رشتے


رشتہ دو لوگوں میں ایک ایسے رابطے کا نام ہے جو قدرتی طور پہ قائم ہوتا ہے۔ کچھ رشتے ہمیں پیدائشی طور پر ملتے ہیں جیسے والدین، بھائی بہن اور کچھ وقت کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں جیسے میاں بیوی، بچے، دوست وغیرہ۔ ان میں سے کچھ رشتے ختم بھی ہوتے رہتے ہیں جیسے شریک حیات یا دوست۔ رشتہ کیسا بھی ہو ربط قدرت ہی پیدا کرتی ہے اور قدرت ہی ختم کر سکتی ہے۔ رشتے کے مضبوطی اور کمزوری ہمارے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ رشتوں کو مضبوط رکھنا اصل میں معاشرے کو مضبوط رکھنا ہوتا ہے۔

رشتے کی مضبوطی حاصل کرنے کے لیے دو چیزوں کو سمجھنا ضروری ہے: فرائض اور حقوق۔ دو انسانوں میں جب رشتہ ہوتا ہے، تو ان کو اپنے فرائض پر پوری طرح عمل پیرا ہونا ہوتا ہے۔ جیسے باپ کا فرض ہے کے بچے کی کفالت کرے۔ کرے گا تو رشتہ مضبوط، نہیں کرے گا تو رشتہ کمزور۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے کے حقوق جاننا بھی ضروری ہے، جیسے بیوی کا حق ہے کہ وہ اپنے شوہر سے اپنے لیے الگ رہائش مانگے۔ حقوق میں سب سے اولین عزت کا حق ہے۔ رشتہ مضبوط ہو ہی نہیں سکتا جب تک ایک دوسرے کو اس کو عزت نا دیں۔ جیسے رشتہ ازدواج کی مضبوطی کے لیے ایک دوسرے کی عزت کرنا اور عزت رکھنا ضروری ہے، اسی طرح کسی بھی رشتے میں عزت کے حق کو تسلیم کرنا چاہیے۔

اکثر والدین کی عزت کی بات ہوتی ہے لیکن اولاد بھی عزت کا حق رکھتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ اولاد اس لیے نافرمان ہوجاتی ہے کہ اسے اس کی جائز عزت نہیں ملتی، خاص طور پہ ترقی پذیر ممالک میں۔ ایک اور اہم مسئلہ ہے، حدود و اختیار کا۔ دو انسان اگر یہ خیال رکھیں کے ان کی حدود کیا ہیں اور ان کا اختیار دوسرے پر کتنا ہے تو رشتہ مضبوط رہتا ہے۔ اس سلسلے میں والدین کو اپنے بچوں پر شادی کے لیے مجبور کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانا ایک غلط العام فعل ہے۔ جب بھی حدود کو پار کرنے کی کوشش ہوئی ہے رشتہ کمزور یا خراب ہی ہوا ہے

جہاں عزت، اداب، شائستگی سب رشتے کو مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہیں وہاں ایک دوسرے کو پسند کرنا یا مخالفت نا کرنا بالکل ضروری نہیں۔ دو انسان آپس میں اختلاف کے باوجود رشتہ مضبوط رکھ سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ایک انسان سے دوسرا بالکل ہی مختلف ہو مگر فرائض اور حقوق پورے ہو رہے ہوں۔ حدود پار نا ہو رہی ہوں۔ تب بھی رشتہ مضبوط رہ سکتا ہے۔ مگر اس میں دونوں کا قائل ہونا ضروری ہے۔ اکثر لوگ عشق اور محبت کو رشتے کی مضبوطی سے جوڑ تے ہیں۔ یہ احساسات بھی قدرت کی دین ہوتے ہیں مگر ان کو رشتے کی مضبوطی سے جوڑنے سے صرف غلط امیدیں پیدا ہوتی ہیں اور رشتہ کمزور ہی ہوتا ہے۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ رشتوں میں جذبات نہیں ہوتے ہیں۔ بالکل ہوتے ہیں اور بائے ڈفالٹ ہوتے ہیں مگر کسی میں جذبات انجکٹ نہیں کر سکتے۔ ہمارا اختیار صرف عمل پہ ہوتا ہے جذبات پہ نہیں۔ مصنوعی جذبات پیدا کرنے سے کوئی رشتہ قائم نہیں رہ سکتا۔

دو ایک جیسے رشتوں میں مساوات رکھنا بھی نہایت اہم ہوتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کے ایک بیٹا زیادہ کماتا ہو تو اسے زیادہ عزت دی جاتی ہے اور دوسرے بیٹے کو جو کم کماتا ہو یا بیروزگار ہو اسے وہ عزت نہیں ملتی۔ رشتے کو قائم رکھنے کے لیے دوسروں کی مثالوں سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔ مختلف انسانوں کے حالات ایک دوسرے سے لا محدود حد تک مختلف ہو سکتے ہیں۔

رشتوں پر حالات کا اثر ہمیشہ رہتا ہے۔ رشتے دور کے اور نزدیک کے نہیں ہوتے۔ رشتے صرف ڈائریکٹ ہوتے ہیں۔ جن کو ہم دور کے رشتے کہتے ہیں وہ در اصل ڈائریکٹ رشتے کا ہی تسلسل ہوتے ہیں۔ یا ڈائریکٹ رشتے کو نبھانے کے لیے، دور کے رشتوں کو اپنانا پڑتا ہے کچھ دیر کے لیے۔ فوکس اپنے ڈائریکٹ رشتوں پہ ہی رہنا چاہیے۔ زیادہ رشتوں کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہیے۔ اکثر لوگ کسی نے کسی وقت پر اپنے کسی نا کسی رشتے سے یا رشتہ دار سے اکتانا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر وہ اپنے رشتے کو فرائض اور حقوق کے ترازو میں تولیں تو شاید اتنی نا امیدی نا ہو۔ انسان اصل میں اکیلا ہی آیا ہے اور اکیلا ہی جائے گا۔ رشتے ہمیں اس لیے دیے گئے تا کہ اس دنیا میں ہم اپنی دنیا آباد کر سکیں۔ رشتوں کو قائم رکھنا ایک طرح کا چیلنج ہے اور جو قائم رکھ پاتا ہے ایک طرح سے کامیاب ہے مگر ذمے داری دونوں فریقین پہ آتی ہے

عثمان سید
Latest posts by عثمان سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments