ممتاز مفتی کی ”تلاش“۔


جو صاحب علم ہیں ان سے پیشگی معذرت کرتا ہوں کہ اگر بندے سے کوئی حماقت ہوگئی بلکہ کئی ہوں گی تو درگزر کیجیے گا۔ کیوں کہ یہ بڑا ثواب کا کام ہے اور جہاں اصلاح کی ضرورت ہوئی جو کہ لازمی ہوگی تو وہ بھی کر دیجئے گا۔

ممتاز مفتی کے بیٹے عکسی مفتی نے اس کتاب تلاش کا دیباچہ ممتاز مفتی کی یاد میں کے عنوان سے لکھا ہے۔ جس میں وہ اپنے والد کی کچھ قابل اعتراض باتوں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ وہ ان سے مجذوبانہ کیفیت میں لکھی گئی ہیں۔ کیوں کہ ہوش و حواس میں وہ باتیں کر گزرنا ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر ممتاز مفتی اپنی کتاب لبیک جو ایک طرح کا سفر نامہ حج ہے میں خانہ کعبہ کو کالا کوٹھا لکھ دیتے ہیں۔

تلاش کے شروع کے صفحات میں جو باتیں مفتی صاحب نے لکھی ہیں وہ صرف وہی لکھ سکتے ہیں۔ میرا ان سے کافی جگہوں پر اختلاف بھی ہوا۔ اختلاف رائے اپنی جگہ لیکن میں نے ان پر کوئی فتوی نہیں لگایا۔ اور نہ ہی یہ کتاب اٹھا کر پرے پھینکی بلکہ ٹھنڈے دل و دماغ سے پڑھتا رہا جوں جوں کتاب کے صفحات کم ہوتے جارہے تھے میری دلچسپی اور لگاؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ کتاب کے شروع میں وہ ایک سیکولر لکھاری نظر آتے ہیں۔ لیکن آخر میں وہ روایتی مسلم لکھاری کا روپ دھار چکے ہوتے ہیں۔

شروعات میں ان کے خیالات کافی لبرل غیر مذہبی اور نامناسب سے لگتے ہیں۔ جیسے کہ وہ قرآن کو بیڈ بک بنا لینا چاہتے ہیں۔ بیڈ بک کا مطلب بھی وہ خود ہی لکھتے ہیں کہ ایسی کتاب جو آپ سرہانے تلے رکھتے ہیں اور جب بھی فارغ وقت ملا اٹھا کر پڑھ لی۔ اس کے علاوہ اپنی دادی اماں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دادی اماں نماز بھی پڑھتی رہتی تھی اور ساتھ ساتھ گھر کے دوسرے کام بھی نپٹا لیتی تھیں۔ یعنی مجھے صندوق میں سے گیند اٹھا کر دیتیں اور گھر میں کھانا پکانے والی عورتوں کو جواب بھی دے لیتی تھیں۔ ممتاز مفتی لکھتے ہیں کہ یہ کتنا اچھا امتزاج تھا دین اور دنیا کا۔ خیر پتا نہیں مفتی صاحب نے کن جذبات اور کس کیفیت میں یہ جملے لکھے تھے۔

جیسے ہی ان کی کتاب کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے وہ بالکل ایک الگ شخصیت بن جاتے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب کے وہ کافی قریب رہے اور ان سے متاثر بھی رہے۔ ان کی کتاب میں کچھ باتیں ایک دوسرے کے الٹ بھی ہیں مثلاً آغاز میں وہ صوفیاءاور ولیوں کو اچھا نہیں سمجھتے جبکہ آخر میں وہ ان کی یعنی کہ کچھ اللہ والوں کی پیش گوئیوں کو حقیقت میں بدلتا ہوا لکھتے ہیں۔ جو ان کی اسی کتاب تلاش کے حوالے سے تھی کہ تم ایک کتاب تصوف پر لکھو گے۔

اس کتاب کا ایک اور بڑا موضوع بلکہ سب سے بڑا موضوع مذہبی اجارہ داری ہے۔ ممتاز مفتی لکھتے ہیں کہ اسلام نے مساوات کا درس دیا ہے خدا نے علم والوں کا درجہ تو بلند بیان کیا ہے لیکن کم علم والے اور عام لوگوں پر حکومت کرنے یا انہیں غلام سمجھنے کا اختیار نہیں دیا۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں دوسرے مذاہب میں مذہبی اجارہ داری ہے جیسے عسائییت اور یہودیت میں پادری اور راہب ہیں۔ ایک وقت میں یورپ میں کلیسا اتنا طاقتور تھا کہ وہ حکومت پر حکم چلاتا تھا۔ اور پادری بادشاہوں سے ٹکر لے جاتے تھے۔ اسی طرح ہندو مت میں بھی برہمنوں کی اجارہ داری قائم کرکے ایک کثیر تعداد میں انسانوں کی عزت نفس کو کچل کر رکھ دیا گیا ہے۔ اور انہیں شودر اور اچھوت بنا دیا گیا ہے۔ اور صرف اسلام ہی واحد دین ہے جو مساوات کا درس دیتا ہے۔ اور اسلام نے رہبانیت کو ممنوع قرار دیا ہے۔

اس کے علاوہ قرآن کے سائنسی معجزے اسلام کا ماضی اور مستقبل پاکستان کا مستقبل بھی بالکل ایسے ہی بیان کرتے ہیں جیسے ہم نے پہلے بھی پڑھ رکھا ہے۔ لیکن پتہ نہیں کیوں مفتی صاحب کی باتیں دل کو چھو جاتی ہیں شاید وہ دل سے لکھتے ہیں اور دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ مفتی صاحب سادہ سے الفاظ میں کئی گتھیاں سلجھا گئے ہیں ایک چھوٹی سی کتاب میں کئی کتابیں لکھ گئے ہیں۔ خدا کے ساتھ رشتے کو حضرت محمد ﷺ سے عقیدت کو بھی بڑے سحر انگیز انداز میں بیان کرتے ہیں۔

ایک جگہ پر لکھتے ہیں

”صاحبو سچ پوچھو تو اپنی سمجھ میں نہیں آیا کہ اسلام کیا چیز ہے۔ ایک دوست ہے اس نے اسلام کا مطالعہ کیا ہے میں اس کے پاس چلا گیا۔ میں نے کہا یار مجھے بھی سمجھا دو اسلام کیا ہے وہ ہنسا بولا مجھے خود سمجھ میں نہیں آیا تجھے کیا سمجھاؤں۔ میں نے کہا وہ جو اتنا سارا مطالعہ کیا ہے تو نے اس کا نتیجہ نہیں نکلا کیا بولا نکلا ہے میں نے کہا کیا نکلا ہے بولا اللہ سے یارانہ لگ گیا ہے محمد ﷺ سے محبت ہو گئی ہے بس اور کسی بات کی سمجھ نہیں آئی“ ۔ تلاش ص 204۔

اس کے علاوہ بھی کتاب میں بہت کچھ ہے مثلاً وہ کہتے ہیں دنیا کا مستقبل کا مذہب اسلام ہے۔ اور صرف قرآن کی تعلیمات ہی دنیا میں امن اور مساوات پیدا کرسکتی ہیں۔ جدید دنیا صرف اور صرف قرآن کے احکامات کو مان سکتی ہے کسی اور کتاب کو نہیں۔

لکھتے ہیں جتنے بھی سائنسی معجزے ہوجائیں قرآن سے باہر نہیں جا سکتے۔ قرآن گلاب کی مانند ہے۔ ایک پتی کے نیچے دوسری پتی اور اس کے نیچے اور پتی۔ اسی طرح پتی در پتی تہ در تہ مفہوم در مفہوم یہ قرآن پاک ہے۔

مغربی تہذیب پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مغرب والے خود اس طوفان بدتمیزی سے عاجز ہیں۔ عورتوں کی برہنگی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہاں کی عورتوں نے کچھ چھپایا نہیں جس کی مرد خواہش کرے۔ اس لیے وہ اپنا وقار اور کشش کھو بیٹھی ہیں۔ اب مرد کو انہیں دیکھ کر تحریک نہیں ہوتی۔

آخر میں حبیب جالب کا ایک شعر
یہ بات نئی نسل کو سمجھانا پڑے گی
کہ عریاں کبھی بھی ثقافت نہیں ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments