کیا کرونا وائرس انسانی ریسرچ اور چھیڑ چھاڑ کی پیداوار ہے؟


نئے کرونا وائرس نے ڈاکٹروں کو چکرا کر رکھ دیا ہے کہ یہ آخر کس طریقے سے انسان کو بیمار کرتا ہے۔ فلو سانس کی نالی پر اٹیک کرتا ہے اور ایبولا خون پر۔ اسی طرح ہر بیماری کی علامات ہیں جو انفیکشن ہونے پر ظاہر ہوتی ہیں اور عمومی طور پر بیمار شخص ہی دوسروں کو بیمار کر سکتا ہے۔ یہ سب اصول  نئے کرونا پر پورے نہیں اتر رہی کیونکہ یہ سانس کی نالیوں پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے تو پیٹ میں آنتوں پر بھی۔ کسی کے دماغ میں اس کے حملے سے ورم آ جاتا ہے تو کسی کا خون اس کے حملے سے جم جاتا ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ کہ بہت سارے لوگوں میں یہ صرف پل کے دوسروں تک پہنچ جاتا ہے لیکن ان کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کسی مرض میں مبتلا ہیں۔

کرونا وائرس کوئی نئی چیز نہیں اور اس فیملی میں پہلے بھی چار وائرس تھے جو کہ زکام کا باعث بنتے ہیں لیکن اس سے آگے کوئی کرونا وائرس نہیں بڑھا (اگر تاریخ میں وہ پہلے یہ سب کچھ کر کے اب صرف زکام تک محدود ہو چکے ہیں تو فی الحال اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ) ۔ اس بات کے سبب بہت زیادہ شک کیا جا رہا ہے کہ اس کے اندر کچھ انسانی ہاتھ بھی ہے۔ وائرالوجی کے ماہرین اس شک  کی شدت سے مخالفت کر رہے ہیں اور ان کے تجزیہ میں ایسی کوئی علامت نہیں دیکھی گئی کہ اس وائرس کے اندر کچھ انسانی ہاتھ ہو سکتا ہے۔

لیکن اس وائرس کا ووہان شہر میں نمودار ہونا جہاں پر کرونا وائرس پر ریسرچ کی چین بلکہ دنیا کی سب سے بڑی لیبارٹری موجود تھی، لوگوں کے شک کو تقویت دے رہی ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ بھی یہی راگ الاپ رہی ہے کہ یہ وائرس شاید اسی لیب سے کسی غلطی سے باہر آ گیا ہے۔ آسٹریلیا نے تو اس بات کی تحقیق کے لئے ایک بین الاقوامی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے لیکن چین اس چیز کی شدت سے مخالفت کر رہا ہے اور اس نے آسٹریلیا کو اقتصادی بائیکاٹ کی دھمکی بھی دے دی ہے۔ چین کا یہ رویہ مزید شکوک پیدا کر ریا ہے کہ کہیں نہ کہیں گڑبڑ ضرور ہے۔

وائرس ہمیشہ سے سائنسدانوں کے لئے ایک معمہ رہا ہے کہ یہ زندہ ہے یا بے جان کیونکہ یہ دونوں طرف کی کچھ خصوصیات رکھتا ہے اور کچھ نہیں۔ زندہ اس لیے کہ یہ اپنی افزائش نسل چاہتا ہے اور بے جان اس لیے کہ نا اس میں خوراک کا کوئی نظام ہے اور نہ ہی خود سے افزائش نسل کا۔ یہ ایک میزبان خلیہ کا محتاج ہے جو اپنا کام چھوڑ کر اس کی نسل بڑھانا شروع کر دے۔

ہم اس کو ایک ہیکر سمجھ سکتے ہیں جو ایک میزبان خلیے کا نظام ہائی جیک کر کے اسے اپنی کاپیاں بنانے پر مجبور کرتا ہے اور خلیہ اس عمل میں تباہ ہو جاتا ہے لیکن وائرس کی کاپیاں اور نزدیکی خلیوں پر حملہ آور ہو کر اس سلسلے کو مزید تقویت دیتی ہیں حتیٰ کہ یا تو میزبان خود مکمل طور پر تباہ ہو جائے یا اس کا نظام مدافعت وائرس کو تباہ کر کے یہ سلسلہ روک دے۔ اب وائرس چونکہ بہت سادہ چیز ہے جس میں کچھ ڈی این اے یا آر این اے (جو کہ بنیادی طور پر خلیہ کی پروٹین بنانے والی فیکٹری کا ایک ہدایت نامہ ہے ) ایک جھلی میں بند ہوتا ہے لہذا اب جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے وائرس کی اندر یا باہر کی جھلیوں میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔

وائرس پر ہونے والی سب سے زیادہ ریسرچ گین آف فنکشن ریسرچ ہے جس میں سائنسدان وائرس میں   یہی جینیاتی تبدیلیاں لا کر اسے زیادہ مہلک یا زیادہ وبائی چھوت والا بناتے ہیں اور پھر اس پر ریسرچ کرتے ہیں کہ ایسے وائرس سے کیا بیماریاں پھیل سکتی ہیں اور پھر ان کے لئے کیا علاج یا ویکسین بنانی پڑے گی۔ یہ ریسرچ شروع سے بہت اختلاف کا شکار ہے اور اوباما کی گورنمنٹ نے تو اس کی فنڈنگ بھی ختم کر دی تھی۔ اب ووہان کی لیبارٹری کرونا وائرس پر اس قسم کی ریسرچ کر رہی تھی یا نہیں اس پر بہت باتیں ہو رہی ہیں لیکن اگر کچھ ایسا تھا بھی تو شاید اس بات کے تمام ثبوت تب تک مٹا دیے جائیں گے جب تک چین بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن کو آ کر تحقیق کی اجازت دے گا۔

اب دنیا کے بہت سارے وائرالوجسٹ جو اس طرح کی تحقیقات میں مصروف ہیں، اس بات پر تواتر سے اصرار کر رہے ہیں کہ یہ وائرس ان کو انجینئرڈ نہیں لگتا لیکن کوئی یہ نہیں بتا رہا ہے کہ آخر ایک انجینئرڈ اور قدرتی وائرس میں فرق کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ بس یہ اصرار کیا جا رہا ہے کہ ہماری بات مان لیں کیونکہ کچھ عرصہ قبل ریسرچ میں چمگادڑوں میں ایک ایسا نیا کرونا وائرس پایا گیا تھا جس کا ڈی این اے تقریباً 96 فیصد اس کرونا وائرس جیسا ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ ایک قدرتی وائرس ہے لیکن سازش دیکھنے والے یہی کہ رہے ہیں کہ شاید یہ چار فیصد تبدیلی ہی وائرالوجسٹ کی گین آف فنکشن ریسرچ کا نتیجہ ہے۔

اس بات کو اس طرح بھی دیکھا جا رہا ہے کہ ان سب ماہرین نے اپنی جان بچانے کے لئے ایکا کر لیا ہے کیونکہ یہ سب ہی اس طرح کی ریسرچ میں مصروف ہیں اور آج تو چینیوں پر الزام آ جائے گا لیکن کل کلاں پھر سب وائرالوجسٹ نظر میں آ جائیں گے اور یہ پورا، شعبہ ہی عوامی غم و غصہ کا شکار ہو جائے گا۔ آوازیں پھر بھی اٹھ رہی ہیں کہ بے شک یہ وائرس گین آف فنکشن ریسرچ کی پیداوار نہ ہو لیکن اس وبا نے یہ بات عیاں کر دی ہے کہ یہ ریسرچ انتہائی خطرناک ہے اور اس پر پابندی لگائی جائے کیونکہ اگر اس ریسرچ کا مقصد وقت سے پہلے ایسی وباؤں کو سمجھنا اور ان کی روک تھام کرنا ہے تو وہ اس کرونا کی وبا سے ویسے ہی ناکام ہو چکی ہے۔

ایڈز کے وائرس دریافت کرنے والے فرانسیسی نوبل انعام یافتہ پروفیسر لک مونٹیگینر نے اپنی تحقیق کے بعد فیصلہ دیا کہ انہیں یہ وائرس انجینئرڈ لگا ہے کیونکہ اس میں ایڈز وائرس اور ملیریا والے پیراسائٹ (طفیلی جاندار) کے ڈی این اے کے اجزا نظر آئے ہیں لیکن سائنسی اسٹیبلشمنٹ (جی ہاں سائنسدانوں کی بھی اسٹیبلشمنٹ ہے جو کہ مل کر کسی موضوع پر اجماع کر لیتے ہیں۔ اگر آپ ایسا نہیں سمجھتے تو ان سائنسدانوں کا حشر دیکھ لیں جن کا مکمل کیریر اس بات پر ختم کر دیا جاتا ہے کہ وہ خدا کے ہونے پر یقین رکھتے ہیں یا ماحولیاتی تبدیلی کی ریسرچ سے اختلاف کرتے ہیں کیونکہ سائنسدانوں کی اکثریت کا ان دونوں باتوں پر اتفاق ہے ) نے انہیں جھٹلا دیا ہے، اسی طرح ایک پہلے سے جھٹلائی گئی سائنسدان ڈاکٹر جوڈی مکووٹز کے دعوؤں پر مشتمل کتاب اور وائرل ویڈیو پینڈیمک کو بھی مسترد کر دیا ہے اور اسے جھوٹ کا پلندا قرار دیا ہے۔

لیکن اس بات سے بھی اختلاف نہیں کہ یہ وائرس اپنے باقی کرونا وائرس فیملی ممبرز کی طرح پیش نہیں آ رہا اور ایسے مسائل پیدا کر رہا ہے جو اس فیملی کے باقی وائرس نہیں کرتے۔ شاید وقت کے ساتھ سائنسدان اس گتھی کو سلجھا لیں گے یا ایک قابل یقین کہانی بنا لیں گے جو کہ سائنس کی موجودہ سوچ اور تحقیق (جسے سائنس کے مشہور فلاسفر تھامس کہن پیراڈائم کا نام دیتے ہیں ) کے ساتھ فٹ ہو جائے گی۔ ابھی تک تو یہ وائرس سوالات زیادہ پیدا کر رہا ہے اور جوابات کم دے رہا ہے اور معمہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

دنیا شدت سے ویکسین یا اس کے علاج کا انتظار کر رہی ہے وہیں   ہر چیز میں سازش دیکھنے والے عناصر اس میں بھی ایک سازش دیکھ رہے ہیں۔ سائنس کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ آخر میں سائنس جیت جائے گی اور سازشی عناصر پھر کسی اور چیز میں سازش تلاش کرنا شروع کر دیں گے لیکن ابھی تک کو سازش ڈھونڈنے والوں کو کافی کامیابی کے ساتھ پوری دال ہی کالی نظر آ رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments