مولانا طارق جمیل اور چند گزارشات


میں نے مولانا طارق جمیل کو ہمیشہ سے ایک غیرمتنازع شخصیت پایا۔ انسان ہونے کے ناتے ان سے بھی غلطیاں سرزد ہو سکتی ہیں۔ ایک ایسا مبلغ جسے لوگوں کی اکثریت سنتی ہو تو اس کے چاہنے والے اس کے بارے میں ایسی رائے قائم کرتے ہیں کہ وہ غلطیوں سے مبرا ہو گا اور جب ایسے اشخاص سے غلطیاں سرزد ہو جائیں تو عوام ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔ اللہ تعالی کے پیغمبروں اور فرشتوں کے علاوہ کوئی بھی گناہ سے پاک نہں۔ چاہے انسان جتنا ہی پاکیزہ ہو اس سے بھی اللہ کا بندہ ہو نے کی وجہ سے کوتاہیاں ہوسکتی ہیں۔ ایک اچھا انسان وہ ہے جو اپنی غلطی تسلیم کرے اور اپنے رب کے حضور معافی مانگے، لوگو ں سے معافی مانگے اور اپنی اصلاح کرے۔

پاکستا ن میں طارق جمیل کو عوامی سطح پر بہت پذیرائی حاصل ہے۔ اس کے پرستاروں میں عام فہم رکھنے والوں سے لیے کر شوبز، کریکٹرز، بیوروکریٹس اورحکمران طبقہ آتا ہے۔ ہر مسلک کے لوگ اس کو پسند کرتے ہیں کیونکہ یہ لوگوں کو مسلکوں اور فرقوں میں نہیں بانٹتا۔ قرآن اور سنت کے مطابق لوگوں کو دین کی تبلیغ اور تلقین کرتا ہے، تعصب کی باتیں نہیں کرتا، کسی کے ایمان کو جج نہیں کرتا نہ ہی کسی پر کفر کے فتوے لگاتا ہے۔ امن و آشتی اور معاشرے میں پھیلی ہوئی بدعنوانیوں اور برائیوں کے بارے میں ذکر کرتا ہے، لوگوں کو اللہ کی رحمت سے دور کرنے کی بجائے قریب کر تا ہے۔ اس کی باتوں میں تاثیر ہوتی ہے۔ اس کو سننے کے لئے لوگوں کا ہجو م اکٹھا ہوتا ہے۔

مجھے تو یہ ایک اچھی بات لگی کہ احساس ٹیلی تھون پروگرام میں طارق جمیل نے دعا کروائی۔ ہم مسلمان ہیں اور اللہ کی طاقت پہ یقین رکھتے ہیں۔ اس وجہ سے دعاء اور دوا دونوں پہ اعتقاد ہے۔ اس پروگرام میں مولانا نے کچھ ایسی باتیں کیں جو متنازع بھی بنیں اور لوگ سوال اٹھانے لگے۔ میڈیا پر آکر مولانا نے اپنی غلطی پر معافی بھی مانگ لی۔ اس پر قوم دوحصوں میں بٹ گئی۔ کوئی ان کے حق میں بولنے لگا اور کوئی ان کے خلاف۔ ایک یہ کہ پورا میڈیا جھوٹا ہے۔ مولانا کے مطابق ایک ٹی وی کے مالک نے خود ان سے کہا تھا کہ ہم جھوٹ بولتے ہیں اس کے بغیر ہمارا کاروبار نہیں چلتا۔ میڈیا میں اگر کوئی جھوٹا ہے تو طارق جمیل کو کھل کر بتا دیناچاہیے تھا کہ کون لوگ جھوٹے اور کون سچے ہیں۔ مولانا کی ان باتوں کی وجہ سے ان صحافیوں کی توہین ہوئی ہے جنہوں نے ہمیشہ حق اور سچ کیے لئے قربانیاں دیں۔ دوسری بات یہ کہ قوم کی بیٹیوں کو نچوانے کی وجہ سے اللہ کا عذاب آ یا ہے۔ جب قوم کی بیٹیاں مفلسی اور تنگدستگی کی وجہ سے ناچتی ہیں اور اپنی عزت بیچ دیتی ہے تو اس کی بھی ذمہ داری ان طاقتور لوگوں اور حکمرانوں پر عاید ہو تی ہے جنہوں اس ملک کو آگے بڑھنے نہ دیا۔ غریب غریب تر ہوتا گیا۔ معاشرے میں عدل و انصاف نہیں رہا۔ کوئی ظلم کرکے بچا، کوئی مظلو م بن کے پسا۔

تیسری بات یہ ہے کہ اس میں کوئی برائی نہیں کہ جب مولانا طارق جمیل اہل اقتدار سے ملتے ہیں۔ لیکن ان کی تعریف کے پل باندھنے کے سا تھ ساتھ ان کو آئینہ بھی دکھا دیا کریں۔ چوتھا یہ کہ جب مولانا حوروں کے بارے میں بات کرتے ہیں تو بہت مبالغہ آرائی کرتے ہیں۔ لوگوں کو اتنا بتا دیں جو اللہ کی کتاب میں بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے بہت سے انعامات بتائے ہیں۔ یہ انعامات ان کو دنیا میں اللہ کی بندگی کرنے اور اعلی انسانی اخلاقی اقدار پر عمل کر نے کی وجہ سے جنت کی صورت میں ملیں گے۔

اب سوال یہ ہے کہ وبائیں اور آزمائشیں کیوں آتی ہیں؟ بطور مسلمان ہمارا یہ یقین ہے کہ جب اجتماعی طور پر لوگ برائی کرنے کو برا نہ سمجھیں اور جب معاشرے میں ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، ذخیرہ اندوزی، فحش و فجور ظلم ونا نصافی اور دوسری معاشی بد عنوانیاں عام ہوجائیں اور لوگ ندا مت کرنے کے بجائے فخر محسوس کریں تو اللہ تعالی وباؤں اور آزمائشوں کے ذریعے لوگوں کو متنبہ کرتا ہے تاکہ لوگ سنبھل جائیں اور سمجھ جائیں کہ ان کے اوپر بھی ایک ایسی باخبر ہستی موجود ہے جو سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ آج ساری انسانیت اتنی تر قی کرنے کے باوجود ایک چھو ٹے سے وائرس کے سامنے بے بس ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان مکمل علم رکھنے سے عاجز ہے۔ بہت سے دعوؤں کے باوجود مکمل علم تک اس کی رسائی ناممکن ہے۔ صرف اللہ تعالی واحد لا شریک کی ذا ت ایسی ہے جو مکمل علم کا سر چشمہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments