ہم تین نمبرئیے، ہمارا کرونا بھی تین نمبریا


یقین کیجیے یہ میرا بیانیہ ہرگز نہیں۔ اس لیے عنایت ہوگی اگر لعن طعن کی سان پر چڑھائی نہ جاؤں۔ سچی یہ تو چند دن پہلے کی مکالمہ بازی ہے ان پانچ نوجوان ڈاکٹر بچیوں سے جو لاہور کے نامی گرامی اسپتالوں میں کام کرتی ہیں۔ لڑکیاں سنجیدہ بھی تھیں اور شوخ و شنگ و زندہ دل بھی۔

پیاری سی لڑکی کا سارا چہرہ تو ماسک اور سکارف میں چھپا ہوا تھا۔ میرے سوال پر پردے میں چھپے ہونٹوں کے ساتھ سرمگیں آنکھیں بھی بولی تھیں۔ کرونا مریض آتے ہیں مگر ان کی اکثریت صحت یاب ہوتی ہے۔ مرنے والوں کا نمبر بہت کم ہے۔ سوال ہے کہ کیا پہلے اسپتالوں میں اموات نہیں ہوتی تھیں۔ اب پروپیگنڈا، شور شرابا اور غل غپاڑہ زیادہ مچا رکھا ہے۔ اس میڈیا نے قوم کو ریٹنگ کے چکروں میں نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔

دوسری نے ذرا ہنستے ہوئے کہا۔ ہمارا کرونا کون سا خالص ہے۔ جیسے ہم تین، چار نمبرئیے لوگ ہیں۔ ویسے ہی ہمیں ملنے والا یہ کرونا ہے۔ اب یہ کسی یار بیلی ملک کی سوغات ہے یا کسی خار رکھنے والے ملک کا تحفہ۔ خود سوچیے یہ خالص کیسے ہو سکتا ہے؟ نوجوان ڈاکٹر کی بات تو بڑے پتے کی تھی ٹھک سے دل کو لگی تھی۔ بے شک چین ہمارا دوست، مربی، محسن اور خیرخواہ ہے۔ ہمیں اپنا بغل بچہ سمجھتا ہے پر ہے تو پورا بنیا۔ نمبرون مال تو اس کا سیدھا سیدھا نمبرون ملکوں کو جاتا ہے۔ یعنی امریکہ اور یورپ وغیرہ۔ دو اور تین نمبر اس سے کمتر درجے کے لوگوں میں۔ ہمارے حصے میں تو کنڈم مال آتا ہے۔ مثال تو سامنے ہے امریکہ اور یورپی ملکوں کی۔

لڑکیاں ہنس رہی تھیں۔ مذاق اور تفنن طبع کی بات رکھئیے ایک طرف۔ حقیقت یہی ہے۔ مجھے یاد آیا اپنا ایک ذاتی مشاہدہ۔ سری لنکا کے خوبصورت شہر نویرا علیہ کی سیر کے دوران چائے کی ایک فیکٹری میں جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ جہاں سنہری مائل رنگت والے تروتازہ پتوں کو توڑنے سے وزن کرنے، مشینوں میں رولنگ، عمل تکسید سے گزارنے، خشک کرنے اور پھر ان کی گریڈنگ کے مرحلوں کو دیکھا تھا۔ نمبرون، نمبر دو اور نمبر تین۔ نمبر ون صف اول کے ملکوں کو نمبر دو ذرا تھوڑا سا کمتر درجے والوں کو۔

” میرا پاکستان بھی تو آپ کا گاہک ملک ہے۔ اسے کون سی چائے بھیجتے ہیں۔“ نوجوان افسر میرے سوال پر مسکرایا تھا۔ مگر بولا کچھ نہیں۔ سچی بات ہے ہمارے ہاں تو ایسی مثالوں کے ڈھیر نہیں پہاڑ کھڑے ہیں۔ ارباب اختیار کی کرتوتیں اور حرکتیں تو روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ ایک چھوٹا سا واقعہ اور سن لیں۔

جاپان کی الیکٹریکل مشینری کی ایک کمپنی سے پاکستانی وفد کے ایک صاحب ضمیر سربراہ نے پوچھا۔ ”ہندوستان بھی آپ کی امپورٹ ٹریڈ کا اہم ممبر ہے جیسے پاکستان ہے۔ آپ دونوں ممالک کے نمائندوں میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟“

اندرخانے کمیشن کے دونوں طلب گار رہتے ہیں۔ فرق اتنا ہے ہندوستانی پہلے کوالٹی کی بات کرتے ہیں اور آخر میں اپنے کمیشن کی۔ جبکہ پاکستانیوں کی بسم اللہ ہی اپنے کمیشن سے ہوتی ہے۔ کوالٹی جائے بھاڑ میں۔

اب ذرا ذاتی باتیں سن لیں۔

یہ غالباً فروری کے دوسرے یا تیسرے ہفتے کی بات ہے۔ بہت دنوں سے کشور ناہید سے بات نہیں ہوئی تھی۔ حال احوال پوچھا۔ بولیں ”ارے بھئی کرونا بھگت کر فارغ ہوئی ہوں۔“ ”ہائیں کرونا۔“ بے اختیار ہی منہ سے نکلا۔ اس وقت تک یہ آگ ابھی پرائے گھر میں ہی بھانبھڑ مچا رہی تھی۔

”ہاں ہاں بھئی یہ فلو کیا ہے؟ اسی کرونا کا کزن تو ہے۔ کشور نے کہا۔ ایسا شدید حملہ تھا کہ لگتا تھا کھانس کھانس کر پسلیاں ہی ٹوٹ جائیں گی۔ ہاں یہ نئی وبا کرونا ذرا فلو سے بھی ڈاڈھی لگتی ہے۔

کچھ اسی قسم کا سلسلہ بشری اعجاز اور ہماری کزن کے ساتھ بھی ہوا۔ دونوں نے مسلسل دو ماہ اس عذاب کو بھگتا۔

”ارے بھئی کیا ہوتا ہے ہمارے ہاں بہار اور خزاں کی آمد پر میری بہن بولی تھی۔ موسم جب بدلتے ہیں بچے بڑے بد پرہیزیاں کرتے ہیں۔ ٹھنڈے برفوں والے پانی اور اے سی۔ نتیجتاً کم و بیش ہر بندہ ہی ڈاکٹر کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ پرائیویٹ ڈاکٹروں کے کلینک بیماروں سے ابل رہے ہوتے ہیں۔ سکولوں کے بچے تو زیادہ ہی طوفان مچاتے ہیں۔

چلو بھئی چھوٹے موٹے اردو میڈیم سکولوں کو چھوڑو کہ ہائی فائی لوگ کہہ سکتے ہیں جیسا منہ ویسی چپیڑ (تھپڑ) جیسی کلاس کے بچے اسی کلاس کے چھابڑی اور ٹھیلے والے۔ پر یہاں تو بیکن اور لاہور گرامر جیسے ایلیٹ سکولوں کے سامنے بھی لڈو پیٹھیاں، گول گپے، گولا گنڈا، لچھے اور قلفی والوں کے گرد بچوں کے لاؤ لشکر دھاوا بول رہے ہوتے ہیں۔ رنگا رنگ شربتوں سے سجے کانے میں پروئے برف کے گولے بڑے گھر کے بچے کس ذوق و شوق سے چوس رہے ہوتے ہیں۔ ڈسٹلڈ پانی لانے اور پینے والوں کے گلوں نے خراب تو ہونا ہی ہونا ہے۔ پھر بخار، چھاتی کا جکڑاؤ وغیرہ۔

تو فروری کے آخری دنوں میں یہ ہمارے ہاں بھی آ دھمکی۔ اب ہمیں اس منحوس مارے کرونا کا کیا پتہ تھا۔ ہمارے تو حکمران بھی اول درجے چول ہیں کہ کچھ بندوبست ہی کرلیتے۔ ایسے ڈھیٹ کہ نہ اپنے ضمیر کے سامنے شرمندہ اور نہ خلق خدا کے سامنے۔

اب خیر سے ایک اور افتاد کا ذکر بھی سن لیں۔ نو مئی کو کام پر گئی تو کیا دیکھتی ہوں سامنے والی لین میں دو عدد بھاری بھرکم گاڑیوں کے ساتھ دس بارہ لوگوں کا ایک مجمع ایک گھر کو گھیرے میں لیے کھڑا ہے۔ سیفٹی کٹ میں ملبوس خلائی مخلوق جیسے دو بندے تین پولیس والوں کے ساتھ کچھ دہشت بھری صورت کے غماز تھے۔ پتہ چلا کہ گھر کا بڑا لڑکا کسی پرائیویٹ کمپنی کے ایم ڈی کا پی اے تھا۔ مالک کو کورونا ہوگیا تو عملے کی شامت آ گئی۔ لڑکے کو لے گئے۔ چار دن ذلیل و خوار کیا۔ سرکاری ٹیسٹ پازیٹو پرائیویٹ ٹیسٹ نیگٹو۔

بارہ بجے گھر واپس آئی تو اپنے دروازے پر صبح والے واقعے سے کہیں زیادہ خوفناک اور ہوشربا سا منظر تھا۔ یا اللہ خیر۔ ادھیڑ عمر کا ایک سپاہی اپنی انگلی بیل پر رکھے اسے بجائے چلا جا رہا تھا۔

یک دم جیسے میرا میٹر گھوم گیا۔ دھاڑی۔ ”ہاتھ اٹھاؤ۔ بند کرو اسے بجانا۔ جاہل گنوار ہو کسی کے گھر دستک دینے کی تربیت نہیں سیکھی۔“

ایک معقول سے بندے نے آگے بڑھ کر کہا۔ ”ماں جی غصہ نہ کریں۔ ہم کرونا ٹیسٹ کے لیے آئے ہیں۔ گھر کے کسی ایک بندے کو چیک کرنا ہے“ ”نہ کیوں چیک کرنا ہے۔ رپوٹ ہوئی یہاں کی کوئی۔“

دوسرے وردی والے نے فوراً ایک لیٹر نکال کر میری آنکھوں کے سامنے لہرایا۔ ”ارے پیچھے کرو اسے۔ جھوٹے عکس ڈالتے ہو۔“ اب وہ مجھے صفائیاں دینے اور اپنی پوزیشن واضح کرنے میں لگ گئے۔ جی چاہ رہا تھا لتر لگاؤں۔

”عقل کے اوندھے ہو تم لوگ۔ علاقے کو تو دیکھا کرو۔ ان کی صبح تو عام حالات میں گیارہ بارہ بجے سے پہلے نہیں ہوتی۔ آج کل تو خیر رمضان ہے۔ اوپر سے یہ لاک ڈاؤن۔ گھوڑے گدھے بیچ کر سو رہے ہیں۔ پر یہ تو بتاؤ یہاں تمہیں آنے کا کس نے مشورہ دیا؟ ان لوگوں کو تو ذرا سی چھینک آ جائے تو بغل میں مہنگے ترین حمید لطیف کی طرف بھاگتے ہیں۔ شیخ زید نہیں جائیں گے۔ جاؤ کچی بستیوں میں جاؤ، ٹھوکر نیاز بیگ کے نواحی گھروں میں جاؤ۔ وحدت روڈ کے کوارٹروں میں جاؤ۔ انہیں تمہارے فری ٹیسٹوں کی زیادہ ضرورت ہے۔ یہاں کس لیے خجل ہورہے ہیں۔ ان کی فکر چھوڑو۔ یہ اپنی فکر کے علاوہ اور کیا کرتے ہیں۔
خدا خدا کرکے انہیں رخصت کیا۔ اندر آئی تو لڑکی نے بتایا۔ گھنٹہ ہوگیا ہے بیل بجا بجا کر پاگل کر دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments