ایک آدمی، سب سے جدا، محمد اکرم ڈوگر کی یاد میں


(مرحوم تین مئی 2020 کو حرکت قلب بند ہونے کے سبب انتقال فرما گئے )

جامعہ کراچی میں بی اے آنرز صحافت کا پہلا دن، ایک دوسرے سے اجنبی، پہلی بار ایک چھت کے نیچے جمع ہو رہے ہیں۔ اجنبیت نے، نہ چاہتے ہوئے بھی سب کو پر تکلف بننے پر مجبور کیا ہوا ہے، اور ایسا کیوں نہ ہو، جب ایک دوسرے کے نام سے بھی آشنائی نہیں، تو بے تکلفی کیوں کر ممکن ہے۔ اسی سہمے سہمے ماحول میں کلاس ختم ہونے کی گھنٹی بجی اور ٹیچر کے کلاس سے جانے کے بعد، ان کے پیچھے سٹوڈنٹس بھی اس اجنبی ماحول سے نکلنے کے لے پر تول رہے ہیں کہ اچانک ایک آواز نے سب کی توجہ حاصل کرلی ”ہم نے یہاں چار سال گزارنے ہیں تو کیوں نہ ہم ایک دوسرے سے آج ہی متعارف ہو جائیں“ ۔ لہجہ سادہ، کسی قدر دہقانی رنگ کی آمیزش، سانس بھی معمول سے تیز!

کسی نے کان دھرا، کسی نے توجہ نہ دی، مگر اکرم ڈوگر بلاواسطہ اور بالواسطہ سب سے متعارف ہو چکے تھے اور ہر آنے والے دن، اکرم ڈوگر کی شخصیت کھلی کتاب کی طرح ظاہر ہونے لگی۔

سادہ لوح، ظاہر باطن ایک، ہر کسی کے معاملے میں اپنا کردار ڈھونڈنے اور اسے ادا کرنے کے لئے ہمہ وقت سرگرم، معاشرہ سدھارنے کی تڑپ اس قدر کہ اگر آج الہ دین کا چراغ میسر آ جائے تو اپنا سب کچھ بھول کر سب سے پہلے یہی حکم نافذ کروادیں۔ اسی خواب کو پانے کی خواہش میں علم دوستوں کے لئے ہمہ وقت سرگرداں۔ فہم و دانش کی جہاں امید بندھی، وہاں کے پھیرے شروع۔ کبھی ایک پروفیسر، کبھی دوسرا پروفیسر۔ کبھی ایک دانش ور، کبھی دوسرا دانش ور۔ کبھی ایک بیٹھک، کبھی دوسری محفل۔

خاموش سامع بننا کسی طور منظور نہیں، سو اپنا نقطہ نظر اپنے مخصوص سادہ طرز بیان سے پیش کرنے میں نہ تکلف نہ ہچکچاہٹ۔ معاشرہ کی مروجہ اقدار جھوٹ، منافقت، ملمع کاری، خود نمائی، خوش آمد، سب سے کوسوں دور۔ سچ کے سوا نہ سوچا نہ کیا۔ جو اپنے شعور کی کسوٹی پر صحیح لگا، اس کا برملا اظہار۔ اور عموماً اس اظہار میں اس درجہ سادگی (اور بھولپن) کہ موقع محل اور ماحول کو کبھی پیش نظر نہ رکھا۔ ہم کلام، ہم خیال ہو یا مختلف الرائے، اکرم ڈوگر کے، دلائل، استدلال، اور منطق سے تادیر اثر انداز نہ ہو، یہ بھلا کیسے ممکن ہے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایڈورٹائزنگ کی دنیا کے گرو جاوید جبار سیاست میں آنے کا سوچ رہے تھے۔ اکرم ڈوگر، مشہور لکھاری اور محقق احمد سلیم کے ہمراہ ان کی ایڈورٹائزنگ ایجنسی ایم این جے میں موجود ہیں۔ یہ ان کی جاوید جبار صاحب سے پہلی ملاقات ہے۔ اس سے پہلے کبھی سامنا نہیں ہوا۔ وہ ابلاغ عامہ کے ہر طالب علم کی طرح جاوید جبار صاحب کی تخلیقی صلاحیتوں کے گرویدہ بھی ہیں، مگر آج خاموش رہے تو جاوید جبار کو کیوں کر اندازہ ہو کہ اکرم ڈوگر، ان سے ملنے آئے تھے۔

رسمی بات چیت تک خود پر قابو رکھنے کے بعد، اکرم ڈوگر اپنی روایتی سادہ لوحی کے ساتھ مخاطب ہوئے ”جاوید صاحب آپ عوام کی سیاست کرنے جا رہے ہیں مگر لکھتے انگریزی اخباروں میں ہیں، تو پھر یہ کیسے ممکن ہو گا“ ۔ نہیں معلوم یہ فقط اکرم ڈوگر کی بے ساختہ رائے کا اثر تھا یا پہلے سے دی گئیں آرا کی تجدید یا جاوید جبار صاحب کی اپنی سوچ کہ ایم این جے کے اسٹاف نے انگریزی کے شاندار مقرر کو اردو پر پوری توجہ دیتے دیکھا اور اردو صحافت میں دلچسپی رکھنے والوں نے روزنامہ جنگ میں جاوید جبار صاحب کے اردو کالم بھی پڑھنے شروع کیے۔

جامعہ کراچی میں داخلے کا مرکزی گیٹ۔ اکرم ڈوگر ایک گاڑی کو لفٹ کے لئے اشارہ دیتے ہیں اور گاڑی اتفاق سے رک جاتی ہے۔ ڈرائیونگ سیٹ پر جامعہ کے بہت مشہور استاد براجمان ہیں۔ اکرم ڈوگر ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں۔ ادھر ادھر کی بات چیت کے بعد، اکرم ڈوگر اپنے روایتی انداز میں ”ڈاکٹر صاحب کتنا المیہ ہے کہ جو ضرورت مند خاندانوں کے طالب علم ہیں، انھیں نوکری نہیں ملتی اور جنہیں نوکری کی ضرورت نہی، انھیں نوکری مل جاتی ہے“ ۔

پروفیسر صاحب نے تائید کرتے ہوئے کہا ”واقعی صورت حال ایسی ہی ہے۔“ اکرم ڈوگر ( گاڑی کی میسر لفٹ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ) ، دل کی بات زبان پے لائے بغیر کہاں رکنے والے ”ڈاکٹر صاحب یہ صورت حال، پالیسی میکرز کی پیدا کردہ ہے اور آپ چوں کہ ان پالیسی میکرز میں شامل ہیں اس لئے آپ بھی اس کے لئے جواب دہ ہیں“

اس مزاج اور اس ڈھب کا آدمی ”کتاب دوست“ نہ ہو، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ کتاب خریدنے، رکھنے اور پڑھنے کا ایسا انداز کہ شاید ہی کہیں اور ملے۔ جہاں کہیں کسی اچھی کتاب کی سن گن ملی، فوری حاصل کرنے کی خواہش نے جنم لیا اور تب تک چین نہ پایا، جب تک، اس تک رسائی نہ ہوئی۔ (خواہ اس عمل کے لئے پاکٹ منی کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑی )

کتاب خریدنا اکرم ڈوگر کے لئے، کتاب دوستی کا محض پہلا مرحلہ تھا۔ کتاب کی دیکھ بھال کے لے وہ اس سے زیادہ مستعد تھے۔ عوامی جمہوریہ چین کے ترجمان جریدے ”چین با تصویر“ سے جو با خبر ہیں، وہ اس کی پیپر کوالٹی سے بھی آگاہ ہیں۔ اکرم ڈوگر کو ”چین باتصویر“ کے پرانے شمارے بھی اتنے ہی عزیز تھے، جتنے نئے۔ وہ اس لئے کہ یہاں، پرانے شمارے ردی کی نذر ہو نے کے بجائے، اکرم ڈوگر کی کتابوں کے کور کی صورت اختیار کر لیتے تھے۔ اور یہ ہی نہیں، اس بائنڈنگ کے عمل میں جمالیاتی ذوق اور کتاب کی صحت کو برقرار رکھنے کے عوامل کو بھی ہر طرح ملحوظ خاطر رکھا جاتا۔

اکرم ڈوگر کی بک ریڈنگ، لال پینسل کے بغیر ممکن نہ تھی۔ یہاں لال پینسل کا انتخاب، شاید ان کے فکری رجحان سے زیادہ، منتخب اور پسندیدہ سطروں کو نمایاں کرنے کے لئے تھا۔ تاکہ آئندہ بوقت ضرورت آور بوقت تلاش، فکر انگیز خیالات کو عام خیالات سے ممیز کرنا آسان ہو۔ کبھی کوئی قدردان ان سے ان کی کتاب مستعار لیتا تو بہت زچ ہوتا ”یار تمہاری کتابوں کے حاشیے تمہارے تبصرے لگتے ہیں“ ۔ ایسوں کے لئے اکرم ڈوگر کا نپا تلا جواب تھا ”خود خرید کے پڑھو۔“

جامعہ کی تعطیلات پے فیصل آباد لوٹتے، تو ہر بار، ایک ٹرنک کتابوں سے بھرا ساتھ ہوتا۔ والد ہمیشہ اس اندیشے اور مغالطے کا شکار رہے کہ یہ پڑھنے کا نہیں، کسی دکان کا سامان ہے۔

اکرم ڈوگر کے پاؤں میں چکر تھے، اس لئے کہیں جم کر، بیٹھ کر، دفتری دنیا کا ہو جانا، ان کے بس کا نہ تھا، تاہم جب اور جہاں موقع ملا، ذرائع ابلاغ سے تعلق کا حق ادا کیا۔ پاکستان ٹیلیوژن کے بانی اسلم اظہر نے پاکستان ٹیلی ویژن سے علیحدگی کے بعد جب ایک تھیٹریکل گروپ دستک کی تشکیل کی تو، اکرم ڈوگر اس ٹیم کا حصہ ہوئے اور مقدور بھر اپنا کردار جی جان سے ادا کیا۔

ٹیلیویژن کا لاتعلق ناظر بننا، انھیں قبول نہ تھا، اس لئے ٹیلیویژن کی مختلف شخصیات سے مسلسل رابطے میں رہے اور ہمیشہ گپ شپ کی بجائے معنی خیز مکالمے کو ترجیح دی۔ فاصلے کی صورت میں بھی، ٹیلیویژن کے ارباب کو قلمی ردعمل سے آگاہ کرنا، کبھی نہ بھولے۔

جو شخص اتنا متحرک، سیلانی اور متلاشی ہو، اس کا حلقہ احباب کیوں کر مختصر ہو سکتا ہے۔ اس معاملے میں بھی، اکرم ڈوگر کا طرز عمل صحیح معنوں میں نہایت ”دوستانہ“ تھا جس کی تشریح کچھ یوں کی جا سکتی ہے کہ اکرم ڈوگر کو دوستی بنانے، دوستی بڑھانے، دوستی نبھانے اور دوستی پھیلانے کا غیر معمولی ہنر حاصل تھا۔ ایک تعارف، پھر تعارف در تعارف اور یوں یہ تعارف کئی تعارف کا ذریعہ بن جاتا۔ دوستی اور دوستوں کا یہ دائرہ، غیر محسوس طریقے سے وہ وسعت اختیار کر لیتا کہ یہ جاننا آسان نہ ہوتا کہ پہلا تعارف کس سے اور کس کے توسط سے ہوا۔

آج اکرم ڈوگر کے دوستوں کا حلقہ، دعا گو ہے کہ اکرم ڈوگر نے عام آدمی کے لئے جس معاشرے کا ہمیشہ خواب دیکھا، وہ ہمیں نصیب ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments