کورونا اورجہالت


نصف شب اس کی بیوی نے یہ کہتے ہوئے اسے گہری نیند سے جگایا کہ منے کی طبیعت بہت زیادہ بگڑ چکی ہے جلدی سے کچھ کرو۔ دونوں میاں بیوی منے کے پاس گئے اور اس کا سر دبانے لگے۔ چند روز پہلے منے کے جس بخار اور نزلہ زکام کو معمولی سمجھ کر اس کے والد نے تعویز باندھ کر ٹھیک کرنے کی کوشش کی تھی اب وہ اس قدر بگڑ چکا تھا کہ منے کو سانس لینے میں بھی دشواری ہو رہی تھی اور لگاتار کھانسی بھی آ رہی تھی۔

صورتحال کو قابو سے باہر ہوتا دیکھ کر جلدی سے اس نے منے کا ہاتھ پکڑا اور محلے کے امام مسجد کے پاس دم کروانے لے گیا۔ امام مسجد نے منے کی حالت دیکھتے ہی اسے کسی ڈاکٹر کو دکھانے کا مشورہ دیا تو اس کے والد نے کھڑے کھڑے امام مسجد کے کمزور ایمان پر سوال اٹھا دیے۔ اس سے پہلے کہ کوئی کفر کا فتویٰ لگتا، امام مسجد نے ایک دو صورتیں پڑھ کر پھونکیں اور منے کی صحت کے لیے دعا کی۔ جب امام مسجد کا دم بھی کچھ نہ کر سکا تو وہ منے کو اپنے پیر صاحب کے پاس ’خصوصی‘ دم کروانے لے گیا ساتھ ہی دعائیں مانگنے لگا۔

اتنا کچھ کرنے کے باوجود جب منے کو آرام نہ آیا تو اپنی بیوی کے کہنے پے اگلے دن بالآخر وہ منے کا معائنہ کروانے ہسپتال لے آیا جہاں تین گھنٹے انتہائی نگہداشت میں گزارنے کے بعد منے نے جان دے دی۔ ڈاکٹروں نے موت کی وجہ کورونا کو قرار دیتے ہوئے منے کے تمام گھر والوں کے ٹیسٹ کیے جس میں سب مثبت پائے گئے اور سب کو قرنطینہ کر دیا گیا۔ یوں جس بیماری کو وہ یہود و نصاریٰ کی سازش سمجھ رہا تھا وہ اس کے گھر ڈیرے ڈال چکی تھی اور اپنی جہالت کو تقدیر کا فیصلہ سمجھ کر وہ اپنے چاند سے بیٹے سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔

منے کی کہانی اس وقت لاکھوں ایسے معصوم پاکستانیوں کا احوال پیش کرتی ہے جن کو مذہبی رہنما اسلام کے نام پر گمراہ کر رہے ہیں۔ آج سے چودہ سو سال پہلے رسول اللہ ﷺ نے جس پیارے دین اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کیا اس دین کے چند علماء کرام اس مشکل گھڑی میں حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے اپنی اپنی دکانداری چمکا رہے ہیں۔

اسلام صرف ایک مذہب نہیں بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں جاگنے سے لے کر سونے تک زندگی گزارنے کے تمام اصول وضع کیے گئے ہیں۔ خود ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے عملی طور پر ایک متوازن اور معتدل زندگی گزار کے ہمیں دنیا و آخرت میں کامیابی کا طریقہ بتایا۔ اللہ تعالیٰ نے سیرت نبوی ﷺ کو مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا تا کہ قیامت تک ہمیں رہنمائی مل سکے۔

قرآن و حدیث میں کہیں بھی یہ حکم نہیں دیا گیا کہ بیماری کی حالت میں علاج کی بجائے عبادات پہ اکتفا کیا جائے بلکہ دوا اور دعا دونوں ہی شفاء کے لیے ضروری قرار دیے گئے ہیں۔ اسلام نے دنیا کو ظاہری اسباب قرار دیا جس میں ہمیں ہر مصیبت کو عملی طور پر دیکھنا چاہیے۔ اگر محض دعائیں اور عبادات ہی کافی ہوتیں تو رسول پاک ﷺ دین اسلام کے لیے مصائب جھیلتے نہ صحابہ کرام قربانیاں دیتے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کلام پاک برحق ہے اور اس میں مسلمانوں کے لیے شفاء ہے، لیکن اگر صرف تلاوت کرنے سے بیماریاں دور ہو جاتیں تو طب نبوی کا وجود ہی نہ ہوتا۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں تحقیق کرنے اور زمین میں چھپے راز تلاش کرنے کا حکم دیا ہے جس سے جدید سائنسی علوم کی جانب اشارہ ملتا ہے۔ عالم اسلام کے موجودہ زوال کی بنیادی وجہ علم و تحقیق سے دوری اور قرآن و حدیث کی غلط انداز میں تشریح کرنا ہے۔

چین سے شروع ہو کر پوری دنیا میں پھیلے کورونا وائرس سے اب تک 40 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو چکے جن میں دو لاکھ سے زائد ہلاک ہو چکے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت نے کورونا کو عالمی وبا قرار دیا اور اس سے بچنے کے لیے سخت احتیاطی تدابیر اپنانے کی ہدایات جاری کی ہیں۔

10 مئی تک پاکستان میں 29,465 افراد کورونا پازیٹیو پائے گئے جن میں سے 8,023 صحت یاب جبکہ 639 جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ہمارے ملک میں طبی عملہ نہ صرف کورونا سے لڑ رہا ہے بلکہ اس جہالت کا بھی سامنا کر رہا ہے جو مختلف دینی، سیاسی، اور سماجی رہنماؤں کی طرف سے پھیلائی جا رہی ہے۔

ملک کی ایک بڑی مذہبی جماعت جو کہ 2018 کے الیکشن میں بیس لاکھ سے زیادہ ووٹ لے چکی ہے، کے کئی علماء کرام کی طرف سے کورونا کو نہ صرف یہود و نصاریٰ کی سازش قرار دیا گیا بلکہ لوگوں کو سماجی دوری کے اصولوں کی پیروی کی بجائے عام حالات کی طرح نمازیں ادا کرنے کو کہا گیا۔ ایک رہنما نے تو کورونا کو محض وہم قرار دینے ہوئے آپس میں ہاتھ ملانے اور معمول کی زندگی گزارنے کی ترغیب دی۔

ایک اور مولانا صاحب نے باقاعدہ بددعا کی کہ اے اللہ اس کورونا کو کفار کی طرف موڑ دے، یہاں تک کہ ویکسین کو طریقہ علاج سمجھنے والوں کے ایمان کو کمزور قرار دے کر مساجد میں عبادت کرنے پر زور دیا تا کہ کورونا کا علاج کیا جا سکے۔ اگر محض مساجد میں عبادت کرنے سے بیماری دور ہو جاتی تو ہسپتالوں میں جا کے دوا لینے کی کیا ضرورت ہے، چند بڑی مساجد میں علماء کرام کو کورونا کے مریضوں کا علاج کرنے کی ذمہ داریاں سونپ دینی چاہیں تا کہ اموات کی شرح بھی کم ہو اور اخراجات بھی بچ سکیں۔

کچھ اسی قسم کا رویہ سیاستدانوں اور حکومت کی طرف سے بھی دیکھنے کو ملا ہے جو کورونا سے جنگ لڑنے کی بجائے آپس میں لڑ رہے ہیں۔ خاص طور پر وفاقی حکومت کا شروع دن سے لاک ڈاؤن کے حوالے سے موقف غیر واضح رہا ہے، حال یہ میں وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کو کورونا کی اموات کا حادثاتی اموات سے موازنہ کرنے پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔

مشکل کی اس گھڑی میں ہمیں نہ صرف باہمی اتفاق کی اشد ضرورت ہے، بلکہ طبی ماہرین کے رائے کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ افسوس کہ جو سائنسدانوں اور طبی ماہرین اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کے کورونا کے خلاف جہاد کر رہے ہیں وہ ہر دوسرے دن لاک ڈاؤن سخت کرنے اور ہسپتالوں کی حالت زار بارے پریس کانفرنس کر رہے ہوتے ہیں، جبکہ فیصلہ سازی کا اختیار زیادہ تر ان لوگوں کے پاس ہے جن کا طبی شعبے سے دور دور تک کچھ لینا دینا نہیں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس وبا سے جلد از جلد نجات عطا فرما تاکہ رکی ہوئی زندگی کا پہیہ پھر سے رواں ہو سکے اور غریب عوام کی بڑھتی مالی مشکلات میں کمی ہو سکے، آمین۔

یوسف سلیم
Latest posts by یوسف سلیم (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments