بچوں کے امتحانات: ایک اور غلط فیصلہ


حکومت وقت کی طرف سے آج ایک اور فیصلہ کیا گیا، جس کی وجہ سے ہزاروں بچوں کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا گیا۔ مرکزی وزیر تعلیم نے صوبائی حکومتوں سے مشاورت کے بعد بورڈز کے تمام امتحانات کینسل کرنے اور پچھلی جماعتوں کے نتائج کی بنیاد پر تمام بچوں کو اگلی جماعت میں پروموٹ کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ اس فیصلے کے بعد نہم اور گیارہویں جماعت کے بچوں میں تو ایک خوشی کی لہر ڈور رہی ہے، مگر جماعت دہم اور بارہویں کے طلبا اور طالبات میں مستقبل کو لے کر ایک نیا سردرد پیدا ہو گیا۔

فیصلے میں چند سوالات کی وضاحت دینا ضروری تھی جو کہ نہیں دی گئی۔ سب سے پہلی بات یہ کہ اس بات کا تعین کون کرے گا کہ جو بچہ کسی وجہ سے پچھلی جماعت میں اچھا پرفارم نہیں کر سکا اور اس سال اس نے محنت کی تو اس کو کس کیٹیگری میں رکھا جائے گا؟ دوسری بات یہ کہ پاکستان میں اکثر بچے گورنمنٹ یونیورسٹیز میں داخلہ لینے کے لئے کوشش کرتے ہیں ان میں ایک بڑی تعداد میڈیکل سائنس کے سٹوڈنٹس کی ہوتی ہے لیکن نمبر کم ہونے کی وجہ سے ان کا داخلہ نہیں ہو پاتا۔

لیکن وہ بچے ہار نا مانتے ہوئے مارکس امپروو کرنے کی کوشش کرتے اور ایک سال صبر سے کام لیتے ہیں۔ تاکہ ان کا داخلہ کسی اچھی یونیورسٹی یا اچھے میڈیکل کالج میں ہو سکے۔ حکومت وقت نے ان بچوں کے بارے میں بھی کوئی وضاحت پیش نہیں کی۔ تیسری کیٹیگری میں وہ بچے آتے جو سپلی لے کر اگلی جماعت میں تو چلے جاتے مگر ساتھ سپلی کی بھی تیاری کر کے اچھے نمر لینے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا جائے گا؟

حکومت اس کی بھی وضاحت نہیں دے سکی۔ اب کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ جہاں ایک سال صبر کر لیا وہاں بچے ایک اور سال لگا کر دوبارہ امتحان بھی دے سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں یاد رہے کہ اکثر بچوں کے پاس مارکس امپروو کرنے کا آخری چانس ہوتا ہے۔ اور دوسری بات ہماری اکثر یونیورسٹیز میں داخلے کے وقت ہر سال کے کچھ نمبر کاٹے جاتے ہیں۔ اور اس کے بعد میرٹ بنایا جاتا ہے۔ اور میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے نمبر اس قدر اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کہ کسی بھی سرکاری ملازمت کے لئے آپ کی قابلیت سے زیادہ آپ کے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے نمبر مدنظر رکھے جاتے ہیں۔ ان تمام سوالات کی وضاحت حکومت وقت کی ذمہ داری ہے اور جواب طلب کرنا بچوں کا حق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments