میرے والد صاحب اور ذیابیطس


جب انہیں پوری طرح سے یقین ہوگیا کہ میں خود تو ان کی بات سنجیدگی سے نہیں لوں گا تو انہوں نے ہمارے بیٹے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ میں اکیلے اپنی زوجہ کو تو سنبھال لیتا ہوں لیکن ماں بیٹے کو ایک ساتھ ایک وقت پر قائل نہیں کر سکتا۔ لہذٰا میں نے ہار مان لی۔ ویسے بھی انسان کو کبھی بھی اپنے ڈاکٹر کے ساتھ صحت کے بارے میں مباحثہ نہیں کرنا چاہیے خواہ وہ ڈاکٹر اپنا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ ٹیسٹ کرانے پر یہ انکشاف ہوا کہ میری بیگم ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بالکل درست فرما رہی تھیں۔

مشتاق احمد یوسفی صاحب نے صحیح لکھا ہے کہ مرد شادی کے بعد اپنی بیگم سے سے کوئی مکالمہ اگر جیت بھی جائے تو بھی ہار جاتا ہے۔ شادی کے بعد مرد کے نصیب میں جیتنا لکھا ہی نہیں ہوتا۔ مجھے کوئی زیادہ پریشانی تو نہیں ہو رہی تھی بس تھوڑی سی حیرت ضرور تھی۔ اس کے بعد میری زندگی کا پورا طرز عمل تبدیل ہوگیا۔ مجھے باقاعدگی سے ورزش کروائی جانے لگی۔ میری خوراک کا بھی بڑی سنجیدگی سے خیال رکھا جانے لگا۔

وہ تمام چیزیں جن سے بلڈ گلوکوز لیول زیاد ہ ہونے کے خدشات ہوں، مجھ پر بند ہوگئیں۔ اور کافی سختی سے سے پرہیز کرایا جانے لگا۔ آپ کو جان کر کافی حیرانی ہوگی کہ جب بات والدین کے صحت پر آتی ہے تو بچوں سے زیادہ سخت شاید ہی کوئی اور ہو سکتا ہو۔ میں تمام والدین سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ بدلتا ہوا دور ہے اور اس دور کے بچے کافی ہوشیار ہیں۔ لہذٰا کبھی کبھی بچوں کا کہا بھی مان لیا کریں اور اپنی صحت کا خیال رکھا کریں۔ بچوں کے حوالے سے پروین شاکر صاحبہ کیا خوب لکھتی ہیں :

جگنو کو دن کے وقت پکڑنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے

اور یہ ہمارے لئے کافی فخر و مسرت کی بات ہے کہ ہمارے بچے ہماری صحت کا اتنا خیال رکھتے ہیں اور بیماریوں کے بارے میں خود کو اتنا آگاہ رکھتے ہیں۔ اللہ سب کے والدین کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

آمین۔

ڈاکٹر علی : بابا کی بیماری کے بارے میں پتہ چلنے کے بعد میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ اس لئے میں نے ان کو اپنی کڑی نگرانی میں سنبھالنے کی کوشش کی۔ ان سے پرہیز بھی کروایا اور ان کی غذائی ضروریات کا بھی باقاعدگی سے خیال رکھا۔ ذیابیطس سے پہلے بھی میں ان کا باقاعدگی سے خیال رکھتا تھا اور ان کے ہر طرح کے ٹیسٹ کرایا کرتا تھا۔ ایک دن میں احتیاط کے طور پر انہیں الٹراساؤنڈ کروانے لے گیا۔ وہ ڈاکٹر جو ان کا الٹرا ساؤنڈ کر رہے تھے میرے تھوڑے قریب آئے اور مجھ سے پوچھا کہ کہیں میرے بابا شراب تو نہیں پیتے۔

مجھے ان کے سوال پوچھنے کے پیچھے مطلب کی سمجھ آ گئی اور میں نے نفی میں سر ہلایا۔ وہ دراصل میرے بابا کے کے جگر کا احاطہ چربی چڑھنے کی وجہ سے بڑھ گیا تھا اور ان کا پیٹ بھی باہر کی طرف نکلنا شروع ہو گیا تھا۔ مجھے تب سے شک تھا کہ یہ ذیابیطس ہونے سے پہلے کے اثرات ہیں ہیں اور ایسا ہوا بھی۔ تقریباً ایک سال بعد ان کا ذیابیطس کا ٹیسٹ پازیٹیو آیا۔ وہ ڈاکٹر آج بھی ہماری امی کے بارے میں کہتے ہیں کہ آدھی ڈاکٹر تو ہماری امی بھی ہیں۔

قصہ مختصر یہ کہ اس بیماری کو کو سنجیدگی سے ضرور لیا جائے لیکن اتنا بھی خود پر حاوی نہ کیا جائے کہ بندہ اسی بیماری کے ڈر سے زندگی جینا بھول جائے۔ تھوڑے سے پرہیز اور دیکھ بھال کے ساتھ آپ اس بیماری پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس بیماری سے بچاؤ کے کچھ ہدایت بھی آپ لوگوں کی بصارتوں کی نذر کرنا چاہوں گا۔

سب سے پہلے تو شکر یعنی چینی کا استعمال کم سے کم کیا کریں اور فاسٹ فوڈز سے گریز کیا کریں۔
اپنے آپ کو تروتازہ رکھنے کے لیے ورزش بہت ضروری ہے، لہذا ورزش کیا کریں۔

مشروبات میں سے پانی کا استعمال دیگر مشروبات کے مقابلے میں زیادہ کیا کریں۔ خاص طور پر کاربونیٹڈ مشروبات سے گریز کیا کریں۔

موٹاپا کئی بیماریوں کی جڑ ہے لہذا موٹاپا کم کریں اور، خود کو تندرست رکھیں۔
سگریٹ نوشی انسان کے لیے مضر صحت ہے لہٰذا سگریٹ نوشی سے گریز کریں۔
اپنی خوراک میں کاربو ہائیڈریٹس کی مقدار کم سے کم رکھنے کی کوشش کریں۔
زیادہ دیر ایک جگہ پر بیٹھے رہنا انسان کے لئے مفید نہیں، اسی لیے چلتے پھرتے رہا کریں۔
اپنی خوراک میں فائبر کا استعمال زیادہ رکھیں۔
وٹامن ڈی آپ کے جسم کے لئے بہت ضروری ہے لہذا وٹامن ڈی کا بھی خاص خیال رکھیں۔

ذیابیطس کافی بیماریوں کی جڑ ہے لہذٰا اسے قابو میں رکھنا انسان کی صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔ لہذا اپنی صحت کا خاص خیال رکھا کریں۔ کیونکہ جان ہے تو جہان ہے۔ قربان علی سالک صاحب نے اس بارے کیا خوب فرمایا ہے :

تنگ دستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے۔

ڈاکٹر لبنیٰ مرزا: ڈاکٹر علی کا اس معلوماتی مضمون لکھنے کے لیے بے حد شکر یہ۔ یہاں کچھ باتیں شامل کرنا چاہوں گی۔ آپ جہاں بھی رہتے ہوں، اپنے مقامی فیملی ڈاکٹر یا ذیابیطس کے ماہر ڈاکٹر سے باقاعدگی سے علاج ضروری ہے۔ ویسے تو ہر مریض کے لیے اہم ہے کہ وہ اپنی بیماری کو سمجھتا ہو لیکن ذیابیطس میں یہ بات اور بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ کوئی بھی دو ذیابیطس کے مریض ایک جیسے نہیں ہوتے اور ایک ہی مریض کے لیے ذیابیطس کا علاج بھی صورت حال کے لحاظ سے بدلتا جاتا ہے۔ تمام ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اپنی دواؤں کو سمجھنا اور ان کو پابندی سے لینا اور اپنی شوگر کے لیول پر نظر رکھنا اہم ہے۔ شوگر کو نارمل لیول میں رکھ کر ذیابیطس سے ہونے والی پیچیدگیوں سے خود کو بچایا جا سکتا ہے۔

ہر ذیابیطس کے مریض کو سال میں ایک مرتبہ آنکھوں کا چیک اپ کروانا ضروری ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کو تمام ویکسینیں پابندی سے لگوانی چاہئیں۔ ذیابیطس کے مریضوں کو اپنے پیروں پر نظر رکھنی چاہیے کیونکہ نیوروپیتھی کی وجہ سے ان کے پیروں میں بے حسی پیدا ہو سکتی ہے جس سے اگر چوٹ لگ جائے تو ناسور بن جاتے ہیں۔ ذیابیطس کے مریضوں کو وزن، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان مریضوں میں دل کی بیماریوں کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کو کینسر کا چیک اپ کروانا ضروری ہے۔ ذیابیطس کی مناسب دیکھ بھال ایک ٹیم ورک کے ذریعے ہی ممکن ہے جس کا سب سے اہم ممبر مریض خود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments