سچ تو ہے پر کچھ اور نظر آتا ہے


اس وقت مسلم لیگ ( ن) نے بھی نیب کے خلاف ہر فورم پر اپنی آواز بلند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ چوہدری برادران یعنی قاف لیگ پہلے ہی نیب کے خلاف اعلان جنگ کر چکی ہے، انہوں نے نیب کو سیاسی انجینئرنگ کرنے والا ادارہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان نیب کی وساطت سے سیاسی معاملات طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، نیب 34 سال پرانے کیسز کھول کر اپنا مذاق خود اڑا رہا ہے۔ نیب کے مقدمات نئے ہوں یا پرانے، یہ سوچ کر حیرانی ہو تی ہے کہ کچھ لوگ کیسے سمجھ لیتے ہیں کہ جرم پرانا ہو جائے تو جرم نہیں رہتا، وہ شاید بھول جاتے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف مقدمات تو ان کے مقدمات سے بھی کہیں پرانے تھے۔

دیر یا سویر نیب ہی وہ واحد ادارہ ہے جس نے بڑے بڑے لوگوں کو گرفتار کیا اور کسی محکمے میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ بڑے اشرافیہ کے سامنے کھڑا ہو سکے، نیب کے حوالے سے ایک عام تاثر یہ بھی عام ہے کہ کہ وہ جنہیں گرفتار کرتے ہیں، کچھ دن بعد ان کی ضمانتیں ہو جاتی ہیں، کیو نکہ نیب والے ان کے خلاف واضح ثبوت فراہم نہیں کر پاتے، نیب والے جتنے ثبوت فراہم کرتے ہیں اگر اتنے ثبوت کسی غریب کے خلاف مہیا کر دیے جائیں تو ان کی ضمانت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا، فرق صرف یہ ہے کہ بڑے طاقتور اشرافیہ کے پاس وسائل کی کمی نہیں، وہ قانون کی گرفت سے نکلنے کا راستہ نکال لیتے ہیں۔

اس وقت تک جتنے بھی لوگ ضمانتوں پر ہیں، ان میں سے نوے فیصد کے کیس اتنے مضبوط ہیں کہ ضمانت کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا، مگر وہ نہ صرف آزادی سے گھوم رہے ہیں، بلکہ انتقامی سیاست کا شور بھی مچا رہے ہیں۔ عوام بخوبی جانتے ہیں کہ اشرافیہ کے بڑے بڑے لوگ، بڑے بڑے کاروباری افراد، بدعنوانی کا سرچشمہ ہیں، نیب کے سوا کوئی ان کے تعاقب میں نہیں، اس کے باوجود صرف انہیں پکڑا جاتا ہے، مگر سزا و جزا تک نہیں پہنچایا جاتا، یہ بات سچ ہے پر پس پردہ کچھ اور بھی نظر آتا ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ گزشتہ دور اقتدار میں نیب کو سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے، اسی لیے چوہدری برادران نے نیب کے خلاف کورٹ رٹ دائر کی ہے۔ معاملہ صرف رٹ کے دائر کرنے تک نہیں رہا، بلکہ اس کے ساتھ ( ق ) لیگ نے حکومت کے ساتھ اپنی ناراضگیوں کا پنڈورا بکس میڈیا میں کھول دیا ہے۔ چوہدری برادران اور عمران خان کے درمیان سب کچھ ایک عرصہ دراز سے ٹھیک نہیں چل رہا ہے، لیکن چوہدری برادران کی سیاست کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ وہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی سیاسی راستہ نکالنے کا فن جانتے ہیں، جوش کی بجائے ہوش میں فیصلے کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔

وہ سیاسی اختلافات کو ذاتی اختلافات نہیں بناتے، وہ کوشش میں رہتے ہیں کہ سیاسی معاملات کو سیاسی سوجھ بوجھ کے ذریعے حل کر لیا جائے، جبکہ عمران خان کا خیال ہے کہ جب تک انھیں مقتدر قوتوں کی حمایت حاصل ہے چوہدری برادران کی ناراضگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ دوسری طرف (ن) لیگ چوہدری برادران اور عمران خان کے درمیان ان ناراضگیوں کا بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عمران خان سے شدید اختلافات کے باوجود چوہدری برادران ابھی تک ( ن) لیگ کے ٹریپ میں نہیں آئے ہیں، تاہم بیک ڈور سیاسی رابطے زور شور سے جاری ہیں اور اب تو مسلم لیگی رہنما (ق) لیگ کو علانیہ مشورے بھی دینے لگے ہیں کہ وہ پنجاب حکومت سے الگ ہو جائیں، دن بدن خراب ہوتے حالات میں یہ کہنا کافی مشکل ہے کہ کب چوہدری برادران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا۔

سیاست اتار چڑھاؤ کا دوسرا نام ہے، اس میں گزرتے وقت کے ساتھ حالات و واقعات بدلتے رہتے ہیں، چوہدری برادران سیاست کے نشیب و فراز کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہوئے سیاسی وضع داری میں ممتاز مقام رکھتے ہیں، وہ دوستی اور تعلق میں منافقت کی بجائے صداقت کے قائل ہیں، وہ عام طور پر الزام تراشی کی سیاست کے قائل نہیں، لیکن ’سچ تو یہ ہے‘ میں انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر حقیقت بیان کردی ہے، جہاں تک نیب مقدمات کی بات ہے تو چوہدری خاندان کے لیے نیب سے نبٹنا کوئی نئی بات نہیں ہے، انہوں نے ماضی میں نیب کے اپنے گھر چھاپے بھی دیکھے اور دفاتر کے کونے کونے کی تلاشیاں بھی دی ہیں، لیکن تمام نیب انکوائریوں میں کچھ بھی نہیں نکل سکا، بلکہ جنہوں نے انکوائریاں شروع کروائیں، انہوں نے ہی چوہدری پرویز الہیٰ کو وزیر اعلیٰ پنجاب اور چوہدری شجاعت حسین کو وزیر اعظم پاکستان بنایا تھا، تا ہم حیرانی کی بات ضرور ہے کہ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم بننے کے باوجود وہ اپنے خلاف نیب انکوائری بند نہیں کروا سکے تھے۔

اسی وجہ سے آج بیس سال بعد اس ایک انکوائری کی تین انکوائریاں بنانے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ نیب ایک خود مختار آزاد ادارہ کی حیثیت سے کرپشن کے خلاف کارفرما ہے، مگر سیاسی انجینئرنگ کے تاثر کو زائل کرنا بھی ادارہ کی اپنی ذمہ داری ہے۔ اگر نیب اپنے مقد مات کو بلا امتیاز متقی انجام تک پہنچانے کی سعی کرے تو کیسے ممکن ہے کہ اس پر سیاسی انتقام اور سیاسی انجینئرنگ کے الزامات لگیں، نیب کے کمزور پہلووں کی نشاندہی کے ساتھ اس کے قوانین کے سقم دور کرنا بھی حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔

اس سے قطع نظر کہ سیاسی حالات کتنے بھی خراب کیوں نہ ہو جائیں، چوہدری برادران کو برے سے برے حالات بدلنے کا فن آتا ہے۔ اسی لیے آج بھی عمومی رائے یہی ہے کہ عمران خان انھیں برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، لیکن وہ پنجاب کے اقتدار میں مضبوطی سے مو جود ہیں۔ نئے اسکرپٹ لکھے جانے کی باتیں کرنے والوں کو خوابوں کی دنیا سے باہر نکل آنا چاہیے، اپوزیشن کی مقتدر قوتوں سے سب توقعات دم توڑنے لگی ہیں، میاں شہباز شریف کا وزیر اعظم بنے کا خواب جہاں چکنا چور ہوا، وہاں بہت سے دوسرے لائن میں لگے مایوس ہورہے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان وقت کے ساتھ کمزور ہونے کی بجائے مضبوط ہو رہے ہیں۔ چوہدری برادران کے خلاف نیب کے حالیہ اقدامات کے پیچھے نہ حکومت کا کوئی ہاتھ ہے اور نہ ہی حکومت کو کمزور کرنے کی کوئی کوشش ہو رہی ہے۔ اپوزیشن نیب کے خلاف رٹ کو بارش کا پہلا قطرہ ضرور سمجھ رہی ہے ا ور انھیں اس میں سے ایک لمبی سیاسی روشنی نظر آ رہی ہے، جبکہ اہل سیاست، چوہدری برادران کو عدالت سے ریلیف ملتا دیکھ رہے ہیں، اس طرح نیب اور حکومت پر الزام بھی نہیں آئے گا اور چوہدری برادران کو مکمل کلین چٹ بھی مل جا ئے گی۔

سیاست میں کچھ بھی بعید نہیں، سب کچھ بظاہر سچ تو ہے پر کچھ اور نظر آتا ہے، اگر ایسا ہو جاتا ہے تو اپوزیشن کی امیدوں پر ایک بار پھر پانی پھر جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) چوہدریوں کے کندھوں پر عمران خان حکومت کمزور کرکے گرانا چاہتی ہے، جبکہ وہ مضبوط ہو رہی ہے، جس کا انھیں شاید ابھی اندازہ نہیں، مگر بہت جلد یقین ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments