کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا


مجھے کہہ دیا جاتا ہے کہ میں مذہب کے معاملے میں نہ بولوں کیونکہ یہ بڑا حساس معاملہ ہے اور لوگوں کی دل آزاری ہو سکتی ہے اور جب کسی کی دل آزاری ہو تو وہ رد عمل کے طور پر کچھ بھی کر سکتا ہے۔ بات تو بالکل سچ ہے، کسی کی دل آزاری نہ ہو اور کسی کی حساسیت کو ٹھیس نہ پہنچے میں کسی بھی مذہبی معاملے میں بولنے سے پہلے سو دفعہ سوچتی ہوں اور اب تو اتنا سوچتی ہوں کہ بس سوچتی ہی رہ جاتی ہوں اور کچھ بولتی نہیں۔ لیکن جب مجھے یہ احساس ہوا کہ میرا مذہب تو مجھ پر ایسی کوئی پابندی نہیں لگا رہا، وہ تو مجھے سوچنے، سوال کرنے، رائے قائم کرنے اور پھر اس پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے یہ مجھ پر پابندی تو میرے ارد گرد کے لوگ لگاتے ہیں۔

چپ کر جاؤ، یہ نہ کہو وہ نہ کہو۔ یہاں ”مجھ“ سے مراد صرف ”میں“ نہیں ہوں ہر وہ باشعور انسان جو خلاف حق بات دیکھے، تو سوچے، اور بول پڑے ( یا کم از کم دل میں ہی اسے برا سمجھے ) ۔ ایسے انسان کے عزائم بہت خطرناک ہوتے ہیں کہ وہ سب انسانوں کو انسان سمجھتا ہے اور کسی بھی سطح پر تعصب، جانبداری اور نا انصافی نہیں برداشت کر سکتا۔

ٹھیک ہے! مجھے اس اسلام میں نہیں بولنا چاہیے جو لوگوں نے اپنی پسند سے گھڑ کر اس کا ایک بت بنا دیا ہے یہ جانتے ہو ئے بھی کہ اسلام میں بتوں کی نہیں ایک خدا کی عبادت کی جاتی ہے۔ مگر مجھے تو اسلام کے نام پر جگہ جگہ ایسے ایسے بت کھڑے ملتے ہیں کہ جی میں آتا ہے کہ محمود غزنوی سے جا کر پوچھوں بتاؤ بھیا اتنی محنت کاہے کو کی تھی وہ جو سومنات کے بت ڈھاتے پھرتے تھے وہ سب بت تو اب اسلام میں سینہ تانے کھڑے ہیں۔ اب ان تکبر، انا اور نفرت کے بتوں کو توڑنے کی ضرورت ہے۔

آج کا زمانہ بہت بدل گیا ہے۔ قوت برداشت اتنی کم ہو گئی ہے کہ اسے حساسیت کا نام دے کر ”دل آزاریاں“ لمحوں کا کھیل اور اس کے رد عمل میں متاثرہ افراد، انتقاما کسی کو گولی مار دیں یا گھروں میں زندہ جلا دیں، ایک قابل قبول بات ہو کے رہ گئی ہے۔ میرا اسلام تو فطرت کا مذہب ہے اور انسان کی فطرت میں سوچنا اور دوسروں سے اختلاف کرنا رکھ دیا گیا ہے۔ شیطان کو بولنے کی آزادی نہ ہو تی تو وہ حضرت آدم کو سجدے سے انکار ہی نہ کرتا۔

ایک انسان کا دوسرے سے اختلاف نہ ہو تا تو یہاں سب کے سب مسلمان نہ ہو جاتے، وہ بھی سعودی عرب کے ہم خیال فرقے کے۔ ہر انسان دوسرے سے مختلف سوچ سکتا ہے، اس سوچ پر پابندی لگانا یا اس سوچ کی بنیاد پر کسی کو حتمیت سے جنتی اور کسی کو جہنمی قرار دینا یہ انسان کی صفت تو ہو سکتی ہے کسی خوف خدا رکھنے والے ”مسلمان“ کی نہیں۔ انسان کو تعلیم حاصل کرنے، تحقیق پر مائل کرنے والے مذہب کو صرف اور صرف ان عقیدوں کے گرد گھما دیا گیا ہے جس کا نہ تو کسی انسان کی سیرت سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی نظام زندگی چلانے میں کوئی عمل دخل۔ ٹخنوں پر شلوار ہو یا نہ ہو، داڑھی مٹھی بھر ہو یا اس سے زیادہ، نماز میں گھٹنے کہاں تک جھکیں اور ہاتھ کہاں پر بندھے ہوں، اور زیادہ تر ایسا مولوی زدہ اسلام بری عورتوں کے چال چلن اور حوروں کے حلیے اور رہن سہن کے گرد گھومتا رہتا ہے۔

”اسلام دین انسانیت ہے۔“ ہے کہ نہیں؟ وہ کسی ایک کی ملکیت نہیں اور حضرت محمدﷺ کی ذات پر کسی ایک قوم کی اجارہ داری نہیں۔ ”آپ انسان ہیں اپنی حد میں رہیں اور آپ کی حد یہ ہے کہ دوسرے انسان کو اس کے تمام تر وجود کے ساتھ تسلیم کریں۔“

ہمارے پیغمبر ﷺنے کہا تھا ”;تم ہر گز مومن نہیں ہو سکتے جب تک تم رحم نہ کرو، لوگو ں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، ہم میں سے ہر شخص رحم کرنے والا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم اپنے ساتھی پر مہربانی کرو بلکہ اس سے مراد تمام لوگوں اور تمام انسانوں کے ساتھ رحم کرنا ہے۔“ ۔

مولانا وحید الدین خان اپنی کتاب ”دین انسانیت“ میں لکھتے ہیں کہ ”اسلام کی بنیاد پر بننے والا انسان کا مزاج اپنے آپ اس کو تمام انسانوں کا خیر خواہ بنا دیتا ہے۔ وہ تمام انسانوں سے محبت کرنے والا ہو جاتا ہے۔ تمام انسانوں کی خدمت کرنے کا جذبہ اس کے اندر امنڈ پڑتا ہے۔ وہ ہر اعتبار سے ایک آفاقی انسان بن جاتا ہے۔ اسلام کی آدمیت وسیع تر آدمیت ہے نہ کہ محدود آدمیت۔“

دین اسلام کا سبق اسلامی اخوت سے آگے عالمی اخوت کا سبق ہے۔ اسلام کی نظر میں ہر انسان قابل احترام ہے۔ کسی بھی فرقے سے ہو یا کسی بھی مذہب سے مگر انسان کی عزت دوسرے انسان پر واجب ہے اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو پھر وہ مومن نہیں۔ نماز کے طریقے اور قرآن پاک پڑھنے کے انداز سے دوسروں سے نفرت کرنا یا انہیں کمتر سمجھنا؟ رنگ، ذات، نسل اور مذہب کی بنیاد پر نفرتوں اور محبتوں کے سلسلے کو تعصب کہتے ہیں انسانیت نہیں اور اسلام انسانیت کا مذہب ہے۔

مولانا وحید خان ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ؛ اسلام میں مجرم کو جو سزا دی جاتی ہے وہ نفرت کے جذبہ کے تحت نہیں دی جاتی بلکہ حدود اللہ کی ادائیگی کے لئے دی جا تی ہے۔ سزا دینے والے کے اندر اگر مجرم کے مقابلہ میں بڑائی کا احساس پیدا ہو جائے تو یہ بھی اس کے لئے ایک جرم ہوگا۔ کسی کو سزا دینے کا اختیار صرف اس شخص کو ہے جو نفرت کے جذبات سے بلند ہو کر اسے سزا دے۔ مجرم پر حد جاری کرنے کے بعد اسے برا بھلا کہنا خدا کی سزا پر انسانی سزا کا اضافہ ہے جس کا حق کسی کو نہیں۔

آپ ﷺ نے ہمیشہ یہ چاہا کہ مجرم کو سزا دیتے ہو ئے اسے برا بھلا نہ کہو کہ اس کے اندر ندامت یا اصلاح کی بجائے ردعمل یا سر کشی پیدا ہو۔ ”مگر ہم یہی سب کچھ اپنے فرقوں کے ساتھ کر رہے ہیں، جو لوگ اقلیت میں ہیں انہیں آپ مسلمان سمجھتے ہیں یا نہیں لیکن نفرت کا پھیلاؤ اتنا زیادہ ہے کے اقلیتیں یا اقلیتی فرقے اسی نفرت کے“ رد عمل ”میں مزید نفرت اور سرکشی کی طرف مائل ہو تے ہیں۔ اگر آپ کے نزدیک ان کی اصلاح مقصود ہے تو ان کو نفرت نہیں حسن اخلاق سے گرویدہ کریں نہ کہ مذہبی بنیادوں پر ان کی اس قدر حق تلفی (میرٹ کی بنیاد جب کہا جاتا ہے تو وہ بھی ایک امانت ہو تی ہے، اگر کسی اہل کو عہدہ، کانٹریکٹ یا نوکری نہیں دیتے تو آپ نے امانت میں خیانت کی ہے، آپ نے اسلام کی بنیادی شرط کو ہی تسلیم نہیں کیا ) کی جائے ان سے اس قدر نفرت کی جائے کہ وہ یا تو ملک چھوڑ کر جانے پر مجبور ہو جائیں یا اتنی نفرت کریں کہ ملک کے نظام کو اندر سے ہی کھوکھلا کر نے کے درپے ہوجائیں۔

کسی کو وفادار کرنا ہو تو اس سے محبت کا سلوک کرو۔ جیسا کہ اکبر بادشاہ نے کیا تھا، جب رنگا رنگ کے لوگ آپ کی رعایا ہوں تو کیا کرنا چاہیے؟ کیا انسانیت کو مذاہب یا فرقوں کے خانے میں بانٹ کر انسان کی بات کی جا سکتی ہے؟ کیا ایسا کر کے انسانوں میں عدل ممکن ہے؟ اور اگر عدل نہ ہو تو معاشرے کی کیا ساخت بنے گی؟ بالکل ویسی ہی جیسی پاکستان کی بن چکی ہے جیسی اب انڈیا کی بن رہی ہے۔

ول ڈیورنٹ اپنی کتاب ”ہندوستان“ میں لکھتا ہے کہ ”شہنشاہ اکبر کی سلطنت، کرہ ارض کی سب عظیم اور مضبوط سلطنت تھی۔ قانون اور مالیات دونوں کا نظام بہت سخت تھا۔ اکبر نے مذہبی آزادی دیتے ہو ئے تمام عہدے تمام مذہبوں کے پیروکاروں کے لئے کھولے اور افغان حکمرانوں کا عائد کردہ محصول“ جزیہ ”ختم کر دیا۔ اصلاحی منازل سے گزر کر اکبر کے عہد کا قانون سولہویں صدی میں سب سے حق شناس اور انسان دوست قانون بن گیا۔ مزید لکھتا ہے ؛جب فرانس میں پروٹسٹنٹ، کیتھولک کے ہاتھوں قتل ہو رہے تھے، عہد ایلزبتھ میں پروٹسٹنٹ انگلستان میں کیتھولک کو مار رہے تھے، سپین میں یہودیوں کی لوٹ مار اور قتل و غارت ہو رہی تھی اور اٹلی میں برونو کو زندہ جلا یا جا رہا تھا تو اکبر اپنی سلطنت میں تمام مذاہب کے نمائندگان کو ایک جلسہ مشاورت میں آنے کی دعوت دے رہا تھا۔ اس نے تمام فرقوں اور عقائد کے لئے بردباری، تحمل اور برداشت کے احکامات صادر فرمائے۔ اس سلسلے میں برہمن، بدھ اور مسلمان عورتوں سے شادی اس کا عملی ثبوت تھا۔“

اس مذہبی آزادی سے ہندو مسلمان تو نہ ہوئے مگر ریاست اور اکبر کے وفادار ضرور بن گئے تھے۔ ہوتا بھی یہی ہے جب آپ مذاہب کو چن چن کر نشانہ نہ بنائیں، یا ذات پات، مذہب یا رنگ کی بنیاد پر خدا کی مخلوق میں تفرقہ نہ کریں اور اسی بنا پر کسی کو کسی پر فوقیت نہ دیں تو لوگوں کا ہجوم ایک مضبوط۔ ”قوم“ بن سکتا ہے ورنہ تو ہر کوئی نفرت کی بنیاد پر کھڑی کی ہو ئی دیوار کے پیچھے چھپ جائے گا جہاں سے صرف وہ خود کو دیکھ اور برداشت کرسکے گا یا دوسروں سے خود کو محفوظ رکھ سکے گا۔ یہ تقسیم کرتی دیوار نہ ہو گی تو دوسرے کو دیکھنے اور برداشت کرنے کی طاقت آئے گی۔

پاکستان بنا تھا تو تمام مسلمان اس تحریک میں شامل تھے۔ کیا کوئی یہ دعوی کر سکتا ہے کہ یہ ملک کسی ایک خاص فرقے نے بنایا یا کسی ایک خاص فرقے کے لئے بنا۔ چلو ریاست کے آئین میں کسی گروہ کو غیر مسلم کہہ دیا تو اس کو ہٹانے کے لئے آئین سے ترمیم ناممکن امر ہی سہی ( آئین میں ایسی مذہبی باتیں ہونی ہی نہیں چاہئیں۔ خیر یہ میرا ذاتی خیال ہے اختلاف کا حق سب کو ہے سو مجھے بھی ہے ) مگراس کو آئے دن پکا کرنے کا مقصد؟ ( لیڈر کی تعریف ہی یہی ہے کہ وہ اپنی سمجھ، شعور لوگوں میں منتقل کر کے انہیں قائل کرتا ہے، (یہ زیادہ مقبول اور آسان راستہ نہیں ہے ) نہ کہ لوگوں کو خوش کرنے کو، اور اپنے گرد ہجوم اکٹھا کر نے کو، انہی کے نعرے دہرانے لگ جائے، اس کو لیڈر نہیں ڈیماگاگ کہتے ہیں، اور ماشا اللہ ہمارے پاس اچھے یا برے ڈیماگاگ ہی آئے، ابھی تک کوئی لیڈر نہیں آیا کہ لوگوں کو شعور اور فہم کی چار باتیں سکھا سکتا ) ۔

اور اگر فتنہ ایک ”مخصوص مذہب جسے آپ غیر مسلم کہہ چکے ہیں“ اٹھاتا ہے، تو اس فتنے کو اپنے ملک کے شہری سمجھ کر ڈیل کریں نہ کہ اس طرح ڈیل کریں کہ ان کے درمیان نفرت ایک پو دے سے تناور درخت بن جائے۔ اگر ان لوگوں کو مل جل کر رہنے اور خاموشی سے اپنے طریقے سے عبادت کرنا ”کوئی“ نہیں سکھا رہا تو آپ تو اکثریت میں ہیں۔ آپ ان کے ”عمل“ کا ”رد عمل“ نہ بنیں بلکہ آپ ”عمل“ کریں جس کے حساب سے وہ اقلیت اپنا ”رد عمل“ ظاہر کرے۔ اسلام کا نظام انصاف کا نظام ہے اگر ایسا نہیں ہے تو اللہ تعالی کو کیا پڑی تھی کہ یہ سب کچھ تو اسلام سے پہلے بھی ہو رہا تھا اور زیادہ بہتر طریقے سے ہو رہا تھا۔

اورنگزیب بادشاہ نے جب غیر مسلموں سے جزیہ دوبارہ لینا شروع کر دیا اور ان کی عبادت گاہوں کو مٹانا شروع کیا تو گویا اکبر اعظم کی قائم کی گئی ”عظیم سلطنت“ کے زوال کی بنیاد رکھ دی تھی۔ نفرت کے بیج کے ساتھ نفرت کا درخت اگانے کی شروعات ہو گئی تھی۔ ایک ملک کے لوگ بادشاہ کے ساتھ وفادار ( وفا، ہمیشہ محبت سے جیتی جاتی ہے نفرت سے بغض اور موقع ملتے ہی بے وفائی نصیب بنتی ہے ) ہی نہ ہوں تو چلتے چلتے ”نسلیں“ ایسٹ انڈیا کے ہاتھوں بک ہی جاتی ہیں۔ مگر یاد رکھئے سادگی پسند اور رز ق حلال کمانے والے اورنگزیب نے جب ٹوپیاں سی سی کر جو اپنی حلال کمائی کے تین سو روپے غریبوں کے لئے چھوڑے، تو وصیت میں انہوں نے کسی خاص فرقے یا کسی خاص مذہب کے ”غریب“ کا ذکر نہیں کیا۔ کہ دنیا تقسیم تو انہی دو قسم کے لوگوں میں ہے۔ امیر اور غریب۔

ایک مومن کو دوسروں کو اپنے ا اخلاق سے قائل کرنے کا حکم ہے نہ کہ ان کی تذلیل یا تحقیر کر کے۔ لیکن میں یہ دیکھ رہی ہوں کہ ظاہری عبادت اور ظاہری حلیہ کی بنیاد پر اچھے اور برے مسلمان کی برتری کا معیار مقرر کیا جا رہا ہے۔ مسلمانی کی نمائش میں ہم اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ اسلام کی روح ہمارے اندر کہیں مر گئی ہے۔ کینیڈا کی فضاؤں میں اذان کی آواز گونجے یا نہیں؟ اس پر ہم شور مچا رہے ہیں جیسے اسلام کی ”زندگی“ کا دار و مدار ہی اس پر ہے جو اس ایشو پر خاموش ہے یا اس کے حق میں نہیں اس کے اسلام کو مشکوک قرار دیا جا رہا ہے۔

عاجزی اور انکساری کے ساتھ اپنے حسن اخلاق اور ایمانداری سے لوگوں کو ایسے متاثر کریں کہ آپ خود ایک چلتی پھرتی ”اذان“ بن جائیں۔ لوگ خوشی سے پوچھیں یہ لین دین میں اتنے سچے اور کھرے، یہ حسن اخلاق کے نمونے، یہ انسانیت نواز، یہ کون لوگ ہیں ان کا مذہب کیا ہے، یہ کس ملک کے باشندے ہیں۔ تو جب ان غیر مسلموں کو یہ جواب ملے کہ ”یہ مسلمان ہیں“ تو جانیے ایسے مسلمانوں نے اس غیر مسلم کے کان میں ہی نہیں دل میں بھی اذان دے دی۔

لیکن اگر تکبر سے سینہ پھلا کر، خود کو جنت کا حقدار سمجھ کر، اس ساری کائنات میں سب سے برتر مخلوق سمجھ کر، آپ ناجائز طریقے سے پیسے کما رہے ہیں، جھوٹی ویلفیئر لے رہے ہیں، کسی کے نام کی انشورنس سے کسی کی دوائیاں لے رہے ہیں، پورے سسٹم کو بے وقوف بنا رہے ہیں، یا کسی کا حق مار رہے ہیں، نفرت اور حسد کی آگ میں جل رہے ہیں، منافقت آپ کے وجود میں رچ بس گئی ہے، جھوٹ آپ کی عادت ثانیہ بن چکی ہے تو سوچیے! اس اذان نے اس اللہ کے حضور سر بسجود ہو نے کی پکار نے اگر آپ کا کچھ نہیں سنوارا تو غیر مسلموں کے لئے بھی وہ فقط ایک شور کے سوا اور کیا ہوگا؟ آپ کا کردار اور آپ ہیں اذان اور چلتا پھرتا قرآن۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نہ اسلام کی شناخت ختم ہو گی نا مسلمان کی۔ یہ شناخت تب تب مرتی ہے جب جب آپ کے اندر اخلاق اور انسانیت مرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments