ہم اور پنجابی زبان


میرے بچوں کی مادری زباں اردو ہے۔ کیونکہ ان کی ماں اردو بولتی ہے تو مجبوری ہے۔ ورنہ میں تو مقدور بھر پنجابی کا تڑکا لگانے کی کوشش کرتا ہوں اور اردو کے جواب میں بھی اکثر پنجابی میں ہی مافی الضمیر بتاتا ہوں۔ گو کہ اردو میں بھی اچھا خاصا گزارا کر لیتا ہوں۔ مگر مجھے یہ فطری نہیں لگتا اور جس دن مجھے کبھی مسلسل بوجہ مجبوری اردو میں بات کرنا پڑے تو یقین کیجیے تشنگی کا عالم ہوتا ہے۔ اور پھر جب تک پنجابی میں کچھ گنگنا یا سن نہیں لیتا۔ تب تک یہ پیاس دور نہیں ہوتی۔

میں اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے دوران بھی عموماً بہت کچھ پنجابی میں ہی کہتا ہوں۔ ، اور مجھے اس بارے کبھی شرم بھی نہیں آئی اور ویسے بھی جب سے لوگوں سے واہ دوا پڑی ہے۔ شرمیلا پن کم ہو گیا ہے۔ اور اگر مجھے کوئی اس وجہ سے ان پڑھ کہے تو میں ان پڑھ ہوں۔ اگر کوئی گنوار کہے تو میں گنوار اور پینڈو ہوں۔ اور اگر کوئی مجھے اس وجہ سے قدامت پسند کہتا ہے تو مجھے یہ تسلیم کرنے میں عار نہیں ہے کہ میں ماڈرن نہیں ہوں۔

مجھے پنجابی کے سارے ہی رنگ اچھے لگتے ہیں۔

۔ ندیم افضل چن صاحب نے جس لہجے میں بات کی میرے دل کے قریب تھی۔ کیونکہ میں ان کے پڑوسی گاؤں سے تعلق رکھتا ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ جب کسی کا درد ہمارے دل میں ہوتا ہے اور فوری عمل درآمد کروانا مقصود ہوتا ہے تو ہم یہ لہجہ، یہ الفاظ اور اس بے باکی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اور یہ ہماری روٹین کا حصہ ہے۔ کسی کا درد جب اپنے درد کی طرح محسوس کرتے ہیں تو یہ لہجہ اپناتے ہیں۔ اور کم الفاظ میں زیادہ پیغام دینا مقصود بھی ہوتاہے۔ ندیم چن کی وکالت کرنا مقصود نہیں۔ اپنی بات بتا رہاہوں۔ ایک بات سے بہر حال اختلاف ہے کہ ندیم کو پروگرام میں آکر اس زبان کو جانگلی زبان نہیں کہنا چاہیے تھا۔ تاہم یہ بات اچھی تھی کہ اس نے کہا کہ یہ میرے ہی الفاظ تھے۔

چلیں اس لہجے پر معترضین سے سوال ہے کہ سکولوں میں بولی جانے والی پنجابی میں یہ لہجہ نہیں ہے۔ پھر اسے کیوں گالی سمجھا جاتا ہے۔

نئی تہذیب کے انڈے یہ کہتے رہیں گے۔ ہمیں شرمسار نہیں ہونا اور اپنی زبان کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔

کچھ عرصہ قبل یورپ پلٹ ایک آنٹی کا اہک ڈائیلاگ ”کھوتا کھلو گیا“ سوشل میڈیا پہ اس وجہ سے وائرل ہوا کہ وہ پنجابی میں تھا اور اس میں پنجابی کا مذاق اڑایا گیا تھا۔ ورنہ اس میں کچھ خاص بات نہیں تھی۔

کہا جاتا ہے کہ ماں، ماں دھرتی اور ماں بولی یہ نہیں بدلی جا سکتیں۔ اور کیا اپنی ماں کے چہرے پہ چیچک کے داغ ہوں تو ہم قطرینہ کیف کو ماں بنا لیں گے؟

انگریزی بھلے اعلیٰ سہی۔ ہمارے افسر کی زبان سہی۔ مگر ماں کے منھ سے نکلے ہوئے پنجابی کے وہ جملے جن میں اس نے سب سے پہلے آپ سے گفتگو کی تھی وہ بدل لو۔

آج کل کی ماؤں کی بات نہیں کر رہا۔ جن کو رونا بھی اردو میں آتا ہے۔

آپ کیسے پیچھا چھڑائیں گے۔ جب درد ہوتا ہے۔ حد سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ یا انتہا سے زیادہ جذباتی ہوتے ہیں تو آپ کے منھ سے بھی ندیم چن کی طرح پنجابی ہی نکلتی ہے۔ اور پنجابی کے بغیر دل کا بوجھ ہلکا کر کے دکھائیں۔

ہمارے کیا کہنے۔ ہم نے تو گالی کا نام پنجابی اور پنجابی کا نام گالی رکھ دیا۔ بھلا ہو سکھوں کا۔ جو بلا جھجک اس زبان کو بولتے بھی ہیں۔ اسی میں پڑھتے بھی ہیں۔ اور اس کی آبیاری بھی کر رہے ہیں۔ اور اگر ہم جدیدیت کے چکر میں اس کو کل کلاں کو چھوڑ بھی دیتے ہیں تو بھی ہماری زبان سکھوں کی وجہ سے محفوظ رہے گی۔ اس لیے مجھے اس زبان کے بارے کبھی عدم تحفظ کا احساس نہیں ہوا۔

جو کینیڈا جیسے جدید ملک میں رہتے ہوئے بھی اس کا ساتھ نبھا رہے ہیں۔

مجھے احساس صرف اس بات کا ہے۔ بلکہ دکھ ہے کہ جس طرح ہم اپنے گھروں سے پنجابی کو دیس نکالا دے رہے ہیں۔ اب تو گاؤں میں بھی ان پڑھ والدین بھی بچوں کو پنجابی سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔

تو آئندہ پندرہ بیس سال میں جب یہ نسل پروان چڑھے گی تو پنجابی سے نابلد ہو چکے ہوں گے۔ یا کم از کم وہ پنجابی نہیں سیکھ سکیں گے جو ماں سکھاتی ہیں۔ اس کے صاحب زبان نہیں رہیں گے۔ تو یہ سیف الملوک، ہیر وارث شاہ، کلام بابا بلھے شاہ، شاہ حسین کی کافیاں، بابا فرید کا کلام اور سلطان باہو علیٰ رحمہ کا کلام ان سب سے یکسر محروم رہ جائیں گے۔ علم و حکمت کا جو خزانہ ان کتابوں میں ہے یہ کہاں سے حاصل کر سکیں گے۔ اور اگر مل بھی گیا تو اسے کیسے سمجھیں گے۔ آج سے بیس سال پیچھے چلے جائیں تو کہیں نہ کہیں بزرگوں کی محافل میں سیف الملوک، ہیر وارث شاہ یا کلام باہو سننے کو مل جاتا تھا۔

مگر آج یہ چیز عنقا ہو چکی۔ اگر کہیں یہ کلام سنیں تو حیرت ہوتی ہے اور اگر کوئی ہمارے منھ سے کوئی بند یا کافی سن لے تو اسے دگنی حیرت ہوتی ہے۔

وہ علم کے موتی وہ کتابیں اپنے آبا کی۔
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا۔
کچھ ایسا ماحول بننے والا ہے۔ یہ علم طاق نسیاں کی نذر ہونے والا ہے۔ خاکم بدہن
دائم فضل فقیر دی بولی۔
رانجھے دی تے ہیر دی بولی۔
وارث شاہ پیر دی بولی۔
پھلاں بھری چنگیر پنجابی۔
بولاں کیوں نہ فیر پنجابی۔

ہمیں گھٹیا حرکتیں کرتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ اخلاقیات سے گر کر شرم نہیں آتی۔ دھوکا دیتے ہوئے شرم نہیں آتی۔

شرم آئی بھی تو کب۔ پنجابی بولتے ہوئے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پنجاب کے ساتھ پنجابی کا بھی بٹوارہ ہوا تھا نہیں تو عین ممکن ہے پنجابی ذریعہ تدریس ہوتی۔

حیران کن بات ہے کہ امرتا پریتم کو شرم نہیں آئی پنجابی بولتے ہوئے۔ جب کہا
اج آکھا ں وارث شاہ نوں۔
کتھوں قبراں وچوں بول۔
تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول۔
اک روئی سی دھی پنجاب دی۔
تو لکھ لکھ مارے وین۔
اج لکھا دھیاں روندیاں
تینوں وارث شاہ نوں کہن۔
وے درد منڈا دیا دردیا۔
اٹھ تک اپنا پنجاب۔
اج بیلے لاشاں وچھیاں۔
اج لہو دی بھری چناب۔

بلھے شاہ کی ”کر کتن ول دھیان کڑے“ کا کسی زبان میں ترجمہ کر کے دیکھ لیں۔ اور یہ چاشنی اور مٹھاس حاصل کرنے کی کوشش بھی کیجیے گا۔

انور مسعود کی امڑی بھلا کسی اور زبان میں لکھی جا سکتی تھی؟

ہماری جدیدیت کی سمجھ نہیں آتی۔ پٹھان ماڈرن ہو کر بھی پشتو بولتا ہے۔ جنوبی پنجاب والا سرائیکی میں گفتگو کر کے مزے لیتاہے۔ مگر ہم پنجابی بولیں گے تو ہم پینڈو یا گنوار کہلائیں گے۔

فطرت سے ہٹ کر جب بھی کبھی انسان نے فیصلہ کیا ہے قدرت نے ہمیشہ اس کو رسوا کیا ہے۔ اور یہی ہمارے ساتھ ہو بھی رہا اور ہو گا بھی۔

شاہد رضوان
Latest posts by شاہد رضوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments