صدر ٹرمپ کی بصیرت اور کورونا سے جنگ


صدر ٹرمپ کی تمام معاملات کو گھما دینے اور دوسروں کے سر تھوپ دینے کی ترکیب اس مرتبہ کام نہیں کر پائی۔ جب وہ کہتا ہے کہ ہم نے کورونا پر قابو پا لیا ہے تو یہ بات غلط نکلتی ہے کیونکہ ملک میں کورونا زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔

ڈونالڈ ٹرمپ کے لئے اصل کامیابی سے بڑھ کر صرف کامیاب نظر آنا ضروری ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے ارد گرد کی تمام چیزوں کی ملمع کاری میں مصروف رہتے ہے اور ہر چیز کو صرف اپنی مرضی کی عینک سے ہی دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی بصیرت اور ذہنی میلان و رحجان کا یہ خاصہ ہے کہ وہ مسلسل اپنی بہترین کارکردگی کا دکھاوا اپنی ان دیکھی صلاحیتوں کا پرچار اور اپنی فرضی کامیابیوں کی شیخی بگھارتے رہتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنے شاندار ماضی کو اجاگر کروانے کی سعی پیہم میں مصروف عمل رہتے ہیں۔

انہوں نے اپنی زندگی کے ارد گرد ایک دکھاوا لپیٹ رکھا ہے۔ وہ کبھی ایک کامیاب کاروباری شخصیت نہ تھے اور نہ ہی کوئی ٹیلی ویژن کی مشہور شخصیت۔ وہ وہ نہیں ہیں جس کا وہ ہمیشہ دکھاوا کرتے ہیں اور اس دکھاوے کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے وہ اپنی باقی ماندہ زندگی کے دن بھی لگا نے کو تیار ہیں۔ واضح طور پر یہی وہ معیار یا بصیرت ہے جو ان کے کرسی پر فائز ہونے کے بعد بھی ہم سب پر عیاں ہے۔ اگرچہ وہ زیادہ تر وقت فارغ ہی رہتے ہیں یا گپ شپ اور اپنی نجی مصروفیات میں گزارتے ہیں مگر اس بات کے دعوے دار ہیں کہ وہ قوم کے لئے انتھک محنت کر رہے ہیں۔ بلکہ ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ محنت صرف وہی کر رہے ہیں۔

ان کا وائٹ ہاؤس اگرچہ کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے مگر انہوں نے خود کو اور اپنے ساتھیوں کو جرم کے خلاف جہاد کرنے والے ظاہر کیا ہوا ہے۔ اور وہ سابقہ (اوباما) حکومت کے غلط اقدامات کو ٹھیک کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ وہ اس بات پر مصر ہیں کہ وہ ایک پکے اور پختہ خیالات والے دانشور ہیں اور وہ یہ جملہ بھی کئی بار بلکہ بہت مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔ ان پر ایک کتاب فائر اینڈ فیوری میں دماغی توازن درست نہ ہونے کا الزام لگایا گیا اور کہا گیا کہ ان کا میڈیکل چیک اپ ہونا چاہیے تو صدر صاحب نے خود کو خود ہی سٹیبل جینئس قرار دیا۔ ( مزے کی بات یہ کہ اس جملے پر بھی ایک کتاب لکھی جا چکی ہے )

اس کی شخصیت کا خاکہ بطور صدر ایک ریت کی دیوار کی طرح ہے۔ جسے محض اس لئے کھڑا رہنے کی اجازت دی گئی ہے کہ کافی سارے لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں یا اس پر یقین کرنا چاہتے ہیں یا پھر اسے گرانے سے انکاری ہیں کہ اس کی نا اہلی کو وفاقی عدالت میں ججوں کے سامنے ثابت کرنا بہت ہی مشکل کام ہو گا۔

لیکن افسوس کہ یہ بزعم خود کامیابی بھی اب جاتی نظر آ رہی ہے کیونکہ امریکہ میں اسی ہزار سے زائد کورونا مریضوں کی اموات کی تصدیق ہو چکی ہے اور یہ تعداد روز بروز بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ معیشت گڑھے میں گر چکی ہے اور بے روزگاروں کی تعداد میں بیس فی صد اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کی حکومت کا ردعمل بھی ایک تباہی کی صورت ہی ہے کیونکہ وہ اور اس کی انتظامیہ کرونا کے ٹیسٹنگ نظام کی کمی اور ضروری اقدامات کے فقدان کو الزام تراشی کی نظر ہی کرتی رہی رہے۔

کبھی ماسک پہننے کا اختلاف کبھی کہنا کہ ہم نے کورونا پر قابو پا لیا ہے کبھی چین پر الزام کبھی عالمی اداروں کو دھمکیاں۔ یہ وہ سارے اقدامات ہیں جو ٹرمپ صاحب نے کورونا کے لئے اٹھائے ہیں اور اس پر فتح پانے کی نوید بھی سنا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے داماد کشنر صاحب بھی کچھ ایسا ہی کہ رہے ہیں۔ حالانکہ اس بیماری کی کوئی تصدیق شدہ ادویات تا حال دستیاب نہیں ویکسین تیاری کے مراحل میں ہے اور قوم اس بیماری کے رحم و کرم پر ایسے ہی ہے جیسے کہ یہ مارچ کے مہینہ میں تھی۔
نوٹ: یہی تجزیہ ہم بشمول پاکستان دنیا کے بہت سارے ممالک پر بھی لاگو کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments