مبارک ہو، حکومت اور کرونا کے مابین ڈیل طے پا گئی


پاکستانی قوم خصوصاً صوبہ سندھ کے باسیوں کو مبارک ہو۔ مبارک ہو کہ حکومت اور کرونا وائرس کے مابین معاملات طے پا گئے ہیں۔ معاہدے کی رو سے چار دن عوام کے لیے اور تین روز کرونا کے لیے مختص کیے گئے ہیں، کرونا اب پیر سے جمعرات صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک عوام پر حملہ آور نہیں گا خواہ لوگ کندھے سے کندھا ملا کر خریداری کریں یا بازاروں میں رش لگائیں۔ تاہم اگر لوگوں نے اپنی حدود سے بار نکلنے کی کوشش کی اور طے شدہ اوقات کار کی خلاف ورزی کی تو کرونا ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹے گا یہی وجہ ہے کہ جمعہ سے اتوار تک حکومت نے سخت لاک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کرونا سے ڈیل ہی کرنا تھی تو اس ڈیل کو کرنے میں اتنا وقت کیوں لگایا اور یہ ڈیل صرف کاروباری سرگرمیوں تک ہی کیوں محدود رکھی۔

ہمارے یہاں بھی الٹی گنگا بہتی ہے جب سندھ میں کرونا کے کیسز سو سے بھی کم تھے اور صرف ایک 77 سالہ شخص کرونا وائرس کے باعث جاں بحق ہوا تھا تو اس وقت صوبے بھر میں سخت لاک ڈاؤن کر دیا گیا، تعلیمی ادارے، کاروباری مراکز، کھیلوں کی سرگرمیاں، تفریح کے مقامات سب بند کر دیے گئے حتی کہ مساجد اور مدارس پر بھی پابندیاں عائد کردی گئیں اور جب صوبے میں کرونا کیسوں کی تعداد گیارہ ہزار سے زائد ہے اور جاں بحق ہونے والوں کی تعداد سو سے زائد ہے تو لاک ڈاؤن میں نرمی برتی جا رہی ہے۔ کاروباری سرگرمیوں میں تیزی لائی جا رہی ہے، سوشل ڈسٹنسنگ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

اس تمام صورت حال میں ایک عام آدمی ( جس کا نام لے کر سارا کھیل کھیلا جاتا ہے یعنی عوامی بھلائی کی خاطر حکومت نے فلاں فلاں اقدامات کیے ہیں ) یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اگر کرونا وائرس اتنا خطرناک تھا کہ کرونا سے بچاؤ کی خاطر اس کی زندگی مفلوج کر دی گئی، اس کو گھر میں محصور کرکے رکھ دیا گیا، اس کی معاشی سرگرمیاں ختم کر دی گئیں۔ اس سے سیر و تفریح کی سہولت تو چھینی ہی گئی بلکہ ان سب سے بھی بڑھ کر اس کو مسجد جا کر عبادت کرنے کی سعادت سے بھی محروم کر دیا گیا۔ اب آناً فاناً ایسا کیا ہو گیا ہے کہ میڈیا پر نشر ہوتے کرونا متاثرین کے بڑھتے ہوئے اعداد و شمار کے باوجود کرونا کا گڑھ یعنی مارکیٹس کھول دی گئیں۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کر دی گئی، اور سوشل ڈسٹنسنگ کو نظر انداز کر دیا گیا۔

ماہ مارچ سے جاری لاک ڈاؤن کا فیصلہ اگر غلط تھا تو اس کے نتیجے میں ہونے والے مالی نقصان اور ذہنی کوفت کا ازالہ کون کرے گا۔ اور اگر لاک ڈاؤن کا فیصلہ درست تھا تو لاک ڈاؤن میں نرمی کی صورت میں ہونے والے جانی نقصان اور صحت سے کھیلنے والے اقدام کی ذمہ داری کون لے گا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ سے لے کر حالیہ آٹا چینی بحران تک نجانے کتنے تحقیقاتی کمیٹیاں بن چکی ہیں، کتنی ہی انکوائری کمیٹیاں بن چکی ہیں مگر ذمہ داروں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ بحرانوں کو بلا خوف و خطر مال کمانے کے مواقع میں بدل دیا جاتا ہے اور عوام کی فلاح کی آڑ میں ایسے فیصلے کیے جاتے ہیں جن سے با اثر افراد کے سیاسی و معاشی مفادات کو تقویت ملتی ہے اور پھر انھیں عوامی مفاد عامہ کے فیصلوں کا نام دے دیا جاتا ہے۔

بہرحال جو ہونا تھا سو ہو گیا۔ حسب روایت نہ تو کسی کے نقصان کا ازالہ ہونا ہے اور نہ ہی غلط فیصلوں پر کسی کو احتساب کا سامنا کرنا ہو گا مگر ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ اسمارٹ لاک ڈاؤن کے نام پر مزید تماشا نہ لگایا جائے۔ اب اگر بازار کھولے ہیں تو مکمل کھولے جائیں اور اس کے ساتھ ہی دوسری پابندیوں پر سے پابندی اٹھائی جائے۔ آن لائن کلاسز کے نام پر طالب علموں کے ساتھ جو کھلواڑ ہو رہا ہے اس کو ختم کیا جائے کیونکہ طالب علم یونیورسٹیوں کو بھاری فیس ادا کرتے ہیں اور اس کے عوض معیاری تعلیم کا حصول ان کا حق ہے۔ امید ہے کہ جب طلبا اور ان کے اہل خانہ اور دوست احباب گھنٹوں بازار میں گھوم کر کرونا وائرس سے محفوظ رہ سکتے ہیں تو یہ کرونا تعلیمی اداروں میں ان کا کچھ نہیں بگاڑے گا اور ویسے بھی اگر بازار کھولنے کے لیے کرونا سے ڈیل ہو سکتی ہے تو تعلیمی ادارے کھولنے کے لیے کیوں نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments