حق موجود سدا موجود (حضرت سچل سائیں ؒ کا 199 ویں سالانہ عرس)۔


معروف صوفی شاعر حضرت سچل سائیں ؒ کے ایک سندھی شعر کا ترجمہ ہے :
مجھ میں تم ہو، تجھ میں میں ہوں
بالکل اسی طرح اے میرے محبوب! جیسے بادل میں آسمانی بجلی ہوتی ہے۔

اب ایک بیت، ان کے پیش رو، شاعر حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کا بھی پڑھ لیں (جو خود سچلؒ کے بارے میں کہہ کر گئے تھے کہ ”جو فکر کی دیگچی ہم نے چڑھائی ہے، اس کا ڈھکن سچلؒ اتاریں گے۔“ ) :

”اے میرے محبوب! اپنا تیر کمان میں ڈال کر مجھے نشانہ مت بنا!
کیونکہ مجھ میں تو تو ہے، ایسا نہ ہو کہ تیرا تیر تجھی کو گھائل کر دے ”

سچل سائیں ؒ کے اس بیت کا ”ڈکشن“ ہمیں ہوبہو شاہ لطیفؒ سے ملتا جلتا محسوس ہو رہا ہے اور وہ واقعی بھی ہمیں ان کی ”فکری دیگچی کا ڈھکنا اتارنے والے“ لگ رہے ہیں۔ سچل سائیں ؒ کے بہت سارے ابیات ہمیں شاہ لطیفؒ کی فکر، زبان اور انداز بیان سے متاثر لگتے ہیں اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔ کیونکہ فکری لحاظ سے ہر عظیم شاعر اپنے دور سے پہلے گزرے عظیم شعراء سے متاثر ضرور ہوتے ہیں۔ خود شاہ لطیف بھٹائیؒ کے متعدد ابیات ان ہی جد امجد، حضرت شاہ عبدالکریم بلڑی والے کی فکر کی بازگشت لگتے ہیں، یا متعدد افکار مولانا رومیؒ کے فکر کا واضح طور پر آئینہ ہیں۔

اور تسلسل ہوں بھی کیونکر ناں، خود شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ، قرآن پاک کے ساتھ ان دونوں ہستیوں کا کلام ہمہ وقت اپنے ساتھ رکھ کر، اپنے فکری رہبروں کے بارے میں واضح طور پر اعلان کر گئے ہیں۔ خود ”رومیؒ سنگ قیل و قال“ کا تو ببانگ دہل ابیات میں (نام لیکر) ذکر کر کے، لطیفؒ اپنے مربی رہبر کے ساتھ اپنی لو تحریر کر گئے ہیں۔ اگرچہ سچل شناس محققین کی اکثریت نے ”فکری دیگچی کا ڈھکن اتارنے والی“ شاہ لطیفؒ اور سچل سائیں ؒ کی روایت کو حقیقت سے مبرا قرار دیا ہے، مگر اس کے باوجود، شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کی سچل سائیں ؒ کے دادا، میان صاحبڈنو سے سنگت و صحبت کے تحت لطیف سائیں ؒ کے سچلؒ اور ان کے اجداد کے مسکن ”درازا“ آنے کے دلائل تو تاریخی طور پر ثابت ہیں اور ایسی کسی ملاقات کے دوران اس محفل میں سچلؒ کا بحیثیت نونہال موجود ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے، ہاں البتہ شاہ لطیفؒ نے یہ الفاظ کہے ہیں یا نہیں!

یہ ایک الگ بات ہے، جس کی تصدیق ظاہر ہے کہ نہیں ہو سکی۔ مگر اگر یہ الفاظ لطیف سائیں ؒ نے سچلؒ کے بارے میں نہیں بھی فرمائے، تب بھی سچلؒ، بھٹائی کی فکر سے متاثر تو ہیں۔ اس کی دلیل سچل کا کم و بیش پورا کلام ہے، مگر ان الفاظ کا اشارہ ( ”فکری ڈھکنا اتارنے“ سے مراد) ”فکر کا ایک جیسا ہونے“ سے بڑھ کر اس فکر کے ”انداز اظہار“ کی جانب ہے، جو شاہ لطیفؒ کے ”پہیلی نما دھیمے انداز اظہار“ اور سچل کی ”بیباکی والے اظہار“ کا تقابل کہا جا سکتا ہے!

سچل کے مندرجہ ذیل اشعار میں ان کی بیباکی کا عالم دیکھیں (جو راقم ہی نے سندھی سے اردو میں منظوم ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل کی ہے ) :

(1)
بیٹھنے سے خموش کیا حاصل!
باندھ لے اب سفر کی محمل تو
ایک پل کو نہ بیٹھ تھک کر یاں،
تاکہ پالے بخیر منزل تو
(2)
وہ، جن کی چولیاں کیچڑ میں تر تھیں،
وہ بے وقعت ہیں لال و لعل اب تو
جواہر ہیں جڑے جن جوتیوں پر،
ہیں زیب پا انہیں، حیرت ہے سب کو
(3)
لگا لی پریت تجھ سے دل کے راجا!
مری چاہت کی ہر دم لاج رکھنا
شناسا اپنی الفت سے ہوئی میں
تو سر پہ الفتوں کا تاج رکھنا
(4)
فراغت ان کو فرقت سے نہ اک پل
مبرا وہ وصال یار سے ہیں
وہ گمشدگی سے گم ہیں، لا پتہ ہیں،
پرے اب ہوش کے سنسار سے ہیں
ہے ”قیل و قال“ کی ہمت کسے واں،
وہ بہرے، بے زباں، بیکار سے ہیں
(5)
ابھی آئی خبر ہے میرے ”تھر“ سے،
کہ برسا کھل کے آب آسمانی
”ملیر“ من پہ ابر رحم پلٹا
کہ سطح ریگ پر ارزاں ہے پانی
کھلے صحرا میں خود رو پھول بوٹے،
جو فطرت کی نرالی ہیں نشانی
مروں، اپنوں سے مل کر ہی وہاں میں،
اجازت دو، تمہاری مہربانی!
(6)
کسی کی پریت کو پانے کی خاطر،
شرم کیسی! جو میں گائیں چراؤں
مجھے منظور ہے ایسی مشقت
وصال یار گر یوں جیت پاؤں
(7)
مگر شعلہ تھا کوئی شوق کا وہ،
بظاہر وہ نظر آتا تھا نامہ
مخاطب کو بنایا خاک خط نے،
جلایا جسم کا اس نے ہے جامہ

اگر آج ملک کورونا پینڈمک سے نبرد آزما نہ ہو رہا ہوتا، تو اس برس 14 اور 15 رمضان المبارک کو ضلع خیرپور کے شہر ”درازا“ میں سچل سائیں ؒ کا 199 واں سالانہ عرس مبارک منایا جاتا۔ یعنی ہجری تقویم کے لحاظ سے آئندہ برس سچل سائیں ؒ کو اس دنیا سے گزرے پورے دو سو سال بیت جائیں گے۔ سچل 18 ویں صدی میں پیدا ہوئے اور لگ بھگ ایک صدی کی عمر پاکر 19 ویں صدی میں رحلت پائی، جس کی وجہ سے انہیں بجا طور پر دونوں صدیوں کا شاعر کہا جا سکتا ہے۔

1739 ء میں اردو کے ”مولائے سخن“ ، میر تقی ”میر“ 16 برس کے نوخیز نوجوان ہیں، تو درازا میں میاں صلاح الدین کے گھر سچل آنکھ کھولتے ہیں، جبکہ 1810 ء میں میر کا انتقال ہوتا ہے تو سچل، 71 برس کے بزرگ ہیں۔ پھر جب 1797 ء میں غالب پیدا ہوتے ہیں، تو سچل 58 سال کے ہیں اور جب سچل سائیں ؒ نے 1827 ء میں انتقال کیا، تو غالب اس وقت 30 برس کے جوان ہیں۔ 20 ویں صدی ”سچل پر تحقیق کی صدی“ تو ثابت نہ ہو سکی، اوپر سے سچلؒ کے حوالے سے عوام میں غلط فہمیاں پیدا کرنے والی صدی ثابت ہوئی۔

ایک تو رانی پور میں سچل کے حوالے سے منعقدہ کسی جلسے میں کسی نے سچل سائیں ؒ کے نام کے ساتھ، فرط عقیدت میں لفظ ”سرمست“ لگا دیا، تو ہم نے بھی بغیر کسی فکری اور عقلی دلیل کے سچو کو ”سچل سرمست“ کہنا شروع کر دیا، جو لفظ سچل کی زندگی میں کبھی بھی ان کے نام کا حصہ نہیں رہا۔ دوسرا ہم نے بیٹھے بیٹھے انہیں بغیر کسی تحقیقی منطق کے ”7 زبانوں کا شاعر“ بنا کر ”شاعر ہفت زبان“ کہہ ڈالا۔ یہ غلط روایت اتنی تیزی سے پھیلی کہ درسی کتب تک میں سچل کو ”شاعر ہفت زبان“ لکھا جانے لگا، جس کا منفی نتیجہ یہ نکلا ہے، کہ اب تو وزرائے اعلیٰ یا گورنر صاحبان جب عرس کی سرکاری تقریبات کا افتتاح کرنے آتے ہیں، تو اپنی تقریروں میں سچل کو ”شاعر ہفت زبان“ کہتے نہیں تھکتے۔ کیونکہ ان کے ”تقریر نویس“ تقریریں لکھنے کے لیے گزشتہ برسوں کی تقاریر سے ہی ”استفادہ“ کرتے آتے ہوں گے، جن میں ایک بار جیسا لکھا جا چکا، ویسے ہی کاتب ”چھاپتے“ آتے ہوں گے۔

آخر پانچ منٹ کی تقریر ہی تو لکھنی ہے۔ سچل کے معروف محقق، ڈاکٹر عطا محمد حامی صاحب نے 70 ء کی دہائی ہی میں یہ ثابت کر دیا تھا کہ سچل چار زبانوں (سندھی، سرائیکی، فارسی اور ریختہ) کے ہی شاعر ہیں، البتہ انہوں نے اپنے کلام میں دیگر زبانوں کے فقط کہیں کہیں کچھ الفاظ یا جملے ہی استعمال کیے ہیں، جن کے استعمال سے وہ ان زبانوں کے شاعر نہیں کہلائے جا سکتے۔ اس لیے حامی صاحب سچل سائیں ؒ کو ”شاعر چہار زبان“ نہ صرف کہہ گئے، بلکہ علمی دلائل سے ثابت بھی کر گئے۔

مرزا علی قلی بیگ نے جب 1901 ء میں ”رسالو میاں سچل فقیر جو“ شائع کروایا (جو ایک بہت بڑا کارنامہ اور سچل کے عشاق پر ایک بڑا احسان ہے، جو پچھلے برس ہمارے مربی، نصیر مرزا صاحب نے، ہمارے پبلشر دوست، موہن مدہوش کے تعاون سے حیدرآباد سے ایک بار پھر شائع کروا کر، اس وقت سانس لینے والی نسلوں پر ایک اور احسان کیا ہے۔ ) تب ( 1901 ء میں ) سچل کو اس دار فانی سے گزرے فقط پون صدی ہی گزری تھی، یعنی مرزا علی قلی، خواہ ان کے ہمعصر ادیبوں، محققین کے والدین اور بزرگوں نے سچل کو خود دیکھا۔

ایسی صورتحال میں سچل کے عشاق کی یہ شکایت بجا ہی تو ہے کہ سچل کی سوانح اتنے سربستہ انداز میں کیوں نہیں مل سکی (اور قلمبند ہو سکی) ، جتنے عین انداز میں ملنا چاہیے تھی۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے؟ کہ سچل کو اپنے شایان شان اور شایان ادبی قامت (تعداد خواہ معیار کے لحاظ سے ) شارحین، محققین اور سوانح نگار نہ مل سکے؟ حالانکہ علی قلی سے آغا صوفی، عثمان علی انصاری، رشید احمد لاشاری، جیٹھ مل پرسرام، مولانا محمد صادق رانی پوری، سلیم امروہوی، نمانڑو فقیر (ہاسی بائی) ، ڈاکٹر عطا محمد حامی، مقصود گل، قاضی علی اکبر درازی اور تنویر عباسی تک سچل کے فہم، فکر، پیغام خواہ سوانح پر کام کرنے والے تمام عالم انتہائی معتبر تھے، مگر پھر بھی یہ شکایت اپنی جگہ پر موجود ضرور ہے کہ ”سچل کو کوئی ایسا محقق نہیں مل سکا، جیسے شاہ لطیف کو ڈاکٹر ہوتچند مولچند گربخشانی ملا!“

کچھ ناقدین کا تو یہ خیال بھی ہے کہ ”سچل کو ویسا محقق نہیں ملا، جیسا بھٹائیؒ کو ایچ۔ ٹی۔ سورلے ملا!“ ، جو ان کے کلام کو سربستہ انداز میں ان کے قارئین کو سمجھا سکتا! اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اداروں نے سچل سائیں ؒ کے کلام کی تفہیم، تحقیق اور ابلاغ کو ”کار کل وقتی“ سمجھ کر کبھی بھی انجام نہیں دیا۔ خیرپور میں ”سچل اکیڈمی“ کے نام سے اتنا بڑا کل وقتی ادارہ صرف اور صرف سچل سائیں ؒ کے پیغام، فکر اور زندگی سے متعلق تحقیق کے لیے قائم ہے، جس کے اپنے قیام سے لے کر اب تک سچل کی فکر کے حوالے سے کوئی بھی اشاعتی یا علمی اور تحقیقی سرگرمی میری نظر سے نہیں گزری۔

عام لوگوں کو بھی اس بابت بس اتنا ہی پتا ہے کہ اس کا آڈیٹوریم، خیرپور کی مقامی تقریبات کے لیے کرائے پر دیا جاتا ہے، اور بس! شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور میں قائم ”سچل چیئر“ جیسا ادارہ، جس کی داغ بیل ڈاکٹر تنویر عباسی نے بڑی محنت اور دلچسپی سے ڈالی تھی، اب اپنے انفرادی بجٹ کے لیے بھی ترس رہا ہے، جس کا کوئی علیحدہ مختص بجٹ تک نہیں ہے، جبکہ اس چیئر نے اپنا مقرر شدہ ”کل وقتی آخری ڈائریکٹر“ کب دیکھا تھا، اس بات کو بھی اب تو زمانے گزر چکے ہیں اور بڑے عرصے سے یونیورسٹی کے شعبۂ سندھی کے سینیئر اساتذہ میں سے کسی نہ کسی کی، یہاں 2000 روپے ماہانہ کے اضافی مشاہرے پر بطور ”انچارج ڈائریکٹر“ تقرری کر کے، سچل سائیں ؒ پر احسان کیا جاتا ہے اور ان پر تحقیقی کام کو بس ”کھینچا“ جاتا ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ 199 (ہجری) برس گزر چکنے کے باوجود بھی ہمارے پاس سچل سائیں ؒ کے کلام کا مکمل مستند، نسخہ تک موجود نہیں ہے۔ ہر سال یہ بات سچل ادبی کانفرنس میں زیر بحث آتی ہے اور پھر بات، قصہ بن کر اڑ جاتی ہے۔ کسی بھی ادارے کو یہ بات پورا سال یاد نہیں رہتی کہ ماہر عالموں اور سچل شناس ادیبوں کی ایک کمیٹی تشکیل دے کر اسے یہ کام دیا جائے، کہ وہ کل وقتی انداز میں بیٹھ کر، سچل سائیں ؒ کے کلام سے وہ کلام الگ کریں، جو ان کا نہیں ہے اور تحقیق کے بعد ایک مستند نسخۂ کلام تیار کریں، جس کو شائع کرنے کے بعد ہی اس کے تراجم کے حوالے سے کام شروع کر کے، فکر سچلؒ کو عالمی سطح پر پہنچانے کا اہتمام کیا جا سکتا ہے، مگر اس کے لیے سب سے پہلے اہم ترین کام یہ ہے کہ افکار ”منصور ثانی“ کو پہلے اپنے (سچل کے ) لوگوں کے لیے دستیاب کیا جائے اور یہ کام تب تک نہیں ہوگا جب تک (بقول سچل ہی کے ) ”عقل والے عشق کے قریب نہیں آئیں گے۔ ۔ ۔ تب تک شیخی، پیری اور بزرگی ہم سب کو بے حد بھٹکاتی رہے گی اور یہ انتہا پسندی والی گھٹن بھری فضا بڑھتی جائے گی اور لوگ الجھے ہی رہیں گے اور اس قدر ضو فشاں اور راہ روشن کر دینے والے پیغام کے باوجود اس کے اجالے سے محروم رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments