کمیشن پر سوالیہ نشان کیوں


سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں حکومت ایک اقلیتی کمیشن ترتیب دینے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس کے ایک اجلاس کے منٹس کو ایک میڈیا ہاؤس نے غلط رنگ دے کر پیش کر دیا، جس کے بعد وہ رنگ جما کہ کیا کہنے۔ ایک پرانا واقعہ بزرگ سناتے ہیں کہ کہیں ایک شخص کی شیطان سے بحث ہو گئی کہ وہ سارے فساد کی جڑ ہے لیکن شیطان اس بات سے انکاری تھا، آخر شیطان نے اس شخص کو ساتھ لیا اور ایک حلوائی کی دکان پر چلا آیا۔ ایک برتن میں پڑے شیرے میں انگلی کو ڈبویا اور دیوار پر لگا دیا، جس کے بعد ہونے والے فساد کو دیکھتے ہوئے نہ صرف شیطان لطف اندوز ہوا بلکہ اس شخص سے پوچھنے لگا کہ بتاو، اس لڑائی میں اس کا قصور کیا ہے؟

اسلام میں کسی بھی شخص کے جھوٹے شخص کے لیے یہ اشارہ موجود ہے کہ وہ سنی سنائی کو آگے بیان کر دے اور تحقیق نہ کرئے۔ اقلیتی کمیشن پر مار دھاڑ کرنے اور جذبات میں اپنا سب کچھ قربان کرنے والے اگر واقعے کی کچھ تحقیق ہی کر لیتے تو اتنا خون گرمانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی لیکن وہ مسلمان ہی کیا جو اسلام کے احکام پر عمل پیرا ہو جائے۔ خیر آج یہ سوال تو بالکل نہیں کہ ایک میڈیا ہاؤس نے کس ایجنڈے کے تحت ایک غلط خبر نشر کی؟

نہ ہی یہ سوال ہے کہ لوگوں نے اس خبر پر کسی قسم کی تصدیق کی ضرورت کیوں محسوس نہ کی؟ سوال تو اس وقت یہ بھی نہیں ہے کہ اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کو شامل کرنے سے کیا کچھ حاصل ہو جاتا یا نہیں ہوتا؟ لیکن سوال یہ ضرور ہے کہ ہم نے اقلیتی کمیشن کو متنازع بنانے کی ہر ممکن کوشش کیوں کی؟ سوال یہ بھی ہے کہ ہم اس کمیشن کی راہ میں کیوں کھڑے ہوئے تاکہ کسی قسم کی قانون سازی ممکن نہ ہو؟ آئیے ان سوالوں کے آسان جواب تلاش کرتے ہیں۔

طوفان کی گرد میں اگر کچھ دیکھنا ممکن ہو تو مذہبی لوگوں کا چہرہ با آسانی دیکھا جا سکتا ہے جو ذرا سی رائی پر پہاڑ کھڑا کر چکے تھے۔ ہر دوسری بات پر اپنا تن من دھن قربان کرنے کی پوسٹیں لگانے والے، بات بے بات اپنے ایمان کا اظہار کرتے، دوسروں کے ایمان کو مشکوک نظروں سے دیکھتے اور ہر تیسرے واقعے پر اسلام کو خطرے سے دوچار کرنے والے ان لوگوں کے جذبہ ایمانی پر کوئی سوال اٹھانے کی جرات ہم تو نہیں کر سکتے لیکن یہ ضرور سوچتے ہیں کہ قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن میں شامل کر نے کی سب سے زیادہ تکلیف انہیں لوگوں کو کیوں تھی؟

اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اقلیتی کمیشن میں شامل ہونے والوں کو کھل کھیلنے کی آزادی مل جانی تھی تو بتائیے کہ یہ کیسے ممکن تھا کیونکہ اسی کمیشن کی کارروائی میں صرف ایک لائن لکھنے کی ضرورت ہوتی کہ فلاں فلاں اقلیت پر فلاں پابندیاں بدستور قائم رہیں گی، جس کے بعد کسی کو کسی بھی طرح سے کھل کھیلنے کی اجازت نہ ہوتی۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ستانوے فیصد مسلمان آبادی کے ملک میں ایک فیصد سے بھی کم قادیانی اپنے کسی ممکنہ ایجنڈے کو کامیاب کر سکتے ہیں تو اس پر سوال اٹھانے کے بجائے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ اسلام ہر اقلیت کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور اس تحفظ کے لیے ہمارے پاس اسلام سے روشن مثالیں موجود ہیں ایسے میں کوئی بھی یاوہ گوئی لائق توجہ ہر گز نہیں لیکن قادیانیوں سے خصوصی معاملے کی وجہ کچھ اور ہے۔

اگر پاکستان میں قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن کا حصہ بنایا جاتا ہے اور وہ اس سے انکار کرتے ہیں تو اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان انہیں ہر طرح کے حقوق دینے کی سوچ رکھتا ہے لیکن وہ لوگ خود ہی اس بات سے انکاری ہیں۔ دوسری طرف اگر وہ اقلیتی کمیشن کا حصہ بنتے ہیں تو ان کے شناختی کارڈ پر اس کا اندراج بھی ممکن ہو سکے گا اور ان کو عام مسلمانوں سے الگ شناخت بھی کیا جا سکے گا۔ ۔ ۔ اور یہی وہ نقطہ ہے جس کی ہمارے ہاں کے مذہبی سیاست دانوں کے پیٹ میں درد ہے۔

آج اس ملک کے طول و عرض میں کسی کو بھی قادیانی کہا جا سکتا ہے، کسی پر لگانے کو اور کوئی الزام نہ ملے تو ہم بڑی آسانی سے اسے قادیانی کہہ سکتے ہیں یا کم از کم قادیانی نواز تو کہہ ہی سکتے ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو اپنے چیف آف آرمی اسٹاف کو بھی بدنام کرنے کے لیے اس پر قادیانی اور قادیانی نواز کا الزام لگانے سے نہیں چوکتے۔ ہمارے ہاں کسی بھی شخص کو بدنام کرنا ہوتو گستاخ رسول اور قادیانی کا نعرہ لگانے میں دیر نہیں کی جاتی اور اس تصویر کا دوسرا رخ اتنا بھیانک ہے کہ کوئی بھی شخص اس نعرے کو سننے کے بعد ذرا دیر کے لیے بات سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا، واقعات اور حالات کا جائزہ لینا مناسب نہیں سمجھتا بلکہ توڑ پھوڑ اور مار دھاڑ کو اپنا مذہبی اور ایمانی ضرورت سمجھتا ہے۔

ایک ایسے معاشرے میں جب قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن میں شامل کر دیا جاتا تو بھلا بتائیں کہ پھر آپ کس منہ سے اور کس طرح کسی پر قادیانی ہونے کا الزام لگا سکتے تھے؟ کیسے کسی کو بدنام کرنے کی آزادی میسر ہو سکتی تھی؟ کیسے اور کس بہانے سے اخبارات اور چینلز پر جگہ بنائی جا سکتی تھی؟ کیسے لائم لائٹ میں آیا جا سکتا تھا؟ کیسے آسانی سے یورپ اور امریکہ میں پناہ کے لیے درخواست دی جا سکتی تھی؟ کیسے بیرون دنیا کے سامنے اپنے آپ کو مظلوم ثابت کر کے آپ ویزہ اپلائی کر سکتے تھے؟

کیسے غیر ملکی سفیروں اور نمائندوں سے خفیہ ملاقاتیں ممکن ہو سکتی تھیں؟ کیسے این جی اوز بنا کر اور اسلام کے تحفظ کے نام پر فنڈز کھائے جا سکتے تھے؟ مذہبی دکانداری کیسے چلائی جا سکتی تھی؟ کیسے ہر دوسرے تیسرے مہینے جلسے اور جلوس کیے جا سکتے تھے؟ کیسے لوگوں میں ایمان کے خاتمے کا ڈر پیدا کیا جا سکتا تھا؟ کیسے ہر سازش میں اپنے پسندیدہ کردار ڈالے جا سکتے تھے؟

سوالات ہزاروں ہیں اور سب کا ایک ہی جواب ہے کہ سب خواب خاک میں مل جائیں گے اگر قادیانیوں کی الگ شناخت ممکن ہو گی۔ ہمیں اسلام اور مسلمانوں سے جتنی ہمدردی ہے وہ ماہ رمضان میں پتہ چل ہی رہی ہے لیکن اپنے مفاد کتنے عزیز ہیں اس کی ایک مثال ہم نے پچھلے دنوں قائم کی۔ ہمیں قادیانی ہر حال میں جہاں ہیں جیسے ہیں کی بنیاد پر درکار ہیں تاکہ ہم ہر اپنے پر جب چاہیں قادیانی ہونے کا الزام لگا سکیں اور جب ضرورت ہو تو خود قادیانی چھتری تان کر بیرون ملک نکل سکیں اور یہ سب تبھی ممکن ہے جب قادیانیوں کا اسٹیٹس کو قائم رہے جس کے لیے کسی بھی اقلیتی کمیشن کو متنازع بنانا بہت ضروری ہے۔ آئیے مل کر اس کمیشن کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تاکہ ہمارے مفاد اور خواب پورے ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments