بے زبان حقیقت


اج کے دور کا انسان خود کو جاننے سے کوسوں دور ہے۔ زندگی کی ڈور کو بے لگام خواشوں کے سپرد کرکے وہ یہ جاننے سے قاصر ہوچکا ہے کی وہ روحانی طور پر خطرناک حد تک زخمی ہوچکا ہے۔ آج وہ اگر کچھ کرنا بھی چاہتا ہے تو خود کی جھوٹی انا کی تسکین کے لئے کرتا ہے۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے۔ وہ واقعی اس کو روحانی طور پہ مضبوط کرے گی۔ المیہ یہ کے آج کے دور کی حیرت آنگیر ٹیکنالوجی نے جہاں ہماری زندگیوں کو سہل کرنے کے ساتھ مصروفیت کے جال میں جھکڑ دیا ہے وہیں روحانیت کو ہماری زندگیوں سے نچھڑ دیا ہے۔

ہم روحانی طور پر خطرناک حد تک کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ ہم یہ حقیقت تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ روحانی سکون ہمارے کیے کتنا ضروری ہے۔ ہم خود کو وقت دینے کو ہی تیار نہیں۔ ہم نے مصروف زندگی کی دوڑ میں اس حد تک خود کو الجھا دیا ہے۔ کہ ہمارے اندر فطری طور پر اگنے والا ہمارا روحانی کونپل ہمارے اندر ہی کہیں جھلس جاتا ہے۔ ہم نے اپنی اندھی خواھشوں کی تقلید اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ میں خود کی اصل شناخت کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

افسوس صد افسوس اس روحانی بے راہروی کو ہم ترقی کا نا م دے رہے ہیں جبکہ ہم خو ب جانتے ہیں کہ ترقی اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہم مغرب سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اج ہر دوسرا انسان خود میں ڈپریشن اور ٹینشن کا شکار یے مگر دنیاوی دکھاوے کے لئے وہ خود کو مضبوط دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ آج کا انسان جب اپنے اس خالی پن سے خود کو نکالنے میں ناکام ہوتا ہے تو آخرکار خودکشی کا سہارا لیتا ہے۔ اپنی اخلاقی اقدار، روایات، کو کچھل کر اگر ہم نے یہ سوچا ہے کہ ہم اگے بڑھ جائیں گے تو یہ محض سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔

جب تک ہم انفرادی طور پہ مضبوط اور اپنی روحانی کونپل کو تناور درخت نہیں بنائیگے تب تک ہم اجتماعی طور پر بحیثیت قوم اگے نہیں بڑھ سکتے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کیسے اس روحانیت تک پہنچ سکتے ہیں۔ تو یہ مشکل مرحلہ ہے کیونکہ ہمارے مشران جو کہ اب رفتہ رفتہ ہمیں چھوڑ رہے ہیں ان کی صحبت مہں بیٹھے ان سے سیکھیں کیونکہ اس سے آگے کی نسلیں اب ٹیکنالوجی کی دھند میں جھکڑ چکی ہیں۔ اور گر ہم ان سے نہیں سیکھیں گے تو ہم سے روحانیت ہمیشہ کے لیے روٹھ جائے گی اور ہم ہمیشہ کے لئے اپنی انا اور خواہشوں کے خول مہں بند ہو جائیں گے۔

اس کے علاوہ اپنی روح کی نشونما پر توجہ دینے کے لئے خود کو وقت ضرور دیں۔ روحانی کتابوں کا مطالعہ اور قرآن کو تفسیر کے ساتھ پڑھنے پر توجہ دیں۔ اس رمضان اور وبائی افت سے جو ہمیں قرنطینہ کے لمحات ملے ہیں ان کو اللہ غزو جل شانہ کی طرف سے مہلت جان کر خود کو اس جھوٹ، آنا، ریاکاری، حسد کی دلدل سے خ کو نکال لیں۔ اور یہ مشکل نہیں اگر ہم انفرادی طور پر خود کو مضبوط کر لیں تو ہم ایک خوبصورت اور روحانی طور پر مضبوط معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں۔ انشاءاللہ

پلوشہ لطیف
Latest posts by پلوشہ لطیف (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments