تئیس ہزار کا دوپٹہ، تین ٹکے کی غربت


چند روز پہلے، سوشل میڈیا پر ایک ٹویٹ نے کافی شور مچا رکھا تھا جس میں درخت کی شاخ پر دو دوپٹے لہرا رہے تھے۔ عمومی طور پر شاخ پر الو بیٹھتا ہے لیکن یہاں الو بنانے والے دوپٹے تھے۔

اس ٹویٹ کو لکھنے والے خود بھی ایک بہترین فوٹوگرافر ہیں اور انہوں نے نہ صرف دوپٹے کی قیمت پر ہم غریبوں کا دھیان کروایا بلکہ یہ بھی بتلایا کہ یہ کس قسم کی تصاویر ہیں۔ مجھے لگتا ہے اوسط درجے سے نیچے کی ہوں گی کیوں کہ الو کی آرامگاہ کو آپ نے ململ کے دوپٹے کی آماجگاہ بنا دیا۔

خیر، بندر کیا جانے ادرک کا سواد!

ہم ٹھہرے مڈل کلاس اور ہمارے پاس اس دور میں اگر اضافی 20 ہزار آ بھی جاتے تو ہم اسے درخت پر لٹکانے کے بجائے کسی غریب کا راشن ڈلوا دیتے، کرایہ دے دیتے، بل یا فیس بھروا دیتے۔

پہلے پہل ہمیں لگا کہ کون اس قسم کے واہیات مہنگے دوپٹے خریدے گا جن میں نہ تو سونے کے تار کا کام ہے، نہ فیروزے یاقوت کا جڑاؤ! جب آس پاس دیکھا تو پتہ چلا پاکستانی قوم جوش و خروش سے عید منانے کا ارادہ رکھتی ہے اور کیوں کہ موسم گرما ہے تو ایسے جا بجا ڈیزائنر ہیں جو ململ اور سوتی کی قمیضیں ہزاروں میں بچ رہے ہیں اور خواتین لہک لہک کر خرید بھی رہی ہیں۔

غلطی سے ایسی ہی ایک خاتون کو ہم نے عادت سے مجبور ہو کر ٹوک دیا کہ دور خراب ہے، وبا پھیلی ہوئی ہے، لوگوں کے پاس اگلے وقت کا کھانا نہیں ہے، تو وہ کیوں 15 ہزار کا جوڑا لے رہی ہیں؟ جواب آیا انہوں نے اپنے حصے کی زکٰوة اور فلاحی کام انجام دے لئے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف اپنے حصے کا فلاحی کام کردینا کافی ہے؟ کیا اصراف کی کوئی پوچھ نہیں ہے؟ کیا ہم ایک سال عید پر بنا نئے جوڑے کے نہیں رہ سکتے؟

دسمبر 2019 میں، ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق پاکستان جون 2020 تک غربت کی چالیس فیصد سے اوپر کی سطح پر موجود ہوگا۔ اس کے نتیجے میں تقریباً ستاسی ملین لوگ غربت کی زندگی گزاریں گے۔ یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام تجزیہ نگاری، کورونا وائرس پھیلنے سے پہلے کی ہے۔

اس عالمی وبا سے تیسری دنیا کے ممالک کی اقتصادی حالت شدید کمزور ہوگئی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ایان گولڈنگ کا ماننا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا ہماری زندگی کی سب سے بڑی آفت ہوگی جس کا براہ راست اثر ترقی پذیر ممالک پہ ہوگا۔ خصوصی طور پر وہاں رہنے والوں کی صحت اور معاشی حالت اثر انداز ہوگی۔

اس وقت ملک میں جہاں ایک طرف لاک ڈاؤن کو کھولنے کی بات ہو رہی ہے تو دوسری طرف اس سے ہونے والے نقصانات کا بھی ذکر ہے۔ ان سب کے بیچ آپ کو ملے گا سرمایہ دار نظام اور مادیت پسندی!

کورونا وائرس کے نتیجے میں بازار بند ہونے کے باعث تمام برانڈز اور ڈیزائنر نے آن لائن شاپنگ میں شدید تیزی پیدا کردی ہے۔ عام دنوں میں مارچ اپریل کے مہینے میں Spring/Summer Vol-1 آیا کرتا تھا جو اس بار بھی آیا لیکن تیس سے چالیس فیصد چھوٹ کے ساتھ! جو پیسے عوام نے سیل کے نام پر وہاں بچائے، وہ اب عید کے جوڑوں پر خرچ ہوں گے۔

پچیس ہزار، اٹھارہ ہزار، اور کم سے کم گیارہ ہزار کے عید کے جوڑے دیکھے گئے ہیں جو لوگ آرڈر بھی کر رہے ہیں، سلوا بھی رہے ہیں، اور یقیناً عید پر پہنے بھی جائیں گے۔ اب دیکھیں نا غریب ویسے بھی پچیس ہزار کا کیا کرے گا؟ وہ تو بمشکل روز کا آٹھ سو یا ہزار کما لیتا تھا۔

آپ لوگ امیروں سے جلتے ہیں۔ اب دیکھیں اگر آپ نے بھی کسی غریب کا حق مارا ہوتا، کم سے کم اجرت پر مزدوریاں، کاری گری کروائی ہوتی، تازہ کی جگہ جھوٹا کھانا دیا ہوتا، کم عمر سے گھر کا جھاڑو پوچا لگوایا ہوتا تو آج آپ بھی پچیس چھوڑیں، پینتیس ہزار کا جوڑا پہنتے!

دنیا نے بہت ترقی کرلی ہے اور ہمارے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے سیاسی، معاشی، مذہبی، یا فقہی اختلافات کرونا وائرس کی وبا کے آگے بے معنی ہیں۔ غربت جرائم کو جنم دیتی ہے۔ اس لئے بہتر ہوگا، ہم غربت کی نشو و نما کا حصہ نہ بنیں اور اپنی دولت اور آمدن کو مساوات کے ساتھ استعمال کریں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس تئیس ہزار کے دوپٹے کو کسی کی موت اور بھوک کا پھندا بننے کا موقع نہ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments