا نامناسب رویہ یا بے جا سختی اور مار پیٹ بھی اس کی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

جبکہ لڑکپن میں زیادہ امکان ہے کہ کھلونوں اور بستوں کے بجائے معاملہ قلبی واردات کا ہو۔

یعنی کوئی انسان جو آپ کو بہت پسند ہو، جس سے بہت دوستی یا محبت ہو، جس کے بغیر زندگی کا تصور محال ہو (لڑکپن میں عموماً ایسے جذبے شدید ہوتے ہیں اور ان کے اثرات بھی) پھر وہ پسندیدہ ہستی اچانک کہیں کھو جائے!

یوں تو لڑکپن میں ایسے معاملات کم و بیش سبھی کی زندگی میں ہوتے اور گزرتے ہیں۔ کسی کا بھلا لگنا، کسی کے لیے پسندیدگی، کسی کے ساتھ کی خواہش، محبت وغیرہ وغیرہ۔ پھر گھر والوں کی ناراضی کے خدشات، ابا کی ڈانٹ، اماں کی مار اور بس جی قصہ پاک۔ ایک جذباتی جھٹکے کے بعد زندگی کی موٹر کار پھر سے رواں دواں۔

لیکن کبھی کہیں کسی کو خاص طور پر اسی حوالے سے مختلف صورتحال کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے کہ ایک دم کسی بہت پیارے کا منظر سے غائب ہو جانا یا اچانک مر جانا۔ کسی پیارے کی موت کا شمار شدید ترین بحرانوں اور ٹراما میں ہوتا ہے۔ باقی سب چیزوں کے اثرات عموماً اتنے شدید اور دیر تک رہنے والے نہیں ہوتے۔ لیکن یہ کوئی حتمی رائے نہیں ہے کیونکہ ہر فرد میں چیزوں کو محسوس کرنے اور برداشت کرنے کی استعداد مختلف ہوتی ہے اور اسی کے مطابق اثرات میں بھی فرق ہونا عین فطری ہے۔

عموماً یہ یا اسی نوعیت کا کوئی جذباتی جھٹکا شدید ہوتا ہے جس سے سنبھلنے کے لیے فرد کو بیرونی مدد درکار ہوتی ہے۔

ایسے وقت میں فرد کے پاس جب کوئی غمگسار، کوئی ہمدرد دوست یا رشتہ دار بھی ایسا نہ ہو جسے اپنے اس راز میں شریک کر کے اپنا غم غلط کر سکے یا اس اچانک اور ناگہانی اندوہ کی شدت کو بانٹ کر ہلکا کر سکے تو پھر ایسا فرد اکیلے اس بحران اور صدمے سے گزرتے ہوئے نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہو کر عام لوگوں سے مختلف ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس نے خود کو اس اذیت سے نجات دلانے کے لیے کئی جتن کیے ہوتے ہیں اور کئی ادوار سے گزرا ہوتا ہے جس کے اثرات اس کی مجموعی شخصیت پر پڑتے ہیں۔

نوعمری میں یہ یا اسی نوعیت کا کوئی سانحہ تن تنہا خود پر جھیلنا قطعی طور پر آسان نہیں ہوتا۔

یہ ایک اذیت ناک اور طویل تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔ جو مسلسل متاثرہ شخص کو کرب اور اضطراب میں مبتلا رکھتا ہے۔

ایسے مراحل سے تنہا گزرنے والا فرد جس نے اس ساری اذیت کو سہتے ہوئے خود ہی اپنے آپ کو سنبھالا اور زندگی کے دھارے میں دوبارہ بہنا شروع کیا ہو وہ آئندہ زندگی میں چیزوں اور لوگوں کے حوالے سے اس حد تک محتاط بھی ہو سکتا ہے کہ اپنی سہولت اور آسانی کے لیے صرف اور صرف رد کرنے کا راستہ اپنا لے۔ تاکہ نہ کسی چیز یا شخص سے جذباتی وابستگی ہو، نہ دوبارہ ایسے کسی کرب سے گزرنا پڑے۔

ایسے افراد اگر کسی سے دوستی کرتے ہیں یا کوئی معاشرتی تعلق استوار کرتے ہیں تو وہ انتہائی سرسری ہوتا ہے جس میں احساسات یا جذبات کا گزر تک نہیں ہوتا۔

یہ اپنی سہولت کے مطابق اپنے لیے ایک خاص حد مقرر کر رکھتے ہیں۔ اپنے گرد ایک لکیر کھینچ لیتے ہیں۔ جس سے باہر نہ خود جاتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ اس لکیر کو عبور کرے۔ یہ ہر کسی ہنس بول لینے والے یا مل بیٹھنے والے کو دوست کہتے ہیں نہ مانتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے دل اور دل کے جذبات کو بہت بچا اور سنبھال کر رکھتے ہیں۔

یہ محبت کرنے سے، دوستی کرنے سے، چیزوں اور انسانوں کو پسند کرنے سے خوفزدہ ہوتے ہیں اور اپنے احساسات کو بہت سینچ سنبھال کر رکھنے ہی میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔ ہوتے ہوتے یہ غیر فطری حد تک محتاط رویہ ان کی فطرت کا حصہ بن جاتا ہے جو ان کے لیے مزید مشکلات کا سبب بنتا ہے۔

پھر اتنی احتیاط کے باوجود جب کوئی شخص یا چیز ان کی زندگی میں خاص مقام حاصل کر لے تو اپنے اسی پرانے خوف کے تحت اس چیز یا شخص کے ساتھ ان کا رویہ اجارہ دارانہ ہو جاتا ہے۔ یہ اپنے خوف کے تحت اپنی پسندیدہ چیز یا من چاہے فرد کے گرد اپنی اجارہ داری اور تسلط کی گرفت اتنی سخت کر دیتے ہیں کہ دوسرے کا دم گھٹنے لگتا ہے۔

بے جان اشیا کی حد تک تو یہ اجارہ داری چل جاتی ہے لیکن جب بات دوسرے فرد پر تسلط قائم کرنے کی ہو تب ان کے لیے دوسرے فریق کے ساتھ ساتھ خود کو بھی اذیت دینے کا مرحلہ آ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جتنی ان کی گرفت سخت ہوتی ہے اتنا ہی دوسرا فریق ان سے بدظن ہو کر دوری اختیار کرنے لگتا ہے۔ نتیجتاً یہ مزید الجھاؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دراصل ایسی صورتحال میں انہیں لاتعلقی نہیں بلکہ تسلی، تشفی، یقین دہانی اور ساتھ کا احساس درکار ہوتا ہے۔

جسے حاصل کرنے کے بعد ان کے الجھاؤ ختم ہونے کا بھرپور امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ بعض اوقات خود اپنے مرض کی تشخیص کر لینے کے باوجود بھی انسان اس مرض کا علاج خود نہیں کر پاتا بلکہ اس کے لیے ایسا مسیحا درکار ہوتا ہے۔ جو یہ سمجھتا ہو کہ ایسے افراد اپنی گرفت اس وقت سخت کرتے ہیں جب انہیں دوسرے کو کھو دینے کا خوف لاحق ہو۔

اپنی سوچ کا زاویہ تھوڑا سا بدل کر اور انسانی نفسیات کو تھوڑا سا سمجھ کر دیکھا جائے تو دنیا میں واقعتاً برے لوگ بہت ہی کم ہیں اور ایسے لوگ بہت زیادہ جو ہمارے بنائے ہوئے اچھائی کے پیمانوں پر پورا نہیں اترتے۔ نتیجتاً ہم ان کو برا سمجھ کر ان سے قطع تعلقی اختیار کر لیتے ہیں۔

اگر آپ اپنے ارد گرد ایسے افراد کو پائیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے تو ان کو اس مختلف زاویے سے سمجھنے کی کوشش ضرور کیجیے۔

اگر آپ جوان ہوتے بچوں کے والدین ہیں تو غور کیجیے کہ ایک چیز ہمیں اپنے ارد گرد عام دیکھنے کو ملتی ہے کہ نوجوان اولاد کو یہ سوچ کر بچپن جیسی توجہ نہیں دی جاتی کہ انہیں بچپن کی طرح والدین کی ضرورت نہیں یا یہ سوچ کر انہیں خود مختار کر دیا جاتا ہے کہ اب یہ ہر بات سمجھ سکتے ہیں۔ یہ دونوں انتہائیں ہیں اور انتہا کسی معاملے میں مناسب نہیں ہو سکتی۔ یا پھر والدین اپنے جوان ہوتے بچوں کو بڑے مضبوط اور بہادر سمجھتے ہوئے ان پر اپنے اعتبار اور بھروسے کا اتنا بوجھ لاد دیتے ہیں کہ بچے بہت سارے معاملات یہی سوچ کر ان سے چھپا جاتے ہیں کہ ایسا کر کے شاید انہوں نے والدین کے بھروسے کو توڑا ہے یا اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔

سوچیے یہ بوجھ ان کی سکت سے زیادہ تو نہیں؟

کئی کنفیوزڈ والدین ایسے ہیں کہ نوجوان اگر کوئی بچگانہ حرکت کریں تو کہیں گے کہ بڑے ہو گئے ہو، ذمہ دار بنو۔ پھر کسی معاملے میں وہ اپنے لیے خود کوئی فیصلہ کرنا چاہیں تب کہیں گے کہ اتنے بڑے نہیں ہوئے کہ اپنے فیصلے خود کر سکو۔ یوں والدین اپنے اندر کا خلفشار بچوں کے ذہنوں میں بھی انڈیل دیتے ہیں جو ان بے چاروں کو زندگی بھر کے لیے ان چاہی الجھنوں میں مبتلا کرنے کا سبب ہو سکتا ہے۔ غور کیجیے کہیں آپ بھی تو ایسا نہیں کر رہے؟

والدین کو ضرور ہے کہ وہ اپنی نوجوان اولادوں کے ساتھ ایسا تعلق استوار کریں کہ وہ کسی بھی بحران یا ٹراما میں خود کو کبھی اکیلا محسوس نہ کریں۔

اس کے علاوہ ایک اور چیز بہت عام ہو رہی ہے کہ ہم بغیر کچھ سوچے سمجھے یا متعلقہ معلومات حاصل کیے معمولی ذہنی الجھنوں کی بنا پر یا مختلف رویوں کا حامل ہونے کے سبب کسی کو بھی ذہنی مریض ڈکلیئر کرنے اور اس سے سوشل بائیکاٹ کرنے میں ذرا سا تامل بھی نہیں کرتے۔ یوں دیکھا جائے تو ہمارا یہ عمل بھی ہماری اپنی سہولت کے لیے ہوتا ہے۔ تو ذرا سوچیے پھر وہ انسان برا کیسے ہوا جو اپنی سہولت کے لیے رد کرنے کا طریقہ اپنائے ہوئے ہے؟ یہ معمولی تحفظات ہم سب کی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں البتہ تناسب کا فرق ہو سکتا ہے۔ لیکن ہم اس ان معاملات کو سمجھتے نہیں۔

ذرا یاد کیجیے کہ آپ نے کب کب گالی کی طرح حقارت سے کسی کو یہ کہا کہ تم ایک ان سیکیور انسان ہو؟ یقیناً سبھی نے کبھی نہ کبھی ایسا ضرور کیا ہو گا تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا کسی کا ان سیکیور ہونا یا عدم تحفظ کا شکار ہونا واقعی اس کا ایسا نقص یا عیب ہے جس پر حقارت کا اظہار کیا جائے؟

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر فرد کسی نہ کسی ذہنی الجھن کا شکار ہو سکتا ہے لیکن سب ذہنی مریض نہیں ہوتے۔ اور اگر کوئی پیچیدہ ذہنی مسائل کا شکار ہو بھی تو ہمارے ہاں اس حوالے سے دستیاب وسائل اتنے نہیں کہ ہر فرد کو معالج میسر آ سکے نہ ہی اس حوالے سے باقاعدہ علاج کا رجحان عام ہے۔ سو جیسے زندگی کے دیگر معاملات اور مسائل ہم آپس میں بات چیت اور مشاورت کے ذریعے حل کر لیتے ہیں بالکل اسی طرح اپنی ذہنی الجھنوں کو بھی دوست احباب، عزیز رشتہ دار آپسی مشاورت کے ذریعے کسی نہ کسی حد تک ضرور سلجھا سکتے ہیں۔ یا ان کی شدت کو بہرحال کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ بات صرف معاملے کی اہمیت اور اپنی ذمہ داری کو سمجھنے کی ہے۔

اگر آپ کی زندگی میں کوئی ایسا فرد بطور کولیگ، عزیز، رشتہ دار، دوست یا شریک حیات شامل ہے تو اس کا موازنہ دوسروں سے کرتے ہوئے اس کو احساس کمتری یا احساس ندامت میں مبتلا کر کے اس سے لاتعلق ہونے کے بجائے اس پر ذرا سی اضافی توجہ دے کر آپ اس کا اعتماد بحال کر سکتے ہیں۔ ایسے فرد کو اپنے تعلق یا رشتے کی نوعیت کے مطابق اپنے ممکنہ ساتھ کا یقین دلا کر دیکھیے تو ان کے رویے میں بہت واضح مثبت تبدیلیاں پائیں گے۔

ذرا سوچیے اگر انسان دوسرے انسان کی ضرورت نہ ہوتا تو قدرت کی طرف سے شاید انسانوں کو بھی کھیتوں میں اگایا یا درختوں پہ لٹکایا گیا ہوتا۔ یا خودرو جھاڑیوں کی طرح یہ بھی آپ ہی آپ اگتے، پھلتے اور مرجھاتے رہتے۔ انسان کو انسان سے پیدا کیے جانے اور اس کی فطرت میں تمدن پسندی رکھنے کا مقصد یہی ہے کہ ہم ایک دوسرے سے منسلک رہیں۔ دنیا میں شاید ہی کوئی انسان ایسا ہو جو مکمل رضا و رغبت سے اپنے لیے تنہائی کا انتخاب کرے اور پھر اس میں خوش بھی رہے۔

لاتعلقی کا نہ ہمارا عقیدہ پرچارک ہے اور نہ ہماری معاشرت ہی اس کی متحمل ہو سکتی ہے۔

ضرور ہے کہ ہم یہ جانتے ہوں کہ ہمارا راستہ استواری کا ہے نہ کی مسماری کا تو اپنے ارد گرد موجود لوگوں سے نرمی اور دانش مندی کا معاملہ رکھیے۔

سوچیے کیا کبھی دیکھا ہے کسی آم کو تربوز کی مدد کرتے؟ مولی کو گاجر سے اپنے مسائل بیان کرتے؟ یا پھر کینو کو کریلے کی کڑواہٹ ختم کر کے اسے کھٹا میٹھا بنانے کا تردد کرتے؟

یقیناً نہیں دیکھا ہو گا۔
تو پھر آم نہیں، انسان بنیں۔

نیلم ملک
Latest posts by نیلم ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments