منٹو ایک ناکام افسانہ نگار



منٹو کے جنم دن کے موقع پر سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ جانے انجانے میں منٹو کی تصاویر اور ان کی کہی ہوئی باتیں شیئر کر رہے ہیں۔ انجانے میں کہنا اس لئے ضروری تھا کیونکہ ان میں اکثر ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو منٹو کا پورا نام تک نہیں جانتے۔ ہمارے معاشرے میں خود کو باشعور ثابت کرنے اور حالات حاضرہ سے باخبر انسان کی حیثیت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دوسروں کے سٹیٹس کاپی کر لئے جائیں اور اپنی وال پر پیسٹ کر دیے جائیں۔

منٹو کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں ایک بڑی تعداد لاعلم ہے۔ مگر پھر بھی کچھ نہ بولیں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ پانچ سال قبل انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ”تھیوری“ کی کلاس لیتے ہوئے ڈاکٹر ذوالفقار حیدر صاحب نے پوچھا کہ منٹو کس کس نے پڑھا ہے؟ ہم میں سے اکثر منٹو کو پڑھ چکے تھے۔ مگر ہمارے ہی ایک دوست نے قہقہہ لگایا اور اونچی آواز میں کہا ”کھول دو“ ۔ اس کے انداز سے ظاہر تھا کہ اس نے منٹو کو صرف سنا تھا۔

یا شاید اس کا شمار کچھ ایسے لوگوں میں ہوتا تھا جو منٹو کو پڑھنے کے بعد خود پر غسل فرض کر لیتے ہیں۔ ڈاکٹر ذوالفقار، جو کہ نہایت ہی سنجیدہ انسان ہیں خاص طور پر ادب کو لے کر انہوں نے شدید غصے میں کہا ”Don’t do this، if you don‘ t know bull fighting don ’t show me red ROMAL“ منٹو کی سنجیدگی کا اندازہ تو ہم دوستوں کو پہلے بھی تھا مگر ڈاکٹر صاحب کی بات کے بعد منٹو کے سنجیدہ ہونے کی کسی دلیل کی ضرورت نہ رہی۔

بعد میں منٹو کے ہر افسانے کو ایک الگ نظریے کے ساتھ پڑھا۔ نہ تو زمانہ بدلہ نہ منٹو کو دیکھنے والوں کے دو الگ الگ نظریات بدلے۔ آج بھی لوگ منٹو کو پڑھے بنا اسے غلیظ سوچ سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے اور اس کے برعکس منٹو کو سمجھنے والے اس کو مرشد کا درجہ دیتے ہیں۔ بات ٹھنڈا گوشت، کالی شلوار، بو، کھول دو کی ہو یا اس سے ملتے جلتے افسانوں کی، منٹو آج بھی زندہ ہوتا تو شاید آج بھی مقدمات جھیل رہا ہوتا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی طرح آج بھی ہمارا معاشرہ روز بروز تقسیم کیا جاتا ہے، لسانیت میں فرقہ واریت میں اور آج بھی بہت سے منٹو چپ چاپ لکھتے رہتے ہیں۔

آج بھی کسی ہسپتال میں سکینہ اور اس کا باپ تڑپتے ہیں مگر فرق نہیں پڑتا۔ منٹو جیسی سوچ آج بھی محدود ہے کل بھی محدود تھی۔ فرق نہیں پڑتا۔ کتنے برسوں سے منٹو سفید چاک لے کر سیاہ تختی پر نمایاں ہونے کی کوشش میں ہے مگر آج بھی معاشرے کی سیاہ تختی سیاہ ہی ہے۔ آج بھی کسی کلاس میں بیٹھ کر‘ کھول دو ’کے نام پر قہقہے لگائے جاتے ہیں فرق نہیں پڑتا۔ افسوس منٹو ہار گیا۔ افسوس کہ منٹو نہیں خدا اور اس کے نام پر کاروبار کرنے والے منٹو سے بہترین افسانہ نگار ہیں۔ افسوس منٹو ایک ناکام افسانہ نگار ہے جو برسوں کی کوششوں کے بعد بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments