دنیا ہے ماں تیرے آنچل میں


بھائی صاحب کا فون تھا۔

ان کا خیال تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ممی کو نرسنگ ہوم میں شفٹ کردیا جائے۔

یار تم سمجھتے نہیں ہو اورخواہ مخواہ میں جذباتی ہورہے ہو۔ ہم لوگ اب ان کا خیال نہیں رکھ سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب نرسنگ ہوم میں ان کا خیال رکھا جائے، وہاں تو پروفیشنل نرسیں اور دیکھ بھال کرنے کے ماہرہوتے ہیں۔ ہر وقت خیال رکھا جاتا ہے کوئی بھی مسئلہ ہو تو اس کا تدارک کیا جاتا ہے۔ فوری علاج ہوسکتا ہے۔ اب تو کسی بھی وقت کوئی بھی ایمرجنسی ہوسکتی ہے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ خدانخواستہ ان کی موت واقع ہوسکتی ہے تم اور لبنیٰ کیسے دیکھوگے انہیں۔

کیسے کروگے سارا کام۔ تم سے نہیں ہوسکتا ہے اب۔ اپنی پرائریٹی بھی دیکھو بھائی یہ امریکہ ہے یہاں اپنی پرائریٹی صحیح رکھنی ہوتی ہے۔ بہت ہوگیا جذباتی پن۔ ارے میری بھی تو ماں ہیں صرف تمہاری تو نہیں ہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ اب وہ بہت ڈیمانڈنگ ہوگئی ہیں۔ ہوجاتے ہیں لوگ اس عمر میں ایسے ہی ڈیمانڈنگ! اسی لئے تو یہ نرسنگ ہوم بنائے گئے ہیں گورا پاگل تھوڑا ہے جو اتنے بڑے بڑے ادارے بنائے گئے ہیں۔ ان کا مقصد بھی یہی ہے کہ بوڑھے لوگوں کو آرام و سکون پہنچایا جائے ایسا ماحول انہیں دیا جائے جس میں وہ خوش رہیں۔ ان کے بچے بھی مطمئن رہیں کہ وہ صحیح جگہ پر ہیں۔ ساتھ ساتھ خاندان کے دوسرے فرد بھی اپنے اپنے کاموں میں جیتے رہیں اور ترقی کرتے رہیں آگے بڑھتے رہیں۔

میں انہیں کچھ نہیں کہہ سکا کیسے کہتا کہ وہ، میری بڑی بہن، میں، میرا چھوٹا بھائی میری چھوٹی بہن بھی تو بہت ڈیمانڈنگ تھے۔ ہم پانچوں الگ تھے اورہم پانچوں کے مطالبات بھی الگ الگ۔ اپنی جوانی کی راتوں میں ہماری ماں اٹھ اٹھ کر ہمیں دودھ پلاتی ہوگی، گھنٹوں ٹہل ٹہل کر جاگ جاگ کر ہمیں سلاتی ہوگی اور جب ہم چاند کولینے کے لیے ہمکتے ہوں گے تو نہ جانے کیسے ہمیں بہلاتی ہوگی۔ جب بار بار ایک ہی بھالو، گاڑی گھوڑا گڑیا کے لیے روتے ہوں گے تو کس طرح ہمیں پھسلاتی ہوگی، مناتی ہوگی۔

کتنی دفعہ مجھے یاد ہے کہ کہیں جارہی ہیں، ضروری کام سے ابو کے ساتھ، خالہ جان کے ہمراہ مگر واجد مچل گیا اسے بھی جانا ہے۔ رونے لگا گلاپھاڑ پھاڑ کر۔ وہ نہیں گئیں اپنا پروگرام ختم کردیا ہمارے لیے بھی ایسا ہی کیا ہوگا انہوں نے کئی بار کیا ہوگا ابو کی ناراضگی کے باوجود۔ بڑے ڈیمانڈنگ تھے ہم لوگ بھائی صاحب۔ پیدا ہونے سے لے کر اسکول تک اوراسکول سے لے کر کالج۔ کالج سے لے کراپنی شادیوں تک اور شادیوں سے لے کراپنے اپنے بچوں کے ہونے تک۔ کب ڈیمانڈ نہیں کیا ہم نے اور کب انہوں نے ہماری ڈیمانڈ پوری نہیں کی۔

دوسری طرف بھائی صاحب ہیلو ہیلو کرتے رہے، میں اپنی ممی کو دیکھ رہا تھا، وہ بستر پر بے سدھ لیٹی ہوئی تھیں وہ کچھ نہیں کہہ سکتی تھیں صرف سمجھ سکتی تھیں۔ ان کی آنکھوں میں سب کچھ تھا، واضح پیغام۔ بیٹا مجھے نرسنگ ہوم میں نہ بھیجنا میں یہاں ہی خاموشی سے مرجاؤں گی۔ کچھ ڈیمانڈ نہیں کروں گی تم سے۔ نہ تمہارے بھائی سے نہ انور سے نہ عائشہ سے اورنہ ہی تمہاری باجی سے۔

میں نہیں کہہ سکا بھائی صاحب سے کہ اس ممی میں اور اس امریکن ماں میں بہت فرق ہے۔ اس امریکن ماں نے اپنی زندگی پلان کی ہے اپنے بڑھاپے کے لیے نرسنگ ہوم کا انتخاب کیا ہے یہاں تک کہ اپنے تدفین کے لیے بھی ایک انشورنس پالیسی لی ہوئی ہے میں امریکہ میں اپنے بڑھاپے کے لیے یہی کروں گا کیونکہ اس ممی کی تو کوئی انشورنس نہیں ہے ان کی انشورنس تو ہم ہیں ہم سب بھائی بہن۔

ساری زندگی انہوں نے ہماری ڈیمانڈ پوری کی تھی۔ بھائی صاحب نے یکایک اعلان کردیا کہ وہ خالہ جانی کی بیٹی عذرا سے شادی نہیں کریں گے کیونکہ انہیں اپنی کلاس کی لڑکی کرن سے محبت ہوگئی ہے اوروہ زندگی اس کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں۔ یہ زندگی ان کی ہے اوراس کا فیصلہ انہوں نے ہی کرنا ہے۔ اباجان نے واویلا مچادیا۔ عاق کرنے کو تیار ہوگئے، یہ کیسے ہوسکتا ہے بزرگوں کا فیصلہ ہے جس میں ان کی مرضی شامل تھی اس وقت خوشی خوشی منگنی کی تھی انہوں نے۔ اورپھر عذرا میں خرابی کیا ہے۔ تعلیم یافتہ ہے، کرن سے زیادہ خوبصورت ہے، خاندان اپنا ہے، کیا کمی ہے اس میں۔ عادتوں کی پیاری ہے، ہر ایک کی دوست، ہر ایک کی خیرخواہ۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ زبان دی ہے ہم لوگوں نے۔

مگر بھائی جان پہ تو جیسے کرن کا بھوت سوار ہوگیا تھا، انہوں نے کسی کی بھی بات ماننے سے انکار کردیا۔ اباجان کا غصے کے مارے برا حال تھا، مگر ممی نے انہیں سمجھایا، بھائی صاحب سے کوئی ڈیمانڈ نہیں کی، بلکہ بھائی صاحب کی ڈیمانڈ مان لی۔ پھر کرن ہماری بھابی بن کر آگئیں۔ بھابی کے پاس گرین کارڈ تھا اور ان کا پوراخاندان امریکہ میں تھا، بھائی صاحب بھی دیکھتے دیکھتے امریکہ روانہ ہوگئے۔ ممی نے روتی ہوئی آنکھوں سے انہیں رخصت کردیا، کسی ڈیمانڈ کے بغیر۔ بیٹا خوش رہو، جہاں بھی رہو۔ خوش رہو پلو بڑھو ترقی کرو، ایک ماں کیا چاہے گی اور اس کے علاوہ چاہتی بھی کیا ہے۔ دنیا کی ساری مائیں یہی تو چاہتی ہیں کہ ان کے بچے خوش رہیں، ہمیشہ ہنستے رہیں جہاں رہیں ان کے قریب یا ان سے دور۔

پھر بھائی صاحب کا پہلا بچہ ہوا، انہیں ممی کی ضرورت تھی۔ ان کا خط تھا فون تھا، اس دور دراز امریکہ کی ریاست میں کوئی مدد نہیں ہوتی ہے۔ کرن تھک جاتی ہیں، ممی تھوڑے دنوں کے لیے آجائیں نا۔ ممی تھوڑے دنوں کے لیے گئیں اورچھ مہینہ رہ کر آئیں جب تک کرن اوربچی سنبھل نہیں گئے۔ ماں سے نوکرانی بن گئیں ہر طرح خدمت کی بہو کی اور پوتے ہی۔

شاید اور رک جاتیں اگر باجی کی شادی کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ باجی کی شادی تھی، سب کچھ ان کو ہی کرنا تھا۔ بھائی صاحب کا آنا بہت مشکل تھابہت مصروف تھے۔ نیا نیا کام تھا، چھٹی نہیں مل رہی تھی دس دن کے لیے پانچ دن کے لیے آنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں تھا۔ پھر کرن بھی اکیلی رہ جاتیں۔ وہ نہیں آئے تھے۔ ابو ممی، میں اورشازیہ نے مل کر سب کرلیا۔ بہت آرام سے شادی ہوگئی۔

شازیہ کی شادی کے بعد عذرا آپی کی بھی شادی طے تھی، ممی نے دل کھول کر اس شادی میں حصہ لیا، وہ اسے ہمیشہ بیٹی کی طرح ہی سمجھتی رہی تھیں، جو ان کی بہو بننے والی تھی مگر بھائی صاحب نے اس رشتے کو اپنی پسند پر فوقیت نہیں دی۔ ممی نے بھائی صاحب سے تو کوئی شکایت نہیں کی مگر عذرا آپی کی شادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انہیں ایسے ہی رخصت کیا جیسے اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہیں۔ بچپن سے طے کردہ رشتوں کے بھی کچھ قرض ہوتے ہیں وہ قرض تھا بھائی صاحب کا اتارا، امی نے۔

عذرا آپی کی ولیمہ کی تقریب میں ہی ان کے دیور جو امریکہ سے آئے ہوئے تھے ان کی امی نے شازیہ کو پسند کرلیا اورچاہتی تھیں کہ جھٹ منگنی پٹ بیاہ ہوجائے۔ عباس کی چھٹی ختم ہورہی تھی، لڑکیوں کی تلاش جاری تھی کوئی پسند ہی نہیں آتی تھی کہ شازیہ انہیں بھاگئی۔

دیکھا بھالا خاندان تھا ہر جگہ سے پوچھوالیا گیا اور ساری خبریں مناسب ملی تھیں اور شازیہ کی شادی بھی بھائی صاحب کی غیرموجودگی میں ہوگئی۔ سال بھر کے اندر اندر وہ امریکہ چلی گئی۔

گھر تو جیسے خالی ہوگیا۔ بھائی صاحب امریکہ میں، باجی کینیڈا میں اور اب شازیہ بھی کناٹی کٹ میں اپنے شوہر کے ساتھ۔ گھر میں ابو میں اور میرا چھوٹا بھائی واجد رہ گیا تھا۔

میرا میڈیکل کالج میں آخری سال اور واجد کو آئی بی اے میں داخلہ مل گیا۔ ہم دونوں کا زیادہ تر وقت کالج میں یا دوستوں میں گزرتا۔ رات گئے گھر پہنچتے تو ممی کے ہاتھوں کاگرم گرم کھانا ہمیں اورہمارے دوستوں کے لیے ہر وقت مل جاتا۔ بڑے ڈیمانڈنگ تھے ہم لوگ۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments