سائنس کا پول بھی کھل ہی گیا – ایک عرض


غضنفر عباس صاحب کا مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ مضمون کی نوعیت سے لگتا ہے کہ سائنس سے کافی نالاں ہیں۔ بھلا ہو ان کا جنہوں نے غضنفر صاحب کو سائنس کے متعلق ایسی باتیں بتائیں کہ یہ تو کسی بھی مسئلے کا حل یوں نکال لیتی ہے جیسے کوئی شعبدہ باز اپنی چھڑی سے سانپ بنا لیتا ہے۔ جتنے بھی بڑے سائنسدان حال میں موجود ہیں یا ماضی میں گزرے ہیں کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ سائنس کے پاس ہمارے تمام مسائل کا فوری حل موجود ہے۔

سائنس تو بذات خود حضرت انسان کی اس کائنات کو سمجھنے کی سعی ہے اور اس کی اساس انسان میں پائی جانے والی جستجو اور تجسس ہے۔ نظام قدرت کو سمجھنے کی لگن میں ہی ہم یہاں تک پہنچے ہیں جہاں ہم موجود ہیں۔ ہم اپنے اردگرد جو کچھ بھی دیکھتے ہیں اور اس ٹیکنالوجی سے مزین دنیا میں جتنے بھی لوازمات کا لطف اٹھاتے ہیں وہ انسانی ضرورت ہی کی دین ہیں۔ کبھی یہ ضرورت ہے تو کبھی بقا کی جنگ کا نتیجہ۔ بالکل جیسے کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔

غضنفر صاحب نے اپنے مضمون میں بہت سارے ایسے کرشموں کو گنوایا جو سائنس کی بدولت انسان نے حاصل کیے ہیں لیکن وہ یہ بھول گئے وہ ساری ایجادات یا دریافتیں جن کو صاحب نے ا یک سانس میں گنوا دیا ان میں اس زمین کے ذہین ترین لوگوں کے ماہ و سال گزرے ہیں۔ یہ نہ تو کسی ایک شخص کی کوشش کا نتیجہ ہے اور نہ ہی ایک کاوش کا۔ نیوٹن جسے اس زمین پر آنے والے ذہین ترین لوگوں میں ایک مانا جاتا ہے، کا اپنا یہ کہنا ہے کہ

” میں خود کو ایک بونے کی طرح دیکھتا ہوں جو دیو ہیکل نابغوں کے کندھوں پر چڑھ کر زیادہ دور تک دیکھ پایا ہے“

اس بات کی برہان ہے کہ سائنس کی ترقی ساری انسانیت کی مشترکہ کاوش ہے۔ سائنس کی ساری نعمتیں جن کا ہم لطف اٹھا رہے ہیں لوگوں نے ان میں زندگیاں صرف کی ہیں۔ ان سائنسدانوں نے جن سے یہ آج بہت نالاں ہیں انہوں نے اپنی زندگیاں گنوائی ہیں صرف اور صرف اپنی آنے والی نسلوں کو کچھ علم دینے کے خاطر۔ اور ہم دیکھیں گے کہ دیر یا سویر اس وبا کا علاج بھی آخر ڈھونڈ ہی لیا جائے گا۔ کیوں کہ ہم تو آخر کوشش ہی کر سکتے ہیں ن؟ یہ وہ چراغ تو ہے نہیں جس کو رگڑا اور فرمائش کر دی۔

آپ نے فرمایا کہ انہوں نے ایٹم بم بنا لیے لیکن یہ نہیں بتایا کہ آئن سٹائن کی وہ مساوات جس پر بنیاد ایٹم بم بنایا گیا وہ اس نے 1905 میں دی تھی، 1934 میں میں یہ پتہ چلا کہ اس کا ایک استعمال یہ جوہری ہتھیار بنانے میں بھی ہوتا اور 1945 میں پہلے ایٹم بم کا تجربہ کیا گیا۔ آپ کیسے چالیس سال کے عرصے کو ایک ایسی دلیل میں سمو سکتے ہیں جو آپ نے محض اپنی ضرورت اور شاید جوش خطابت کے لیے بنا ڈالی؟ آپ کیسے اس ساری ٹیکنالوجی کی ایک سائنس میں صرف اس نفی کر سکتے ہیں کہ وہ آپ کے ایک موہوم اور خالصتاً موضوعی معیار پر پورا نہیں اتری اور جس کے اوپر آپ نے وقت کا قدغن بھی لگا رکھا ہے؟

کرونا ایک نئی بیماری ہے اور ایک کسی بھی حیاتیاتی وبا کی دوائی بنانے سے پہلے اس کو سمجھا جاتا ہے پھر اس کے وہ تمام ممکنات جن سے اس کا علاج ملنے کے امید ہو ان کو تجربہ گاہ میں پرکھا جاتا اور یہ سارا عمل وقت مانگتا ہے اور وہ وقت تنقید نگار کبھی نہیں دیتے۔ کسی بھی کام کو پایا تکمیل تک پہنچانے کا ایک راستہ ہوتا ہے اس راستے پر چل کر منزل تک پہنچنا وقت مانگتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ قدرت کے آگے ساری سائنس بے بس ہو چکی ہے لیکن آپ جلد ی میں یہ بھول گئے کہ صرف سائنس بے بس نہیں ہوئی بلکہ اس وقت زمین پر موجود سارے انسانی و خدائی مذاہب تک بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ ساری انسانیت بے بس ہے۔ اور اگر اس بے بسی سے کوئی لڑ رہا ہے تو وہ سائنس ہے ورنہ کیا ہم صبح شام اس وبا سے جان چھوٹ جانے کی دعا نہیں کر رہے؟ تو جناب جس سے آپ کافی ناخوش ہیں وہ ہمیشہ ایسی لڑائی میں ثابت قدم رہی ہے۔ اپنی آخری سانس تک لڑی ہے اور زیادہ تر سرخرو ہو کر نکلی ہے۔

آپ نے فرمایا کہ آپ کا سائنس سے ایمان کی حد تک اعتبار اٹھ چکا ہے۔ ایمان ان چیزوں پر رکھا جاتا ہے جن کی سمجھ نہ آئے۔ سائنس تو ایک سمجھ آ جانے والی چیز ہے اس لیے ہماری طرح اس کو تھوڑا سمجھنے کی سعی کریں۔ یہ آپ کو خود یہ کہے گی کہ ایمان لانے کی بجائے سوال کرنا سیکھیں۔ شک کرنا سیکھیں۔ یہ شک دیکارت والا شک ہے۔ doubt!

سائنس کا پول بھی کھل ہی گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments