تعلیم کے وائرس کی بات


تدریس کے شعبے سے منسلک ہونا خوشی اور تفاخر کا باعث ہوتا ہے۔ اس پیشے کو جتنی اہمیت دی جاتی ہے، یہ اس سے کہیں زیادہ اہمیت کا متقاضی ہے۔ مخصوص حالات میں تو طلبہ و طالبات، اساتذہ اور تعلیمی اداروں سے منسلک تمام افراد ایک خاص منظم زندگی گزارتے ہیں۔ البتہ جہاں غیر معمولی حالات سامنے آ جائیں، وہاں روزمرہ روٹین سے ہٹنا پریشان کن ہو جاتا ہے۔ گزشتہ کچھ مہینوں سے کرونا وائرس سے جو معمولات متاثر ہوئے ہیں، ان میں تدریسی عمل سر فہرست ہے۔ کرونا کی خبر پھیلنے کے بعد سب سے پہلے جو ادارے بند کیے گئے تھے، وہ تدریس سے متعلق ہی تھے۔ اور اعلان ایسے وقت میں کیا گیا، جب سالانہ امتحانات سر پر تھے۔ لہذا طلبہ و طالبات، والدین اور اساتذہ کا تشویش میں مبتلا ہونا لازمی امر تھا۔

فروری، مارچ سے اب تک اس ضمن میں جن اعلانات کا انتظار کیا جا رہا تھا، وہ آج وفاقی وزیر تعلیم جناب شفقت محمود کے ذریعے سامنے آ گئے ہیں۔ اور جیسے ہی یہ اعلانات کیے گئے ہیں، چہ مگوئیوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ مجموعی طور پر ان اعلانات کو مایوس کن کہا جا رہا ہے۔ بہ ظاہر صرف اسکولوں کے کھلنے کی مدت بڑھائی گئی ہے اور امتحانات میں رعایت کی خبر سنا کر طلبہ و طالبات کی تشویش کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ ان فیصلوں سے بہ ظاہر، طلبہ و طالبات اور والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی ذمہ داری فی الوقت ختم ہو گئی اور کچھ نے سکو ن کا سانس بھی لیا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ کچھ پہلو ابھی مبہم بھی ہیں، جن پر بات کی جا رہی ہے۔

زیر نظر تحریر میں ان فیصلوں کے نتیجے میں آئندہ آنے والے مسائل پر بات کرنا مقصود ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ پاکستان کی تعلیمی پالیسی کے مطابق سالانہ ترقی کا دار و مدار امتحانات کے طریقہ کار پر رہا ہے۔ نہ پڑھنے والے بچے بھی امتحانات کے قریب آ کر سنجیدگی سے پڑھائی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ہمارا امتحانی نظام کچھ ایسا ہے کہ سال بھر کی پڑھائی ایک طرف اور وہ تین گھنٹے ایک طرف جو میٹرک سے پی ایچ ڈی تک، کسی طالب علم کی ذہنی سطح کو جانچنے کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں۔

اچانک، وہ تین گھنٹے غائب کر دیے جائیں تو طلبہ کے ذہنی معیار کو جانچنے کا پیمانہ آخر کچھ اور تو ہو گا؟ کوئی متبادل طریقہ کار۔ شاید مختصر مدتی امتحان، شاید مختصر سوالات پر مبنی پرچے، شاید انٹر نیٹ کے ذریعے امتحان۔ ۔ ۔ یہ تمام صورتیں متوقع تھیں اور طلبہ و طالبات پوری توجہ سے نہ سہی، کچھ نہ کچھ ضرور پڑھ رہے تھے۔ ان کی زندگیوں سے ایک پیمانہ اچانک غائب ہونے کا کیا اثر ہو گا؟

ان میں وہ تمام طلبہ و طالبات بھی شامل ہیں، جو ایک سال کا امتحان دے چکے تھے اور دوسرے سال کا امتحان دینا چاہتے تھے، کچھ گزشتہ سال محنت کر کے ٹاپ کر چکے اور اپنی پوزیشن کو برقرار رکھنا چاہتے تھے، تا کہ پیشہ وارانہ کالجوں میں داخلہ بے فکری سے لے سکیں۔ امتحان نہ لینے کا اعلان ان پر بھی ایک بجلی کی طرح گرا۔ اب ان کی پوزیشن کا کیا ہو گا؟

فرض کیجیے، کچھ بچے گزشتہ سال کسی بیماری، عارضے یا خاص وجہ سے فیل ہو گئے، اور اس برس انہوں نے پوری دل جمعی سے تیاری کر کے امتحان دینے کا ارادہ کیا تھا، اب انہیں لازمی فیل ہونا پڑے گا۔ وہ اگلے برس امتحان کی تیاری کیسے کریں گے؟

وہ طلبہ و طالبات جو گزشتہ چار سالوں سے اس انتظار میں تھے کہ انٹرمیڈیٹ کا امتحان دے کر، کسی پیشہ وارانہ کالج میں تیاری کے امتحان میں بیٹھیں گے اور مروجہ طریقہ کار کے مطابق کہیں نہ کہیں چانس لگ جائے گا اور ای سیٹ ان کی منتظر ہو گی۔ ان کے سہانے خوابوں کا اب کیا ہو گا؟

جن بچوں کا داخلہ کسی یونی ورسٹی میں ہو گا، ان سے پہلے پڑھنے والے بچے اپنی تمام تر محنت کے نتیجے میں جہاں پہنچے، اس برس بغیر محنت کیے بچوں کو اپنے برابر دیکھ کر کس ذہنی مسئلے کا شکار ہوں گے؟

پھر یہ کہ اب تک بچوں کی رجسٹریشن، امتحانی فیسیں جمع کی جا چکی ہیں۔ امتحان نہ لینے کی صورت میں والدین اور بورڈ انتظامیہ کے درمیان ایک نیا تنازع ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا جواب دہ کون ہو گا؟

سرکاری ادارے تو کسی نہ کسی طرح اس صورت حال کا سامنا کر لیں گے، لیکن جو پرائیویٹ ملازمین امتحان کے عمل مین مدد گار ہوا کرتے تھے، اور روزی روٹی کماتے تھے، ان کی مایوسی کا کوئی حل ہو گا؟

فی الوقت تعلیمی اداروں کی بندش کا دورانیہ 15 جولائی تک بڑھایا گیا ہے، جس کا مزید امکان ملکی حالات کی روشنی میں کیا جائے گا۔ ایسی صورت میں پرائیویٹ اداروں کا کیا مستقبل ہو گا؟ جو کرائے کی عمارتوں کو استعمال کرتے، اساتذہ اور دیگر عملے کو بچوں کی فیسوں سے تنخواہ دیتے اور بہت سے گھروں میں چولہا جلاتے ہیں؟

جو لوگ تعلیم و تدریس سے منسلک ہیں وہ بہ خوبی جانتے ہیں کہ اس پیشے میں ایک بڑی تعداد، ان اساتذہ کی ہے جو مستقل نہیں۔ ڈیلی ویجز یا کنٹریکٹ کی شکل میں مختلف اداروں میں پڑھاتے ہیں۔ وزیٹنگ اساتذہ کی حیثیت بھی ان مزدوروں جیسی ہے جو روزانہ مزدوری کر کے اپنا گھر چلاتے ہیں۔ یا یوں کہیے کہ روز کنواں کھود کر پانی لاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی غیر معینہ بندش ان پر بھی اسی طرح اثر انداز ہوئے، جس طرح کسی عام مزدور کی۔

بہ جائے اس کے کہ ہم بہ یک جنبش قلم، ان تمام مسائل میں گھر جاتے، کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ گزشتہ دو تین ماہ میں امتحانات کا کوئی طریقہ کار وضع کیا جاتا۔ خواہ وہ 100 مختصر سوالات ہی ہوتے، جن کے جوابات انٹر نیٹ کے ذریعے بورڈز میں لے کر ان کی بنیاد پر نتائج مرتب کر دیے جاتے،

یا پھر 50 فی صد، گزشتہ کارکردگی کی بنا پر امسال 50 فی صد کورس کا امتحان لے لیا جاتا۔

کئی امکانات پر غور کیا جا سکتا تھا۔ جن میں افرادی قوت کو استعمال کیا جاتا، ادارے اپنے وسائل کو دھکا سٹارٹ کیے رکھتے، لیکن اب تو فیصلہ ہو چکا۔

تعلیمی ماہرین کے مطابق امتحانات کے بالکل نہ ہونے سے تعلیمی اداروں کے مسائل میں یقینی طور پر اضافہ ہو گا۔ اور ان کے ذہنی، معاشی، نفسیاتی، تعلیمی اثرات آئندہ تعلیمی سال میں کرونا ہی کی طرح کے خطرناک وائرس کی مانند سرایت کریں گے۔ جس سے تعلیمی عمل کی روانی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments