ہماری دنیا


چلو کچھ چیزوں کو تو ہم سب انجوائے کر سکتے ہیں جو ہمارے پاس ہیں جن کے اوپر کسی کا قبضہ، نہ وہ ہمارے ان چیزوں کا پیراڈائم اپنی طرف لے جا سکتے اور نہ اس میں ترمیم کر سکتے ہیں : چاہے وہ ڈرامے بنا دے، فلمیں بنا لے اپنے لوگوں سے کتابیں لکھوا دے، جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے کالے کو گورا کرے اور سفید کو کالا، پھر بھی ہمارے سوچ ان کے لئے اور دنیا کے ہر انسان کے لئے انتہائی گمبھیر حالات میں بھی مثبت اور خوش آئند ہوتے ہیں۔

کائنات کے بنانے والے خداوندی یکتا نے تمام انسانوں کو برابر پیدا کیا ہیں کالے کو گورے پر سفید کو کالے، (امریکی کو ایشیائی، یورپین کو آسٹریلین، چائنیز کو جاپانی، افغان (پشتون) کو تاجک، ازبک، اور ہزارہ، پنجابی کو سندھی، بلوچ، پشتون (افغان) ، سرائیکی یا مہاجر کو انصار اور انصار کو مہاجر پر کوئی اور کسی طرح کی عظمت اور فوقیت حاصل نہیں ہیں ) ۔ سوائے اس وہ مسیحا ہو انسانوں کے لئے اور علم والے ہو۔ سب کی زبانیں سانجھی، کلچر، علاقہ اور آب و ہوا زندہ باد!

انگلش بولنا عربی، اردو، سندھی، بلوچی، ہندی اور پشتو یا جو زبانیں زیادہ بولی جاتی ہیں ان کا کسی اور زبان پر کسی قسم کی فوقیت حاصل نہیں مگر ایک چیز زبان کے بولنے والے کو اپنی زبان سے پیار کرنے اور اسی میں اپنی زبان کے لیے اعلی سے اعلی خدمات سر انجام دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ہوں اور دنیا کے تمام علوم کو اپنی زبان میں اکٹھا یا قلم بند کرنے کے بعد کچھ زبانیں واقعی ہی عظیم بنے جس میں لاطینی، عربی اور ابھی انگلش سرفہرست ہیں۔

مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ کوئی بھی زبان کسی اور زبان کے اوپر پر مسلط کی جائے یا سوائے اس کے باقی زبان بولنے والے اس کو ازخود اپنا لے۔ جیسا کہ عربی کو کچھ ممالک کے باسیوں نے اپنی مادری زبان پر ترجیح دیں۔

انسانی حرمت یا عظمت جو تمام چیزوں سے اعلی اور قیمتی ہیں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسان میں جبلت اور شعور دونوں ایک ساتھ پائے جاتے ہیں جب انسان جبلت میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ حیوانیت، غیر انسانی، غیر اخلاقی، دوسرے اقوام کے بنیادی حقوق کا استحصال کرنے، اور ناجائز کو اپنے لیے جائز قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا، درندگی، نسل کشی جائز جنگ ناجائز جنگ پتہ نہیں کیا کیا پروپیگنڈے کرکے یہ حیوان نما انسان انسانیت کے اوپر کالے دھبے ہونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔

جب شعور، عقل اور دانش کی بات آتی ہے تو انسان دنیا کی تمام مخلوقات میں اعلی درجہ رکھنے کے ساتھ ترقی یافتہ، ارتقائی، علوم کا شیدائی معافی و درگزر اور اخلاق کا اعلی مثال ہے شعور، عقل اور دانش نے انسان کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ دریافت یا ایجادات کرے : انسان اشاروں سے زبان پر آیا زبان سیکھ لی، چمڑی سے پہناوے پہ گیا، پتھروں سے آگ جلانا سیکھا، پانی میں چہرہ، بارش ”برفباری اور سورج کی تپش سے اپنے آپ کو بچانا سیکھا، جنگل، صحرا، میدانوں سے غاروں کی طرف آیا، غاروں سے کچے مکانوں اور کچے مکانوں سے بنگلوں اور برج خلیفہ تک آ پہنچا ہے باقی مخلوقات کو اپنے تابع بنایا گدھے، گھوڑے، اونٹ سے پئے، پہیہ سے بیل گاڑی، سائیکل، موٹر سائیکل، گاڑی، ٹرین اور ہوائی جہازوں کی تو اقسام! یہ تو ابھی انسانی شعور کا ٹریلر ہے ابھی پوری فلم تو آنی ہے۔

انسان اکیلا اکیلے سے خاندان، یہ خاندان بڑا ہوا تو ایک گاؤں، گاؤں سے ٹاؤن، ایک شہر سے صوبہ یا ریاست، ریاست سے ملک اور ملکوں سے براعظم بنے۔

آدم اور حوا کی زندہ بچوں کی دنیا میں آبادی سات ارب 74 کروڑ نویں لاکھ ستر ہزار (تقریباً ) ہوچکی ہیں وہ پرانے زمانے کا گاؤں اب ایک گلوبل ولیج بن چکا ہے ذرائع نظام سسٹمیٹک یا سائنٹیفک بن گیا ہے جس کی وجہ سے انسان دماغی: سکون اور خوشی سے جسمانی سکون اور خوشی پر پوچھنے کی وجہ سے پریشان اور جانے انجانے میں ایک مصنوعی رئیس کا حصہ بن گیا ہے جس تیزی اور خوش اسلوبی سے انسان نے ترقی کی ہے کہاں سے کہاں پہنچے باوجود اس کے انسان اسی تیزی سے زوال کی طرف جا رہا ہے۔ خاندان، رشتے ناتے، اصول، بھائی چارہ سب کے سب مادیت اور اکیلے پن کی، کتنے مشکلوں، جدوجہد اور کوششوں سے ہم یہاں پہنچے، اتنے زیادہ ترقی کی وجہ سے پھر بھی اکیلے ٹائم پاس بنتے جا رہے۔

کتنی صدیوں میں ہم نے اصول اور قانون وضع کیے، سچ جاننا سیکھا، جھوٹ سمجھا، اچھا اور برا دیکھا، جلوت اور خلوت میں اپنے ضمیروں کو جانچا اور پرکھا اور اس کے ساتھ علاقائی، مخصوص اور بین الاقوامی قوانین بھی بنا لئے۔ سزا اور جزا کے لئے نظام وضع کیے۔

باضمیر، بے ضمیر، بے ایمان، ایماندار سب کے لیے پیرامیٹرز بنا دیے گئے۔ بڑھتی آبادی اور بڑی دنیا کے بڑے بڑے مسائل اچھائیوں کہ ساتھ ہوتے ہیں ان مسائل میں اکثر انسان کے خود پیدا کردہ ہے جس میں سے سرفہرست غربت، سرمایہ داری نظام: جس میں سود، ترقی اور دفاع ریاست کے نام پر پتہ نہیں کیا سے کیا کھیل ہوئے اور آنے والے ہیں۔

انسانی ضمیر (غیرت انسانی) انسان کو کئی چیزوں پر مجبور کر دیتی ہے خاص کر جب ایک انسان دوسرے انسان پر احسان کرتا ہے یا ان کی مدد تو بدلے میں وہی انسان مدد کرنے والے کا احسان کبھی نہیں بھولتا، اور دل ہی دل میں یہ تہہ یا ارادہ کرتا ہے کہ کبھی بھی جب موقع ملے تو اس انسان کی مدد یا اس انسان کی وجہ سے کئی انسانوں کی مدد کرنا اخلاقی ذمہ داری یا نصب العین بنا دیتا ہے۔

یہی وہ کچھ چیز یں جن کی وجہ سے انسان دوسرے انسان کے مذہب، عقیدہ، زبان، نسل کا خیال رکھتا ہے یہی وہ کچھ روایات ہیں جو انسان کو انسانیت پر فخر کرنے پر مجبور کردیتا ہے اور دوسرے انسان کی عزت اور حر مت کو اپنی عزت اور حرمت سمجھنے لگتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments