آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا


وہی ہوا جس کا ڈر تھا، کراچی میں ایک سرکاری اسپتال سے ریٹائر ہونے والے ڈاکٹر فرقان وینٹی لیٹر کی تلاش میں ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال کا چکر کاٹتے کاٹتے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان کی اہلیہ مدد کو پکارتی رہیں لیکن کوئی آگے نہیں بڑھا وہ خود اپنے شوہر کو اسٹریچر پر ڈال کر مسیحاؤں کو ڈھونڈتی رہیں۔

حالات یہاں تک ایسے ہی نہیں پہنچے، کافی وقت ملا حکمرانوں کو یہاں تک پہنچانے کے لیے اور انہوں نے بھی اس وقت کا بھرپور فائدہ اٹھایا کیسے؟ دو ہفتے کے حالات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

لاک ڈاؤن، سخت لاک ڈاؤن، نرم لاک ڈاؤن، ٹارگٹڈ لاک ڈاؤن۔ ۔ ۔ لاک ڈاؤن نہیں کرفیو۔ ۔ ۔ کرفیو نہیں لاک ڈاؤن۔ ۔ ۔ سخت لاک ڈاؤن کرفیو ہی ہے۔ نہیں نہیں۔ لاک ڈاؤن کرفیو کی ایک شکل ہے۔ نہیں اسمارٹ لاک ڈاؤن کریں گے۔

یہ تھے وہ عظیم مباحث جس نے پوری قوم کو تذبذب میں ڈال دیا اور خود حکمرانوں کے ”آنسو“ نکل آئے۔ وفاق کے حامی مراد علی شاہ کے آنسوؤں کو پبلک اسٹنٹ قرار دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے جب کہ وزیراعظم کی منہ بسورے رونے کی ویڈیو وائرل ہونے سے سندھ کے حامی بھی ”آ گیا تو جوان ہوکر“ کے مصداق موقع غنیمت جان کر سوشل میڈیا پر محاذ سنبھال چکے ہیں۔

اس دوطرفہ گولہ باری میں وفاقی وزرا نے بھی اپنا پورا حصہ ڈالا، سندھ کے وزرا تو پہلے ہی ملاکھڑے کے لیے تیار تھے لیکن اس تمام منظر نامے میں کورونا وائرس کہیں کھو گیا ہے جس کے پاکستان میں متاثرین ہر گزرتے روز کی طرح بڑھتے گئے یہاں تک کہ اسپتالوں میں نیم مردہ حالت میں لائے گئے مریضوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا۔

انڈس اسپتال کراچی میں مردہ حالت میں لائے گئے مریضوں کا ڈاکٹرز  نے اپنی مرضی سے لعاب دہن کا ٹیسٹ کیا، دو یا تین مریضوں میں کورونا کا ٹیسٹ مثبت آ گیا، اسی طرح جناح اسپتال میں بھی طبی امداد کے دوران دم توڑ دینے والوں مریضوں میں سے کچھ کا ایکسرے کیا گیا۔ یہ ایکسرے جب سینیئر ڈاکٹرز نے دیکھے تو تصدیق کی کہ پھیپھڑوں کی ایسی حالت کووڈ۔ 19 کے مریضوں میں دیکھی گئی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے رہنما اصولوں کے تحت مردہ مریض کا کورونا وائرس ٹیسٹ کا نتیجہ صرف اسی صورت میں آ سکتا ہے جب موت کے ایک گھنٹے کے اندر اندر لعاب دہن کا نمونہ لے لیا گیا ہو اور چوں کہ کراچی کے اسپتالوں میں لائے گئے اکثر مریض مردہ حالت میں لائے گئے اور ان کی روح پرواز کیے کئی گھنٹے ہوچکی ہوتی ہے اس لیے کورونا وائرس کا ٹیسٹ بے سود ثابت ہوگا۔ ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ کورونا وائرس کے ٹیسٹ کا نتیجہ دو یا تین دن بعد آ رہا ہے اور تب تک لواحقین بغیر احتیاطی تدابیر اختیار کیے اپنے پیاروں کو دفنا چکے ہوتے ہیں۔

وفاق اور صوبے بھلے ہی مخالف سمتوں پر گامزن ہوں لیکن ایک بات پر دونوں ہی متفق ہیں کہ کورونا وائرس کے کم کیسز آنے کی وجہ ٹیسٹنگ کا مناسب تعداد میں نہ ہونا ہے۔ کراچی میں پراسرار اموات اور زیادہ تر مریضوں کے مردہ حالت میں اسپتال لایا جانا اس جانب اشارہ ہو سکتا ہے کہ کورونا وائرس کے مریضوں کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ نے اپنی پریس کانفرنس میں ہاتھ جوڑ کر اور روہانسے ہوئے اسی خدشے کا اظہار کیا تھا۔

بظاہر وزیراعظم کو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہے، گو انہوں نے لاک ڈاؤن میں توسیع کردی ہے تاہم تعمیراتی شعبے سمیت کئی صنعتوں اور چھوٹے کاروبار کھولنے کی اجازت دیدی ہے۔ سندھ نے وفاق سے اختلاف کا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے صوبے میں لاک ڈاؤن کو مزید سخت کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ کراچی کے تاجر جزوی لاک ڈاؤن سے نالاں ہیں۔ انہوں نے دھمکی دی کہ یا تو کرفیو نافذ کر کے سب بند کر دیا جائے یا پھر سب کو کاروبار کھولنے کی اجازت دیدی جائے۔

یہ تو تھیں ہماری سر مستیاں، اب دیکھتے ہیں دنیا بھر میں کیا ہو رہا تھا۔ ۔ ۔

چین کے صوبے ہوبی کے شہر ووہان میں گزشتہ برس نومبر میں پراسرار وائرس نے انسانوں کا شکار شروع کیا تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ چار ماہ بعد یہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ چین کو اس وائرس کا کھوج لگانے میں دو ماہ لگے اور اسے ناول کورونا کا نام دیا گیا جبکہ اس سے پیدا ہونے والی بیماری کو ”کووڈ۔ 19“ کہا گیا۔ چین نے سخت اقدامات اٹھائے، اتنے سخت کہ اس وائرس کی ووہان سے نکل کر شنگھائی، بیجنگ یا دوسروں شہروں میں دہشت پھیلانے کی مجال نہیں ہوئی۔ زیادہ تر کیسز ووہان میں ہی رپورٹ ہوئے اور زیادہ اموات بھی اسی شہر میں ہوئیں۔

چین کے پاس جادو کی کون سی چھڑی تھی جس سے پوری دنیا میں سبک رفتاری سے پھیلنے والا وائرس چین کے ایک ہی شہر میں بند رہا اور دیگر شہروں میں اس کا زور کم ہی چلا۔ دوسری جانب دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اس وائرس نے کسی بڑے شہر کو آفت گیری سے نہ بخشا اور اب تک یہ بے قابو ہی نظر آتا ہے۔ چین کے پاس وہ جادو کی چھڑی ”لاک ڈاؤن“ تھی۔ ایک مقصد ایک ہدف تھا کہ اس وائرس کو شکست دی جا سکے چاہے پورا شہر بند کر دیا جائے۔ ان اقدامات کے باعث چین میں صرف 3 ہزار 352 ہلاکتیں ہوئیں۔

دوسری طرف کورونا وائرس جب اٹلی پہنچا تو اس کا استقبال ڈھٹائی کی حد تک لاعلمی سے کیا گیا، ہمیں تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کی خوش فہمی میں مست جنتا اس وقت جاگی جب پانی سر سے گزر چکا تھا اور 6 مئی تک یہ مہلک وائرس 30 ہزار سے زائد انسانی جانیں لے چکا ہے۔ دنیا بھر میں ہلاکتوں میں اٹلی دوسرے نمبر پر ہے۔

اٹلی کی کیا بات کریں جب سپر پاور امریکا بھی کورونا وائرس کو چائنا وائرس کہہ کر الزام تراشیوں اور خوش فہمیوں میں جیتا رہا یہاں تک کہ اب دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہلاکتیں امریکا میں ہوئی ہیں۔ 62 ہزار 700 امریکی ہلاک ہوچکے ہیں۔ تیسرا نمبر برطانیہ کا ہے جہاں ہلاکتوں کی تعداد 28 ہزار سے زائد ہے جب کہ اسپین میں 25 ہزار 425 اور فرانس 25 ہزار 165 ہلاکتوں کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔ اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ایران میں ہوئی جہاں 6 ہزار سے زائد لقمہ اجل بن گئے ہیں۔

ان ممالک نے سخت لاک ڈاؤن کرنے کے فیصلے میں خاصی تاخیر سے کام لیا جس کا خمیازہ کئی گنا زیادہ ہلاکتوں کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ چین میں کم ہلاکتوں کی وجہ اس کے بروقت اور سخت فیصلے تھے جب کہ اس کے مقابلے میں امریکا، برطانیہ، اٹلی، اسپین اور فرانس نے ردعمل دینے میں کافی وقت لیا۔ چین جہاں سے کورونا وائرس کی ابتدا ہوئی اب اس وائرس کے اثر سے باہر آ چکا ہے۔

چین سے سبق نہ سیکھنے والے ممالک میں اس وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 2 تک جا پہنچی ہے اور ان میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ ان ممالک میں طبی سہولیات میں ہی کمی سامنا نہیں بلکہ ایک دن میں ہزار ہزار مریضوں کی موت سے لاشیں دفنانے کا نظام بھی ٹھپ ہوتا جا رہا ہے۔ کئی ممالک میں اجتماعی قبروں میں ایک ساتھ درجنوں میتوں کو دفنایا جا رہا ہے جب کہ ایکواڈور میں ایسا وقت بھی آیا جب لاشوں کو اسپتال کے باہر سڑکوں اور گھروں سے اٹھانے کے لیے تربیت یافتہ عملے کے مصروف ہونے پر لاشوں کی باری دو دو دن میں آئی۔ تب تک لاشیں سڑکوں یا کمروں میں پڑی رہیں۔

ہر ملک کے اپنے معروضی حالات ہوتے ہیں۔ چین ہم سے ہر لحاظ سے کئی گنا بہتر ملک ہے اور اس کی معیشت طویل و سخت لاک ڈاؤن کی متحمل ہو سکتی ہے۔ پاکستان جیسے غریب ملک جس کے صحت کا نظام ناقص، انفرا سٹرکچر تباہ اور تربیت یافتہ لوگوں کا فقدان ہو چین کی طرح نتائج دینے سے قاصر ہے اور سب سے بڑی رکاوٹ ”غربت“ ہے۔ وزیراعظم بھی ان دہاڑی دار طبقے کے بیروزگار ہوجانے سے پریشان ہیں اور سخت لاک ڈاؤن کے خلاف ہیں جب کہ سندھ کا موقف ہے کہ زندہ رہیں گے تو کمائیں گے اس لیے اولین ترجیح لاک ڈاؤن ہے۔

کتنا اچھا ہوتا اگر ایک ٹیم کی طرح کام کرتے ہوئے صوبے سخت لاک ڈاؤن کرتے اور وفاق غربا، بیروزگار اور دہاڑی دار طبقے کے گھروں پر پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں یا مردم شماری کے عملے کی مدد سے گھر گھر دستک دیتا۔ جسے ضرورت ہوتی اسے راشن فراہم کیا جاتا اور جو صاحب حیثیت ہوتے انہیں ان کے محلے میں موجود حقدار کا پتہ بتا کر کہا جاتا کہ آپ بھی مدد کریں اور وفاق بھی اپنی استطاعت کے تحت کرتا رہے گا۔

اس طرح نہ صرف بھیڑ لگائے بغیر راشن تقسیم ہوجاتا بلکہ ڈیٹا بھی تیار ہوجاتا کہ وفاق کو کتنے گھروں میں راشن فراہم کرنا ہے۔ ابھی تو یہ حال ہے کہ سفید پوش شرم کی وجہ سے بھوکے سو رہے ہیں اور پیشہ وروں کو اتنا راشن مل گیا ہے کہ گھر میں بھی ذخیرہ کر لیا اور

باقی راشن بیچ کر رقم بھی ہتھیالی۔

سندھ اور وفاق کے درمیان دھینگا مشتی اپنی جگہ لیکن عوام نے احتیاط اور ضبط کا دامن نہیں چھوڑا، ڈاکٹرز کی بار بار کی پریس کانفرنس کا بھی کوئی اثر نہ ہوا اور وینٹی لیٹر ڈھونڈتے ڈھونڈتے دم توڑ دینے تک جا پہنچی۔ غالب کی غزل ایک مصرعہ یاد آ رہا ہے۔ ۔ ۔

آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments