لمبی، گوری اور انگریزی بولنے والی 70 فیصد سے ملاقات


وضاحت لازم: یہ تحریر قبل از کورونا ایک ناآسودہ بیک اینڈ ریسورس پرسن میڈیا منسلک خاتون کے غصیلے، دل گرفتہ مشاہدات سے کشید کردہ بیان پر مبنی ہے۔ کسی ہستی کی اتفاقی خفیف مماثلت اپنی ہوس کی بھونڈی تکمیل اور خود کو غیر ضروری اہمیت دینے کی ناکام کوشش تصور ہوگی۔ سو پیار کو پیار ہی رہنے دیں کوئی نام نہ دیں۔

بہتر ہے فائزہ شیخ کی کہانی ہم جیمز بانڈ کی فلموں کی طرح شروع کردیں۔ جب اداکار شان کونری جیمز بانڈ کا کردار ادا کرتے تھے ا ن دنوں کی فلموں میں آپ سینما ہال میں اندھیرے میں اپنی سیٹ کا نمبر پڑھ رہے ہوتے تھے کہ اسکرین پر ایک قتل ہوجاتا تھا اور بیلے ڈانسر کا رقص جاری ہوتا۔

اس دن پارٹی والے میزبان دریا دلی پر اترے ہوئے تھے۔ ہمارے لاہور والے میزبان نے ہماری وجہ سے شرکت سے معذرت کی تو مچل گئے کہ ہمیں بھی لے کر پہنچیں۔ کراچی والے کون سے کیویئر (مچھلی کے انڈے ) اور دم پری نن کی شمپین کے ڈرم پی جائیں گے۔ اوئے اسی بٹ آں۔ سیالکوٹ دی شان۔ اسی وڈے دل دے لوکی آں۔ بہت ہی مہذب تھے۔ پوچھ لیا تھا کہ مشروب کون سا چلے گا۔ جتا دیا کہ قہوہ مع لیمون و نعناع (عربی میں پودینہ) ، ڈبل ایپل اور منٹ کا اصل کوئلے والا شیشہ، شراب و شباب سے ہٹ کرایسا کونا ہو جہاں بقول سیف الدین سیف ع

کوئی ایسا اہل دل ہو کہ فسانہ محبت
میں اسے سنا کے روؤں، وہ مجھے سنا کے روئے

فی الفور مان لیا۔ ہمارے میزبان سے کہہ رہے تھے کہ مٹروے بھائی جان بہت کفایت شعار ہوندے نے۔ انہوں نے کہا مٹروے نہیں میمن نے۔ تو پوچھنے لگے کہ یہ غوث اور قطب التجارت قسم کے رجال الخاص ان کے ہتھے کیسے لگ گئے۔

بہت پر تپاک طریقے سے ملے۔ مصر تھے کہ ہال میں کوئی رقص رواں ہے۔ بیلی ڈانس۔

میزبان نے کہا وہ ہمیں معاف کریں۔ یہی وجہ تھی کہ ایک گوشۂ عافیت میں ہمیں اپنی ہی آگ میں سلگتی ہوئی قطرہ قطرہ کسی ایک خاتون کے پاس بٹھا دیا گیا۔ جائزہ لیا تو سامنے جو خاتون تھیں وہ لمبی گوری، خوش پوش، سگریٹ کی ڈبیا سامنے دھری تھی اور گلاس ہاتھ میں۔ ہمارے نشست افروز ہونے کے ذری دیر بعد ویٹر لہراتا ہوا ٹرے لے کر گزرا تو انہون نے اشاروں اشاروں میں کیا چمتکار کیا کہ اسے پانچ سو روپے مل گئے اور انہیں کالے کتے والی وہسکی کی ادھوری سے کچھ کم بوتل۔ جو انہوں نے گملے کے ساتھ ہی رکھ دی۔ وہ فرمابردار کچھ دیر بعد برف بالٹی، ٹونگ بھی چھوڑ گیا۔ ہمیں لگا کہ جس طرح ڈولفن سمندروں میں آداب پیراکی جانتی ہے خاتون بھی ایسی پارٹیوں کی ڈولفن ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی ہمیں بھی پانچ سو کا نوٹ شیشے والے پرنچھاور کرنا پڑا۔ یوں ہم بھی تین گھنٹے کی اس رفاقت میں اس کی جانب سے نہال رہے۔ ہم نے میمن ہونے کے ناتے حساب لگایا کہ ایسا شیشہ کراچی میں آخری دفعہ تین ہراز کا اور مین ہٹن نیویارک میں بے بی لون ریستوراں میں پچاس ڈالر کا پڑا تھا۔

مرد بوتل رکھ کر پاس بیٹھ جائے تو ہم سرک لیتے ہیں۔ اکثر بہک کر اول فول بکنے لگتے ہیں۔ ایک طاقتور ادارے کا افسر تو رہی سہی عزت اور کپڑے اتار کر ناچنے والیوں کے ساتھ ناچنے لگ جاتا تھا۔ سرد و گرم چشیدہ خواتین کا معاملہ کچھ مختلف ہوتا ہے۔ جام دیکھتی ہیں تو گنگنا کر کہتی جاتی ہیں کہ

میں پیاس کا صحرا ہوں میری پیاس بجھا دے۔ تو کالی گھٹا ہے تو برس کیوں نہیں جاتی۔ آپ سے محفل میں نبھ جائے تو مرکز ذات سے بہت دور ہٹ کر بے تکلفی کے منڈوے تلے ملتی ہیں

تعارف بھر پور تھا سو میرے سلیقے سے نبھ گئی میری محبت میں۔
انگریزی میں پوچھا کہ
آج رات بولنے کا موڈ ہے کہ سننے کا۔
ہم نے چھیڑا کہ یہ تو بہت ہے
Binary Choice
پوچھنے لگیں آپ کیا شامل کرنا چاہتے ہو؟
عرض کیا ”جو فیض نے کہا تھا وہ جس کی دید میں لاکھوں مسرتیں پنہاں۔ ویسی رعایت عطا ہو۔“

انگریزی والا واؤ کہا۔ وہ واؤ جو ہمیں آنتوں اور جگر کے درمیان سے کہیں ابھرتا لگا۔ وہ واؤ جو تعلقات کا مل ٹی پل انٹری ویزا ہوتاہے۔

کہنے لگیں آپ بیوروکریٹ میں چونکہ بہت روشن۔ خیال کمینگی ہوتی ہے لہذا یہ بتائیں میں آپ سے اپنی اسٹوری کیوں شئیر کروں؟ آپ تو میرے لیے کامل اجنبی ہیں۔ ہم نے انہیں تب بتایا کہ پاؤلو کولہیو کے ناول الیون منٹس کا مسودہ جینوا میں ان کے ہوٹل پر ایک برازیلین طوائف سونیا چھوڑ کر گئی تھی۔ اچھا ہوا انہوں نے اس کی کہانی پڑھی۔ اور پھر ایسا کامیاب ناول لکھا۔ ہماری توجیہ سن کر ایسا لگا کہ ہمیں شیشۂ جام، شراب اور بے یقینی کی تین تین پردوں کے پیچھے سے دیکھ رہی ہیں۔ کچھ دیر چپ رہیں بس اتنا سوال پوچھا کہ کیا میری کہانی سننے کے بعد اور اسے لکھنے کے بعد میرا آپ کو اجنبی سمجھنا مجھے علم نہیں کتنا مناسب ہو گا؟

ہم نے کہا بیوروکریٹ سی سی ٹی وی کیمرے ہوتے ہیں بڑی سے بڑی واردات میں بھی رخنہ نہیں ڈالتے۔ یوں بھی لاہور ہم مسافر کی طرح آتے ہیں سایۂ ابر کی مانند گزر جاتے ہیں۔ آپ کا سیل فون نمبر بھی نہیں مانگیں گے۔ ہنس پڑیں۔ ہم نے کہا اس محفل میں تن کے کپڑوں کے سوا جو مانگیں گی وہ آپ کا ہوا۔ دل تو یوں بھی ٹائی کی طرح گلے میں باندھ کر رکھتے ہیں۔ کف لنک کی طرح آستین میں اڑسے رہتے ہیں۔

ان کا بیان ریکارڈ کرنے سے پہلے کی ان کی ایک وارننگ یہ تھی کہ میری کہانی کا ابھی کوئی اختتام نہیں۔ ہم نے کہا آپ کی کہانی بھی آپ کی جوانی کی طرح ادھوری ہو تو کسی اہل دل کو اسے مکمل کرنے کا خیال بھی آسکتا ہے۔

میرا نام تو یاد ہے نا فائزہ شیخ۔ میڈیا سے تعلق ہے۔ آج کل کچھ کنارہ کررکھا ہے۔

(انٹیلی جینس کے گرو آپ کو بتائیں گے کہ جب مد مقابل کچھ بتا رہا ہو اور وہ خود سے فراہم کردہ رضامندی والی انفارمیشن ہو تو اسے ڈسٹرب مت کریں۔)

پہلے حیدرآباد میں رہتی تھیں۔ ہم نے کہا کالج میں آپ حسین مانی جاتی ہوں گی۔ کہنے لگیں میں آپ کو اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں بتاؤں گی۔

ہم نے جتایا کہ ہم اسے احسان مانیں گے۔ ہمیں وسیم اکرم اور روحان شال سے بھی بہت حسد ہوتا ہے حالانکہ دونوں نے شسمیتا سین کی داستان الفت میں آٹھویں اور بارہویں نمبر پر انٹری ماری تھی۔

ہنس کر پوچھنے لگیں آپ کو اینکرز میں کون پسند ہے۔ ہم نے دو ایسے نام لیے جن کی وہ برائی کرتیں تو ہمارے مزاج پر گراں نہ گزرتا۔ ہم اپنی اسٹریٹجی میں کامیاب رہے۔

آپ کو سیلی بریٹیز اچھے لگتے ہیں۔ ویسے پاکستان میں پچھلی مشیر اطلاعات بھی خود کو سیلی بریٹی سمجھتی تھیں۔ بتانے لگیں وہ جو چشمے والے صاحب ہیں آپ کے فیورٹ سلیم انجم۔ میں ان کی بہت قریب رہی ہوں کن ٹینٹ اور کیمرے کے پیچھے کا سارا کام میرا ہوتا تھا۔ لندن میں ہوتے تھے اس لیے انگریزی اخبارات پڑھ کر اور بی بی سی دیکھ دیکھ انہیں زبان و بیان کی چال بازیاں اور پیشے کی بے رحمی آگئی تھی۔ یہاں آئے تو سرکار پر آتے ہی تابڑ توڑ حملے کیے۔ سرکار بوکھلا گئی۔ پرانے ایم ڈی کو فارغ کیا۔ انہیں تعینات کردیا۔ میری بھی پرانے ایم ڈی سے نہیں بنتی تھی۔ میں نے انہیں عورتوں کے سکینڈلز کے بارے میں فیڈ کیا۔ تب میں بہت جواں جواں سی تھی۔ شعیب اختر کی گیند والا باؤنس اور دھاڑتی ہوئی اسپیڈ تھی۔ اب کیا ہے اگر آپ پوچھیں تو میں درمیانے اوورز کی ریورس سوئنگ والی گیند ہوں۔ چینل پر پرانے ایم ڈی کے زمانے میں بہت امید تھی۔ وعدے بھی بہت تھے۔ اسی وجہ سے میرا پہننا اوڑھنا اور اسٹائل بہت اچھا ہوگیا تھا۔ خیال تھا کہ کوئی دن جاتا ہے وہ مجھے فرنٹ لائن اینکر بنادیں گے۔ میرا اپنا پیکج اور ٹور ہو گی۔ ان کے ارادے کچھ اور تھے۔ میں نے پرانے ایم ڈی کو جتا دیا کہ میں وہ گوشت نہیں جو گدھ کھائیں۔ ترقی وغیرہ سب ایک طرف پڑی رہ گئی، نوکری کی رونق بھی جاتی رہی۔ میڈیا سینس تو تھا جب یہ حملے شروع ہوئے تو سلیم صاحب لفافے لینے لگے تھے۔ سچ پوچھیں تو لفافے کا بندوبست بھی میں نے ہی کیا تھا۔ سارا اسلام آباد ٹویٹر کے تھریڈ کی طرح ہوتا ہے۔ معاملہ بنانا ہو تو خود کو لابیسٹ کہو۔ سلیم صاحب اور میں جب ان کے فلیٹ پر ہوتے تو میں سوچتی تھی کہ یہ اسرائیل میں ہوتے تو ان کا بے رحم چہرہ دیکھ کر ہی چیف بنادیا جاتا۔ موساد کا موجودہ چیف تو جارج کلونی لگتا ہے۔ سلیم کے چہرے جیسے جلد باز نقوش میں نے بہت کم مردوں کے چہرے پردیکھے ہیں۔ وہ نقوش جو سمٹ کر ناک کی پتلی سی لامبورگھینی کی طرح دوڑنے لگتے ہوں۔ وہ لمحات جہاں مرد شفون کی ساڑھی جیسا ہوتا ہے نرم اور لپٹے رہنے والا یہ کمینہ انسان اکیلا ہی ہلاکو کی فوج کا ایس ایس جی یونٹ لگتا تھا۔ سخت جان اور تفاخر سے بھرا۔ سمجھا سمجھا کر مرگئی کہ محبت اور وصل تسخیر نہیں، چھاچھ مکھن کا رشتہ ہے۔ میں اب کیریئر چاہتی ہوں۔ کوئی ڈایریکٹرشپ، کوئی جی ایم کی پوسٹ۔

آپ بتائیں میں کیا کروں۔ میں دریا کے درمیان ہوں۔ کنٹیکٹس بہت ہیں۔ اوپننگ کوئی نہیں۔

ہم نے کہا آپ ایک این جی او کھول لیں۔ یہاں لاہور میں ہی رہیں۔ وہ بہت بے اعتباری سے دیکھتی رہیں۔ بس انگریزی پر محنت کریں۔

وہ کیوں۔ ہم نے کہا پاکستان میں این جی او کی تعریف یہ ہے کہ وہ لمبی ہو، گوری ہو اور انگریزی بولتی ہو۔

آپ تقریباً ستر فیصد تو این جی او اس وقت بھی ہیں بے باک، نڈر، خود آگاہ اور حالات کی نبض سے واقف۔

کھانا شروع ہوا تو پرانے دوست مل گئے۔ وہ بھی کہیں ادھر ادھر ہو گئیں۔ انہوں نے نمبر بھی نہیں مانگا مگر کہانی اتنی ادھوری بھی نہیں۔ ممکن ہے دوبارہ ملاقات ہو تو کچھ نئے ابواب کا اضافہ ہوچکا ہو۔ کسی بڑے واقعے پر وہ اپنی رائے کا دفتر بطور این جی او کی رہنما کے کھولے بیٹھی ہوں گی۔

اقبال دیوان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 96 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments