استحصال کا خاتمہ۔ ۔ ۔


مملکت کے علاقہ جات اور مذہب کے آرٹیکل کے بعد سب سے اہم ترین آرٹیکل دستور پاکستان میں آرٹیکل ( 3 ) ہیں اس شق کا مطلب ہے کہ ریاست پاکستان تمام اقسام کے استحصال کے خاتمے کے لئے اقدامات کرے گی۔ اس آرٹیکل پر عمل کرنے سے پاکستان کے 75 % فیصد مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے اس طرح کی شقوں میں روح ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ اٹھارہویں ترمیم میں کنکرنٹ لسٹ ختم ہوجانے کی وجہ سے صوبوں کو قوانین بنانے کے اختیارات دیے گئے (یعنی پہلے قوانین بنانے کے بعد وفاق یا مرکز سے اجازت لینی پڑتی تھی اب نہیں ) اور اس کے ساتھ ساتھ کہیں اور وفاقی اداروں کا انتقال ہوا، اس طرح کی اقدامات کی وجہ سے صوبہ بلوچستان، صوبہ خیبر پشتونخواہ اور سندھ کے سیاسی اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے مٹھائیاں بانٹیں اور جدوجہد مسلسل کو عملی جامہ پہنایا۔

اس طرح کا ایک واقعہ ہمیں چودھری رحمت علی کے کتابچے ”ابھی نہیں تو کبھی نہیں“ سے ملتا ہے کہ جب برصغیر میں انگریز 1935 ایکٹ بنانے کی تیاری میں لگا تھا تو انہوں نے 1933 میں لکھا انگریز سرکار کو کہ ہندوستان میں ریاستوں کو خودمختاری دی جائے اور جن علاقوں میں ہم ابھی جو رہتے ہیں مثال کے طور پر پ سے پنجاب الف سے افغانیہ ک سے کشمیر اور ستان سے بلوچستان کی آبادی اب لاکھوں میں ہیں اس لیے ان کو ایک ریاست بنا دیا جائے۔

یہ وہ چودھری رحمت علی ہے جو انگریز سرکار کے ہتھکنڈوں سے تنگ آکر، جا کے لندن میں اپنی قوم کے لیے جدوجہد کی اور یہاں تک قربانی دیں کہ اپنی بیٹی بیمار ہونے کی وجہ سے اور بیمار پرسی کی حالت میں اپنی والدہ کے کہنے پر اپنے والد کو خط لکھا کہ شاید وہ بیمار پرسی کے لئے لندن سے اپنے گاؤں آ جائیں مگر وہ نہ آ سکیں اور بیٹی اسی حالت میں وفات پا گئی۔

چودھری رحمت علی، قائداعظم محمد علی جناح، مہاتما گاندھی، مولانا ابوالکلام آزاد، باچا خان یا خان عبدالغفار خان، غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل اور عبدالصمد خان اچکزئی کے علاقوں پر تو انگریزوں نے یا فرنگیوں نے قبضہ کیا تھا اس لیے وہ تمام ساحل وسائل پر قبضہ کیے بیٹھیں تھے وہ تو فرنگی تھے اس لیے وہ تمام ہتھکنڈوں اور مظالم سے باز نہیں آ رہی تھیں اور تمام اقوام ہندوستان کے ساتھ نا انصافی اور ظلم سے دریغ نہیں کر رہے تھے ایک معمولی سے سپاہی بڑے رینک کے فوجی تگ انگلستان سے خالی جیب آئے تھے اور جاتے جاتے لکھ پتی بن کے چلے گئے۔

بلوچستان کے باسیوں کو ان کے ساحل وسائل دی جائے کیونکہ وہ اس ریاست ماں کے بیٹے ہیں ان کے ساتھ جتنے وعدے وعید کیے گئے تھے پرانے اور نئے ان کو نبھائیں، جی ایم سید کے سندھ کو جنہوں نے قرارداد پاکستان کے لیے سندھ اسمبلی میں بل پاس کرایا تھا ان کے داخلی سندھ کے باسیوں کو ان کے آئینی اور حکمت عملی کے اصولوں کے مطابق ان کے حقوق دیے جائے مہاجر جو ہندوستان سے آئے تھے ان کی زندگیاں بدلیں تو نہیں مگر بگڑی ضرور ہیں ان کو آئینی حقوق دینے چاہیے سقوط ڈھاکہ کے بعد جن بنگالیوں نے بنگلہ دیش جانا پسند نہیں کیا، افغانستان سے جو تین دہائیوں سے آباد ہیں ان کو اور باقی اقوام کو شہریت دینی چاہیے۔

اور رہی بات پاکستانی افغانیوں کی جو کہ عدم تشدد کے علمبردار خان عبدالغفار خان یعنی بادشاہ خان کے پشتونخوا کے باسیوں سے روز اول سے بذریعہ عبدالقیوم خان بھابڑا کے واقعہ سے عارف وزیر کے قتل تک جتنے واقعات ہوئے ان سب پر ریاست پاکستان معافی مانگ لے اور Truth and Reconciliation Commission کے لئے اقدامات اٹھائے اور اپنے سینے بڑے کرے جس طرح نیلسن منڈیلا نے ساؤتھ افریقہ میں ٹروتھ اینڈ ریکنسیلیشن کمیشن بنایا تھا پچھلے واقعات پر گوروں نے سیاہ فام افریقیوں سے معافی مانگ لی تھی اگر ریاست نے اپنے پیچھے اعمال پر بلوچوں، سندھیوں اور پشتونوں سے معافی نہیں مانگی توکل کا تاریخ پڑھنے والا طالب علم ریاست پاکستان کے عظیم سپوتوں کو کبھی بھی معاف نہیں کرے گی۔

اپنے بنیادی حقوق کے لیے لڑنے والے تمام سیاسی اور انسانی حقوق کے علمبردار عدم تشدد کے فلسفے کو کسی بھی حالت میں اپنے ہاتھوں سے جانے نہ دے۔

استحصال کے خاتمے کے لئے پاکستان کا ہر ایماندار جج، فوجی، لکھاری، سیاستدان، وکیل یعنی ہر مکتبہ فکر سر توڑ کوشش کریں اور اٹھارہویں ترمیم کی حفاظت کے لیے مہم چلائے کیوں کہ ریاست اور شہری کے بیچ میں صرف ایک رشتہ ہے وہ ہے دستور پاکستان۔

اگر خدانخواستہ دستور نہ رہا تو تمام رشتے ازخود ٹوٹ جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments