نیم پختہ صحافی سے نیم پختہ لکھاری تک


”نیم پختہ صحافی“ ہوش کی عمر کو پہنچا تو اس نے گھر میں ہر طرف اخبارات، رسائل اور کتابوں کو بکھرے دیکھا۔ اس کا اندازہ ہے کہ ان کے گھر میں پڑھنے والی چیزوں کی تعداد گھر میں موجود بستروں اور برتنوں سے زیادہ تھی۔ اس کے والد صاحب سکول میں دوسرے مضامین کے علاوہ اردو بھی پڑھاتے تھے اور انہی کے ذوق مطالعہ کی وجہ سے گھر میں ایک بکھری ہوئی لائبریری کا ماحول تھا۔ گاؤں کا پوسٹ آفس بھی اس کے والد صاحب ہی چلاتے تھے۔

کسی بھی اخبار، رسالہ یا کتاب میں کسی نئی کتاب کا اشتہار دیکھتے تو اسے منگوانے کے لئے کاغذ اور ڈاک کے لفافے کے لئے کسی تردد کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ڈاک کے لفافوں کا ڈھیر سامنے میز پر ہی موجود ہوتا تھا۔ اس لئے نئی کتاب کے حصول کے لئے خط فوری سپرد ڈاک ہو جاتا تھا۔ سکول کے بچوں کے لئے اردو تقاریر بھی اس کے والد صاحب ہی لکھتے تھے اور اکثر پہلی تین پوزیشن والے طلبہ میں ان کی لکھی ہوئی تقریروالا مقرر بھی لازمی شامل ہوتا۔

اس ماحول نے مٹی میں نمی اور زرخیزی دونوں پیدا کر دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے دونوں بڑے بھائیوں میں کتب بینی اور ادب سے لگاؤ بچپن سے ہی موجود تھا۔ چنانچہ ایک نے ایم۔ اے اردو میں یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی، کچھ عرصہ ایک اخبار میں بھی ملازمت کی، پھر کالج میں لیکچرار بنے، حکومتی سکالرشپ پر برطانیہ سے پی۔ ایچ ڈی کی، ایک یونیورسٹی میں اپنے شعبہ کے چئیرمین بنے اور اسی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ ایم۔ اے کے دوران ناصر کاظمی پر تحقیقی مقالہ لکھا جو بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوا۔ شاعری پر بھی ان کی ایک کتاب چھپ چکی ہے۔ دوران تعلیم اور بعد میں بھی اخبارات میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہے۔

دوسرے بھائی نے بھی تعلیم کی تکمیل کے بعد بالآخر ایک بڑے قومی اخبار میں ملازمت کی اور اخبار کے ہر شعبہ میں کام کیا۔ سب ایڈیٹر، میگزین انچارج، ڈسٹرکٹ نیوز انچارج سے ہوتے ہوئے نیوز ایڈیٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ دوران سروس اور سروس سے پہلے بھی اخبارات میں مضامین، کالمز اور فیچرز لکھتے رہے۔ عمرے کی سعادت حاصل کی تو اپنے مشاہدات اور تجربات کو ایک کتاب کی صورت میں قلم بند کیا، جسے سنگ میل جیسے ادارے نے شائع کیا اور وہ کتاب اب بھی پاکستان کے اچھے بک سٹالز اور لائبریریوں میں موجود ہے۔

انگریزی میں مہارت کی وجہ سے اس کتاب کے علاوہ انہوں نے جناب ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کے انگریزی لیکچرز کا اردو ترجمہ کر کے کتابی صورت میں شائع کروایا۔ ایک کتاب ”اسلام کی مثالی خواتین“ کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا۔ یاد رہے کہ نیم پختہ صحافی کا چھوٹا بھائی بھی اخبارات میں لکھتا ہے، دو کتابوں کا مصنف بھی ہے اور تیسری طباعت کے مراحل طے کر رہی ہے۔

یہ تھا وہ ادبی اور صحافتی ماحول جو اس ”ادھ پکے“ صحافی کے ارد گرد موجود تھا۔ اسی ماحول سے مغلوب ہو کر سکول کے زمانے میں ہی اس نے کرکٹ پر ایک چھوٹا سا آرٹیکل اخبارمیں چھپوانے کے لئے بھیجا۔ اس کی اشاعت اس کے لئے ایک خوشگوار حیرت لے کر آئی۔ سکول کے دور میں اس نے اخبار کے لئے مزید کچھ لکھا یا نہیں، اس کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ کالج کے زمانے میں البتہ اس نے طلبہ وطالبات کے صفحہ کے لئے کافی کچھ لکھا۔ اس زمانے میں مضامین والا حصہ غالباً مقامی سٹیشن پر شائع ہونے کی بجائے ہیڈ کوارٹر پر ہی شائع ہوتا تھا۔

اس وجہ سے وہ اپنے مضامین براہ راست چیف ایڈیٹر روزنامہ نوائے وقت جناب مجید نظامی صاحب مرحوم کو ہی بھیجا کرتا تھا۔ مستنصر تارڑ صاحب کو تازہ تازہ پڑھنا شروع کیا تھا کہ کراچی جانے کا موقع مل گیا۔ کافی دن وہاں گھومے پھرے، ٹھٹھہ کی شاہ جہانی مسجد بھی دیکھ لی اور مکلی کا مشہور عالم قبرستان بھی۔ تارڑ صاحب کی ”نکلے تیری تلاش میں“ تازہ تازہ پڑھی ہوئی تھی، چنانچہ کراچی کے سمندر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ”نیلے پانی کی تلاش میں“ ایک سفری روداد لکھ ماری، جو نوائے وقت کے سنڈے یا جمعہ میگزین میں شائع ہوئی تو اس کے جاننے والوں میں چند دن اس کا خوب چرچا رہا۔

ایک دن بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ کیوں نہ افسانہ لکھا جائے۔ افسانہ کیا تھا، بس اس عمر کے لحاظ سے ایک گھسی پٹی رومانوی کہانی تھی۔ یہ جو کچھ بھی تھا نوائے وقت کے ہفتہ وار میگزین میں شائع ہو گیا۔ اس اشاعت نے کچھ زیادہ ہی حوصلہ بڑھا دیا تو ایک دو افسانے ادبی رسالے ”ماہ نو“ میں اشاعت کے لئے بھیج دیے۔ شاید ان دنوں محترمہ کشور ناہید صاحبہ اس کی مدیرہ تھیں۔ انہوں نے مایوس کرنے کی بجائے ایک اور سرکاری رسالے ”پاک جمہوریت“ میں ان کو شائع کر کے کچھ رقم معاوضہ کے طور پر بھی بھیج دی۔

ایف۔ ایس سی کے بعد بی ایس سی میں داخلہ لیا توخیال آیا کہ اب کافی کچھ لکھ لیا ہے، کیوں نہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ مستقل کالم نویسی بھی شروع کر دی جائے۔ جوش خوش فہمی میں اپنے کالم کا ”مونو گرام“ بھی خود ہی تجویز کر کے مضامین کا پلندہ محترم مجید نظامی صاحب کی خدمت میں ارسال کر دیا کہ بس آپ مجھے ایک بار موقع دے کر دیکھیں، پھر دیکھنا میں کیا کرتا ہوں۔ ذہن میں تھا کہ نظامی صاحب تو اب ”پکے دوست“ بن چکے ہیں کہ چھپنے والے تمام مضامین نظامی صاحب کو ہی بھیجا کرتا تھا۔

نظامی صاحب نے جس طرح جواب دیا، اس سے ایک فلم کی یاد تازہ ہوگئی: ”چودھری اسیں فیر اینوں نہ ای سمجھئے۔“ (چوہدری پھر ہم اسے انکار ہی سمجھیں) وہ پلندہ ویسے کا ویسا ہی انہوں نے واپس کیا بھیجا، گویاکھڑکی کے باہر پھینک دیا۔ جواب کے لئے الگ کاغذ بھی ضائع نہ کیا، بلکہ اس کی درخواست کے اوپر ایک کونے میں یہ نوٹ لکھ دیا : ”ہمیں نیم پختہ صحافیوں کی کوئی ضرورت نہیں۔“

نیم پختہ صحافی نے کچھ عرصہ خاموشی کے بعد پھر مختلف اخبارات کے طلبہ والے صفحات پر لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیا، جو یونیورسٹی کی تعلیم تک جاری رہا۔ نظامی صاحب کے بہت پہلے دیے گئے ”جواب“ کی روشنی میں اس نے عملی صحافت کے بارے میں کم ہی سوچا، اور اب جو صحافیوں کے حالات ہیں، شاید ٹھیک ہی سوچا تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت کے ساتھ ساتھ شوقیہ لکھنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس دوران نوائے وقت ملتان اور خبریں ملتان کے علاوہ ملتان کے دو ایک مقامی اخبارات میں بھی مستقل کالم نگاری بھی کی۔

اپنے آپ کو آزمانے کے لئے کچھ اور اخبارات کے لاہور ایڈیشن اور اردوڈائجسٹ کے بھی لکھا۔ کئی سال پہلے روزنامہ جنگ کے لئے ایک ٹیسٹ اور انٹرویو بھی دیا، پھر اس کا پیچھا نہیں کیا۔ چالیس سال کے اس طویل عرصے بعد بھی روزانہ کوئی نہ کوئی ایسی تحریر ضرور پڑھنے کو ملتی ہے جس کو دیکھ کر اسے احساس ہوتا ہے کہ ”نیم پختہ صحافی“ نے بس اتنی ہی ترقی کی ہے کہ اب ایک ”نیم پختہ لکھاری“ بن گیا ہے، پختہ صحافی اور لکھاری وہی کہلاتا ہے جس کا نام چڑھ جاتا ہے، باقی سارے ”نیم“ ہی رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments