اللہ سائیں کے سچے دوست


ایم اے انگلش کی کلاس کا پہلا دن، سامنے دھری بڑی سی ٹیبل پر ٹانگ پر ٹانگ دھرے بیٹھی ڈاکٹر شیریں ڈاکٹر فاؤسٹس ایسے پڑھا رہی تھیں جیسے سامنے بیٹھے ہم پینڈو طالبعلم اسے پہلے سے حفظ کر کے بیٹھے ہوں، نیا ماحول، نئے لوگ، اور نئے لوگوں میں بھی پچپن ساٹھ کی کلاس میں پینتالیس لڑکیاں۔ اور سچ پوچھئے تو اتنی ساری لڑکیوں کو نقاب کے بغیر بھی ہم نے پہلی بار دیکھا تھا۔

خدا خدا کر کے برٹش لہجے میں انگریزی بولتی میڈم شیریں رخصت ہوئیں تو ہم بھی باہر نکلے۔

پندرہ لڑکوں میں کسی سے جان پہچان نہیں تھی، سو نظر کرم ساتھ ساتھ چلتے سمارٹ سے لڑکے پر پڑی جو ہلکا ہلکا گنگنا رہا تھا۔ ہیلو! کیسے ہیں آپ؟ کون سا روم ملا؟

”ابھی تو الاٹمنٹ نہیں ہوئی“
چلئے میرے کمرے میں آ جائیے! اکٹھے میس کرتے ہیں۔

اس چلبلے لڑکے سے یہ ہمارا پہلا تعارف تھا۔ پھر دوسرا دن پھر تیسرا اور بس ان تین دنوں میں جوہر کھلے کہ لڑکا بڑی توپ چیز ہے، ذہین ہی نہیں پر اعتماد بھی ہے۔ گفتگو کا فن بھی اور لہجہ جیسے شیرے میں لتھڑا ہوا۔ سو وہ کلاس میں ہمارے پہلے دوست بنے۔ لیکن یہ کیا چوتھے دن موصوف کلاس سے ہی غائب۔ کلاس میں واحد دوست اور وہ بھی بنا بتائے غائب ہو گئے۔

کوئی ایک ہفتے بعد صاحب دوبارہ نمودار ہوئے تو معلوم ہوا کہ پنجاب یونیورسٹی میں بھی اپلائی کیا تھا، سو وہاں ایڈمشن مل گیا اور موصوف اب وہاں کے ہو کر رہ گئے۔ موبائل فون ابھی تازہ تازہ وارد ہوا تھا، تین ہزار میں مہینہ گزارنے والے بھلا موبائل فون کیسے افورڈ کرتے۔ طے پایا کہ ہم ایک دوسرے کو خط لکھا کریں گے۔ کوئی ہفتہ گزرا تو عمر ہال کے کمرہ نمبر 153 میں پہلی چٹھی موصول ہوئی، انگریزی میں موصول ہونے والا پہلا خط، وہی شیریں بیانی، وہی اپنائیت اور خلوص میں ڈوبا انداز بیاں۔ جیسے تیسے انگریزی میں جواب لکھا اور پھر نامہ بر سے پوچھنے کی ضرورت نہ رہی، ان خطوط سے مسلسل شناسائی ہوتی رہی جن کے جواب آتے ہیں۔

ملتان وہ جب بھی آتے تو، شرف میزبانی بخشتے اور ساتھ تاکید کرتے کہ اب کی بار ہم نے بھی ضرور ان کے پاس آنا ہے۔

گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو کچھ ان سے ملنے کی چاہ کچھ لاہور دیکھنے کا من اور کچھ پنجاب یونیورسٹی دیکھنے کا اشتیاق کہ نام بہت سنا تھا۔ لینڈ لائن پہ پیغام چھوڑا اور ہوسٹل نمبر 19 کے کمرہ نمبر 19 میں جا وارد ہوئے۔ تکلفات کی بھرمار اور مہمان نوازی ایسی کہ مہمان شرمندہ ہو کر پھر کبھی نہ آنے کا عہد کر بیٹھے۔ دو سال پلک جھپکتے گزرے، ڈگریاں ملیں تو ہم اپنے گھر اور وہ سی ایس ایس کی تیاری میں لگ گئے۔ گھر کے لینڈ لائن نمبر پہ مسلسل کالز کہ لاہور آ جائیے لاہور آ جائیے۔

ہم بھلا کیسے جاتے کہ دوسال تک ابا حضور اپنا پیٹ کاٹ کر ہمیں یونیورسٹی ایجوکیشن کی عیاشی کرواتے رہے۔ اب اور انہیں کچھ کہنے کی تاب نہیں تھی۔ جینئس آدمی تھے بات کی تہہ تک پہنچ گئے اور حکم صادر کیا کہ کھانا پینا رہائش سب بندوبست ہو چکا کل مون مارکیٹ میں موجود شیزان بیکرز پر ہمارا انتظار کریں گے۔ انکار کی گنجائش نہیں تھی سو زاد راہ لیا اور لاہور کے دامن میں پناہ لینے پہنچ گئے۔ ہمارا تو ہاتھ پکڑ کر جو ہو سکتا تھا کیا لیکن اپنے ہر تعلق دار دوست کے لئے ایسے کہ ”سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے“ ہر مدد کے طلبگار کے لئے ہر وقت حاضر۔

صلاحیتوں کی بھرمار جہاں درخواست گزاری کامران ٹھہرے اور آخر کار تیاری کو ایک طرف رکھا اور نیوی میں افسر بھرتی ہو گئے اور اتنے مطمئن کہ سی ایس ایس کے پیپر نیم دلی سے دیے، تحریری امتحان پاس ہوا تو انٹرویو نہ دینے کا عہد کر بیٹھے۔ آدھی رات کو نیاز بلوچ اور میں نے بمشکل تیار کیا تو ہمارا دل رکھنے کو کسی دوست سے ٹائی ادھار لے کر انٹرویو دے آئے۔ لیں جی رزلٹ اناؤنس ہوا تو یار خوش خصال پورے پاکستان میں چھٹے نمبر پر آئے تھے۔

یوں مستنصر حسین تارڑ سے متاثر نئی دنیائیں تسخیر کرنے کا شوق میرے دوست قمر عباس کھوکھر کو فارن سروس میں لے گیا اور وہ ابن بطوطہ کے تعاقب میں نگری نگری گھومنے لگے۔ روس میں تعیناتی ہوئی تو لگا کہ نئی دنیاؤں کا متلاشی اب روشنیوں کی چکا چوند میں ہم ایسے فقیروں کو کہاں یاد رکھے گا۔ لیکن نہیں جوہر آباد میں بطور اسسٹنٹ کمشنر پہلی تعیناتی ہوئی تو سرپرائز دینے آن پہنچے۔ وہی مٹھاس، وہی دوست نوازی، وہی اپنائیت اور ہر ہر تعلق کے لئے وہی مر مٹنے کا جذبہ۔

پھر تو امریکہ رہے، ایران یا اب ویتنام وہی محبتیں ہیں جو بہا الدین زکریا یونیورسٹی کے عمر ہال میں آئے ان خطوط میں جھلکتی تھیں جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔ شکریہ میرے دوست کہ میری کامیابیوں میں اللہ سائیں کی خاص رحمت اور والدین کی دعاؤں کے ساتھ آپ کے خلوص کا بھی حصہ ہے۔ یا رب العالمین ایسے لوگ کس مٹی سے بنے ہوتے ہیں جن کا نہ مرتبہ کچھ بگاڑ سکتا ہے نہ خیرہ کن روشنیاں اور ہی نہ مال و متاع۔

عجز و انکسار کے یہ پیکر، اپنے دل میں ہر ایک کے لئے خیر سنبھالے، قدم بہ قدم ہر انسان کی مدد کے لئے ہمہ وقت تیار اس بات پہ ایمان رکھنے والے کہ دنیا کا سارا مال و متاع اور یہ خیرہ کن روشنیاں عارضی ہیں اور آخرکار ہم سب نے مٹی میں مل کر اپنے رب کے حضور حاضر ہونا ہے اور ایسے لوگوں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرنے والا۔ میں۔ یہ سوچتا ہوں کہ یقیناً ایسے لوگ ہی اللہ سائیں کے سچے دوست ہیں جو آخرت کی میزان میں رکھے پیپرز میں ٹاپ کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments