ایک دوست کی یادیں: بکے آ، توں ای ٹر گئیوں


نئے نئے اپنے اپنے قصبات سے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے تھے۔ ایف ایس سی پری میڈیکل کے بیچ تھے، میرے بیچ میں چھوٹے قد کا، چہرے کے ایک طرف پھوڑے کا نشان، چہرے پر مسلسل شرارتی مسکراہٹ، ایک ڈے سکالر تھا۔ نام تھا اس کا برکت عباس جعفری۔ گانٹھ کا پورا تھا، حد درجہ شرارتی۔ میں اقبال ہوسٹل میں رہتا تھا اور وہ لکشمی چوک میں رتن سینما کے پیچھے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ، جو غالباً کہیں ملازم تھے۔ میں علی پور ضلع مظفر گڑھ سے تھا اور وہ ملتان کے ایک نواحی شہر شجاع آباد سے۔ سرائیکی زبان جسے ان کے ہاں تب ملتانی کہتے تھے اور ہمارے قصبے میں ریاستی ہمارا مشترکہ معاملہ تھی۔ اس لیے ہم دوست بن گئے تھے۔ میں اسے پیار سے بکے آ کہتا اور وہ مجھے مرزے آ۔

کبھی وہ میرے پاس ہوسٹل میں کمرے میں آ جاتا تو کبھی میں اس سے ملنے اس کے گھر چلا جاتا۔ ایسا کم ہی ہوا کرتا تھا لیکن دن میں کالج میں ملاقات ضرور رہتی۔ کبھی کسی خالی پیریڈ میں اکٹھے کبھی چائے تو کبھی ملک شیک پی لیا کرتے تھے۔ جس کے پاس پیسے ہوتے وہ ادائیگی کر دیتا۔ ایک روز جب ہم کالج کی مین عمارت سے سڑک پار سائنس بلاک میں کیمسٹری کی کلاس ختم کرنے کے بعد باٹنی کے پریکٹیکل میں جانے کو تھے تو برکت کہنے لگا چلو میرے ساتھ۔

تب اور شاید آج بھی جی سی میں مخلوط تعلیم تیرہویں یا پریویس سے شروع ہوتی تھی۔ ہم گیارہویں کے لڑکے تھے جن کی بمشکل مسیں پھوٹی تھیں۔ میں پوچھتا رہا کہ جانا کہاں ہے، وہ اپنی شرارتی ہنستا رہا اور کہتا رہا کہ چلو بتاتا ہوں۔ پھر عمارت کے آخر میں، جہاں ایم ایس سی جسے تب شاید ایم اے نفسیات کہا کرتے تھے کی کلاسیں ہوا کرتی تھیں، وہاں اس طرف کے شیشوں کے ساتھ جا کر، جس طرف لڑکیاں کلاس میں بیٹھی تھیں، دونوں ہاتھ اپنے چہرے کے دونوں اطراف میں رکھ کر چہرہ شیشے سے لگا دیا۔

ظاہر ہے وہ لڑکیوں کو دیکھ رہا تھا۔ لڑکیاں تو ویسے بھی دکھائی دے رہی تھی اندر بیٹھی ہوئی۔ کھڑکی بھی کھلی ہوئی تھی۔ ایک لڑکی نے پچکار کے کہا، جاؤ اچھے بچے ایسی حرکتیں نہیں کیا کرتے۔ اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے چہرہ شیشے سے ہٹایا اور بولا چلو چلتے ہیں۔ مجھے اچھا نہیں لگا تھا۔ میں نے کہا، ”بے عزتی کروا لی نا؟“ اس نے ایک زوردار قہقہہ لگا کے کہا تھا، ”تو کیا ہوا، توجہ بھی تو حاصل کر لی نا۔“

پھر میں نشتر میڈیکل کالج ملتان پڑھنے چلا گیا اور اسے نان ٹیگ سسٹم کے تحت کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ جب کبھی لاہور جانا ہوتا تو کبھی کبھار میکلوڈ روڈ کے پہلو میں کے ای کے ہوسٹل میں اس کے کمرے میں بھی قیام رہتا۔ وہ ہوسٹل کی روح رواں تھا۔ فعال، مستعد، شرارتی، معاملات سلجھانے والا اور جب چاہتا تو جس کے معاملات الجھانا چاہتا الجھا بھی دیتا تھا۔ میں نے اسے میڈیکل کی کتابیں پڑھتے کم ہی دیکھا تھا البتہ ڈائجسٹ وہ پڑھا کرتا تھا۔

پھر وقت گزر گیا۔ کون کہاں گیا، کم ہی جانتے تھے۔ 1999 کے اواخر میں میں امریکہ گیا۔ کسی طرح معلوم ہو گیا تھا کہ برکت عباس جعفری، نیو جرسی کے ایک چھوٹے شہر میں میڈیکل پریکٹس کرتا ہے۔ اس کا ٹیلیفون نمبر بھی مل گیا۔ ایک روز میں نے اسے نیویارک سٹی سے فون کیا۔ جونہی میں نے کہا، ”بکے آ، کیا حال ان؟“ تو فوراً بولا، ”مرزے آ تو کتھاں؟“ ۔ پھر بتایا کہ صبح پین سٹیشن جاؤ اور اس نام کے شہر کی ریل گاڑی پکڑ لو۔ سٹیشن پہ اتر کے کال کرنا میں دس منٹ میں تمہیں لینے پہنچ جاؤں گا۔

میں نے ایسا ہی کیا۔ وہ شاید سات منٹ میں پہنچ گیا تھا۔ اس نے داڑھی رکھ لی تھی جس سے اس کے چہرے کا داغ چھپ گیا تھا۔ اتنی بڑی گاڑی میں سٹیرنگ پر بیٹھا، وہ مدبر لگتا تھا۔ اگر کالا پگڑ پہن لیتا تو اپنے مسلک کا اخوند لگتا۔ مجھے گھر لے گیا۔ اس کی ایک بڑی ہوتی بیٹی تھی، پھر ایک جوان ہوتا بیٹا اور ایک پانچ چھ سال کا بیٹا، جس کو سانس کی تکلیف تھی۔ اب برکت عباس سنجیدہ ہو گیا تھا۔ کم ہی ہنستا تھا۔ اس کی بیگم نے خدمت کی۔ رات کو اس نے بیٹے کا کمرہ میرے سپرد کیا جس میں انٹرنیٹ سمیت کمپیوٹر موجود تھا اور یہ کہہ کر اجازت لی کہ صبح سات بجے جگا دوں گا، پھر آٹھ بجے ہم اکٹھے کلینک چلیں گے۔

صبح جب ہم اس کی گاڑی میں بیٹھ کے روانہ ہوئے تو مجھے یہ کہہ کر کہ ”پہلے تیری جھنڈ اترواتے ہیں“ گیارہویں جماعت والے بکے کی طرح ہنسا تھا۔ میں نے ہکا بکا ہو کے کہا، ”کیوں بھئی؟“ تو بولا تمہارے بال بہت بڑھ گئے ہیں، اچھے نہیں لگتے۔ میرے لاکھ روکنے کے باوجود وہ مجھے حجام کی دکان پر لے گیا، پہلے اپنی نگرانی میں میرے بال کٹوائے، ساتھ ہی حجام کو نصیحت کی صاحب نہا کے نکلے ہیں، کوئی بال بعد میں چبھنا نہیں چاہیے۔

کلینک جاتے ہوئے راستے میں میں نے اس سے کہا کہ میرے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو جاتی ہے تو کہنے لگا، آج سب چیک کر لیں گے۔ ہم کلینک پہنچے تو کلینک بہت مجہز اور بہت بڑا تھا۔ میں نے کہا، ”یار تم تو بڑے ڈاکٹر بن گئے ہو“ ۔ تو کہنے لگا، ڈاکٹر تو تم لوگ ہو، میں کہاں کا ڈاکٹر، میں نے تو ایم بی بی ایس بھی پرائیویٹ کی تھی۔ میں حیران ہوا کہ ایم بی بی ایس پرائیویٹ بھلا کیسے ہو سکتی ہے تو مسکرا کے کہنے لگا، ”بھائی جو طالبعلم نہ کلاس میں جائے نہ وارڈوں میں، تو پرائیویٹ ہی ہوئی نا؟“

پھر وہ مریض دیکھنے اپنے دفتر میں چلا گیا۔ میں ایک کمرے میں بیٹھ کے ٹی وی دیکھنے لگا۔ ایک سیاہ فام خاتون آ گئی۔ مجھے ہائی کہا، کسی ڈاکٹر فلاں کے طور پر اپنا تعارف کروایا اور کہا کہ ڈاکٹر جعفری نے مجھے آج خلاف معمول بلایا ہے تاکہ آپ کی ایکو کارڈیوگرافی کروں۔ اس خاتون ڈاکٹر نے مجھے پہلو کے بل لٹا دیا اور میرے پیٹ کے ساتھ لگ کے بیٹھے ہوئے میرا ایکو کرنے لگیں۔ اس کے جسم سے اس طرح حدت محسوس ہو رہی تھی جیسے اسے شدید تپ ہو۔ اسے میرے جوتے بہت پسند آئے تھے، جو میں نے سینٹ پیٹرزبرگ کے ماسکو سٹیشن کی ایک گلی سے، اپنی روسی بیگم کے ہمراہ گزرتے ہوئے خریدے تھے۔ پھر وہ رپورٹ لکھنے کو، مجھ سے مصافحہ کرکے مجھے الوداع کہہ گئی۔

تھوڑی دیر میں ڈاکٹر برکت عباس جعفری کی اسسٹنٹ مجھے بلانے پہنچی۔ برکت نے رپورٹ آگے کرکے کہا، دیکھ لو سب ٹھیک ہے وہمی آ۔ اور ایک بار پھر وہی گیارہویں جماعت والے برکت کی سی ہنسی ہنس کے کہا، چاہو تو میں تمہارا پراسٹیٹ بھی چیک کرلوں۔ میں نے گالی دے کے کہا بکواس مت کرو۔ وہ یہ کہہ کے ہنستا رہا، کہ کیا فرق پڑتا ہے۔ میں اس وقت ڈاکٹر ہوں اور تم مریض۔

ایک رات اور اس کے ساتھ قیام رہا۔ میں نے اسے بتایا کہ مجھے، بمنگھٹن میں ڈاکٹر سعید باجوہ سے اور اولین میں ڈاکٹر منیر سلیمی سے ملنے جانا ہے۔ وہ نشتیرین سلیمی کو تو نہیں جانتا تھا لیکن سعید باجوہ کو راوین کلاس فیلو کے طور پر جانتا تھا۔ برکت نے مجھے مشورہ دیا کہ بجائے پہلے سعید سے ملنے کے تم پہلے اولین جاؤ اور واپسی پہ سعید سے مل لینا۔ اس طرح تمہارا سفر آسان رہے گا۔

اس کے بعد کوئی دس ماہ، جب تک میں امریکہ رہا، اس سے فون پہ بات ہو جاتی تھی۔ پھر میں روس لوٹ آیا اور رابطہ منقطع ہو گیا۔ ہمارا ایک مشترکہ دوست ہے برکت کے ہی شہر کا ڈاکٹر ابرار احمد خان بلوچ، جو پلاسٹک سرجن ہے۔ پہلے انگلستان رہا، پھر پاکستان آ گیا، مایوس ہو کے آرمی ہاسپٹل ابوظہبی میں پلاسٹک سرجن تعینات ہوا۔ وہیں اس سے ملاقات ہوئی اور وہیں برکت کا ذکر ہوا۔ پھر اپس وچ انگلینڈ میں کام کرنے لگا۔ پھر ایک عرصہ دمام میں سرجن رہا۔ 2013 میں جب میں حج کرنے گیا تو ابرار سے فون پہ بات ہوئی۔ نہ وہ آ سکتا تھا۔ مجھے تو جانے کی اجازت ہی نہیں تھی۔

تین روز پہلے میں نے ایک ہم جماعت مصطفٰی کے ارتحال پر مضمون لکھا تو اس کے بھائی نے اخبار سے مضمون سکین کرکے اسے بھیجا۔ ابرار نے مجھے میل کی، میں نے جواب میں پہلا فقرہ لکھا، ”شکر ہے تو زندہ ہے“ وجہ یہ تھی کہ جب ہم آخری بار غالباً 2011 میں ملتان میں اس کی کوٹھی پہ ملے جو اس نے نئی تعمیر کروائی تھی تو اس نے جدا ہوتے ہوئے کہا تھا، ”گلکھڑی پا مرزے، کیا پتہ ملوں نہ ملوں“ ۔

اس نے بتایا کہ وہ اپریل 2019 میں سعودیہ سے کام ختم کرکے لندن لوٹ گیا ہے۔ آج اس نے مجھے وٹس ایپ پر لوکیٹ کرکے لکھا، ”میں نے پا لیا تمہیں“ ۔ میں نے فوراً وڈیو کال کی اور کہا یار تمہارا یہ کہنا کہ کون جانے ملیں نہ ملیں مجھے ڈراتا رہا تھا۔ وہ ہنسا اور اس نے کہا، ”1983 میں جب میں کراچی میں تھا اور انگلینڈ جانے والا تھا تو میرے بچپن کے ایک دوست برکت عباس جعفری کے والد نے جنہیں پراسٹیٹ کینسر آخری سٹیج پر تھا، مجھے کہا تھا، پتر گلکھڑی پا، ملوں نہ ملوں ”۔ ۔ ۔ میں نے کہا تم نے بھی بالکل یہی کہا تھا اور پوچھا برکت کا کیا حال ہے تو اس نے کہا کہ چھ ماہ پہلے اس کا دل کا آپریشن ہوا، وہ ٹھیک ہو کر گھر آ گیا، کوئی پیچیدگی ہو گئی، دوبارہ ہسپتال لے گئے اور وہ جاں بر نہ ہو سکا۔ ۔ ۔ تو بکے آ، توں وی ٹر گئیوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments