کشتی، تین دوست اور برائے نام کتا


 Translation of Jerome’s novel “Three Men in a Boat (Nothing to say about the Dog)”.

ہم تین دوست تھے۔ جارج، دیپک اور میں۔ اور تینوں کی حالت بہت پتلی تھی۔ جارج اور ولیم کو گاہے بگاہے چکر آتے تھے، اور میرا جگر ہڑتال پہ تھا۔ باقی دو کا تو معلوم نہیں لیکن مجھے اپنی علالت کا علم ”شفائے جگر“ نامی گولی کا اشتہار پڑھ کے ہوا تھا۔ اس پمفلٹ کے بغور مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پہ پہنچا کہ اس میں ضعف جگر کی جتنی بھی علامات درج تھیں وہ سب کی سب مجھ میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔

ویسے یہ عجیب اتفاق ہے کہ میں جب بھی کسی دوا کا اشتہار پڑھوں، مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ میں اس بیماری کی آخری اسٹیج پہ ہوں۔ کچھ عرصہ قبل مجھے ہلکا سا بخار ہوگیا تو میں محض جنرل نالج میں اضافے کی خاطر قریبی کتب خانے کی طرف جا نکلا۔ وہاں میں نے امراض کے بارے میں ایک کتاب اٹھائی اور اس کی سرسری ورق گردانی کرتے ہوئے جب ایک نہایت موذی مرض کی تفصیلات پڑھیں تو یہ جان کے میرے پسینے چھوٹ گئے کہ اس کی سوفی صد علامات میرے اندر موجود ہیں۔

ذرا حواس بحال ہوئے تو ہمت کر کے چند صفحات اور پلٹے اور ٹائیفائیڈ کے بارے میں پڑھنا شروع کیا۔ چند سطور پڑھ کے ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ میں تو برسوں سے ٹائیفائیڈ کا مریض ہوں۔ اب صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر، میں نے الف سے ی تک پوری کتاب کھنگال ڈالی جس سے معلوم ہوا کہ مجھے ہیضہ، کالی کھانسی، خناق، نمونیہ، ملیریا، ٹی بی، دمہ اور مالیخولیا سمیت سینکڑوں چھوٹی بڑی بیماریاں ہیں۔ صرف ایک بیماری ایسی تھی جس سے میں بچ نکلا تھا اور وہ تھی پولیو۔ مگر پولیو کیوں نہیں؟ مجھے لگا کہ پولیو کے معاملے میں میرے ساتھ کچھ نا انصافی ہوئی ہے۔

تاہم ذرا ٹھنڈے دل سے صورت حال کا تجزیہ کیا تو مجھے ذرا ندامت ہوئی کہ جب قدرت نے طب کی لغت میں موجود تمام امراض سے مجھے نواز رکھا ہے تو صرف پولیو کے نہ ہونے پہ اتنی ہاہاکار مچانا مناسب نہیں۔

یکا یک اس صورت حال کا یہ نہایت روشن پہلو مجھ پہ آشکار ہوا کہ طب کی دنیا میں میری وجہ سے ایک عظیم انقلاب آنے والا ہے۔ اب میڈیکل کے طلبہ و طالبات کو دوران تعلیم ہسپتالوں کے وارڈز میں ایک سرے سے دوسرے تک جوتیاں چٹخانے کی چنداں ضرورت نہیں رہے گی، کیونکہ میں اکیلا ہی ان کی مکمل ٹریننگ کے لئے کافی ہوں گا۔ میں نے چشم تصور سے دیکھا کہ میں شہر کے سب سے بڑے ہاسپٹل میں مختلف طبی آلات اور مشینوں سے گھرے ہوئے ایک بیڈ پہ نیم مردہ پڑا ہوں جہاں سفید کوٹ پہنے ہوئے فائنل ائر کے میڈیکل اسٹوڈنٹ ایک دروازے سے داخل ہوتے ہیں، میرا تفصیلی معائنہ کرتے ہیں اور ایم بی بی ایس کی ڈگری بغل میں دبا کے دوسرے دروازے سے نکل جاتے ہیں۔

اگلے روز میں ایک ڈاکٹر دوست، جنید سے ملنے گیا اور اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا، دیکھو بھئی، میں تفصیلات میں پڑ کے تمہارا قیمتی وقت برباد نہیں کرنا چاہتا۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ مجھے پولیو نہیں ہے۔ اس لیے تم باقی تمام امراض کا علاج فوراً شروع کردو۔ سلیم نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کافی کا آرڈر دیا اور باتوں باتوں میں میری اس حیرت انگیز دریافت کا راز اگلوا لیا۔ اس کے بعد اس نے میرا منہ کھلوا کے دیکھا، سینے پہ دو تین دو ہتڑ مارے، کمر پہ اسٹیتھو سکوپ لگائی، کہنیوں اور گھٹنوں کو ہتھوڑی سے بجایا، اور مزید کچھ کہے سنے بغیر، ایک نسخہ لکھ کے میرے حوالے کرتے ہوئے مجھے کلینک سے باہر کھدیڑ دیا۔

باہر نکل کے میں نے نسخہ پڑھا تو لکھا تھا۔ ”صبح، دوپہر، شام باقاعدگی سے متوازن خوراک۔ روزانہ ایک گھنٹہ ورزش اور آٹھ گھنٹے سونا۔ نیز ہر قسم کی طبی کتابوں اور بالخصوص ادویات کے اشتہارات سے مکمل پرہیز۔“

ان ہدایات پہ عمل کر کے میری زندگی تو خیر بچ گئی لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں مکمل صحتیاب ہو گیا۔ جگر کی جس تکلیف کا میں نے اوپر ذکر کیا تھا، وہ ویسے کی ویسی ہی ہے۔ اس مرض کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ مریض کسی بھی قسم کا کام کرنے سے کوسوں دور بھاگتا ہے اور یہ مسئلہ میرے ساتھ ہے اور بہت شدید ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میں بچپن سے ہی اس موذی مرض میں مبتلا ہوں جس سے مجھے ایک دن کے لئے بھی چھٹکارا نہیں ملا۔

پرانے زمانے میں چونکہ میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی، تو میری پیچیدہ بیماری کو بھلا کون سمجھتا اور کیسے سمجھتا؟ بس جناب، مجھ پہ کاہل اور نکما ہونے کی تہمت دھر دی گئی اور مناسب ادویات کی بجائے، ڈانٹ پھٹکار سے میرا علاج ہونے لگا۔ بسا اوقات جب میں مرض کی شدت کی وجہ سے ہلنے جلنے سے بھی قاصر ہوتا تو ابا میرا کان مروڑ کے ایک دھپ رسید کرتے اور مجھے سبق یاد کرنے یا بازار سے کوئی چیز لانے جیسے کسی فضول سے کام پہ لگا دیتے۔ اب سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ ان وقتوں میں ایسے نامعقول ٹوٹکے کیونکر اتنے کارگر ثابت ہوتے تھے۔ ایک تھپڑ سے میں اتنا چاق و چوبند ہوجاتا، جتنا اب شفائے جگر کی گولیوں کا پورا پیکٹ کھا کر بھی نہیں ہوتا۔

خیر، تو بات جارج، دیپک اور میری حالت زار سے شروع ہوئی تھی جب ہم صوفوں پہ نیم دراز، ایک دوسرے کو اپنے اپنے دکھڑے سنا رہے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ میری ہر صبح کیسی واہیات ہوتی ہے، جارج نے اس کرب اور اداسی کا ذکر کیا جس سے وہ ہر رات سونے سے پہلے گزرتا ہے اور دیپک نے اپنی بے خواب راتوں میں بے چینی سے کروٹیں بدلتے رہنے کی ایسی رقت انگیز منظر کشی کی، کہ ہمیں اپنے وبال اس کے سامنے ہیچ لگنے لگے۔

اتنے میں میرے خانساماں نے بتایا کہ کھانا لگ چکا ہے۔ ہم ایک دوسرے کی طرف بجھی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ شاید کچھ زہر مار کر لینے سے ہم ذرا بہتر محسوس کرنے لگیں۔ میری طبیعت تو اس قدر خراب تھی کہ میں بمشکل بریانی کی دو پلیٹیں، قورمے کے ساتھ تین چار روٹیاں اور ایک پیالہ سویٹ ڈش ہی کھا سکا۔ باقی دونوں کا بھی تقریباً یہی حال تھا۔ خیر جیسے تیسے ہم یہ فرض پورا کر کے ڈرائنگ روم میں واپس لوٹے اور سگریٹ سلگا کے دوبارہ اپنی گرتی ہوئی صحت کے بارے میں گفتگو کرنے لگے۔

کافی بحث مباحثے کے بعد ہم اس نتیجے پہ پہنچے کہ اس صورت حال کی اصل وجہ کام کی زیادتی اور سیر و تفریح کی کمی ہے۔ جارج کی حتمی رائے تھی کہ ہمہ وقت کی ذہنی مشقت سے ہمارے دماغ پلپلے ہو چکے ہیں اور ہمیں آب و ہوا کی تبدیلی اور مکمل آرام کی سخت ضرورت ہے۔ جارج کا ایک کزن چونکہ میڈیکل کالج میں پڑھتا ہے اس لیے ظاہر ہے کہ طبی معاملات میں مہارت ان کے خاندان کے خون میں شامل ہے۔ چنانچہ ہمارا اس سے اختلاف کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

میں نے تجویز دی کہ ہمیں دور دراز برف پوش پہاڑوں سے گھری کسی ایسی حسین وادی میں کم از کم ایک ہفتہ گزارنا چاہیے جہاں ہم فطرت کے قریب ہوں اور کوسوں تک کوئی آدم ہو نہ آدم زاد نہ ہو۔ وہاں ہم چیڑ کے گھنے جنگلوں میں گھومیں، جھرنوں کے ترنم سے روح کو سرشار کریں اور نیلگوں جھیلوں کے کنارے سر سبز گھاس پہ لیٹ کے پرندوں کی چہچہاہٹ سے لطف اندوز ہوں۔

دیپک بولا میں سمجھ گیا۔ تم ایسی جگہ کی بات کر رہے ہو، جہاں ایک سگریٹ کا پیکٹ یا پائپ کا تمباکو خریدنے کے لئے بھی کم از کم دس میل دور پیدل چل کے جانا پڑتا ہے۔ دور دور تک کوئی لڑکی تو کیا، دھوپ یا چاندنی کے سوا کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی جس پہ مونث ہونے کا شک کیا جاسکے اور یہ دونوں بھی اکثر بادلوں کے گھونگٹ کے پیچھے چھپی رہتی ہیں۔ ایسی جگہوں پہ سہہ پہر ڈھلتے ہی ہر طرف سناٹا چھا جاتا ہے اور لوگ بوریت سے نڈھال ہوکے شام سات بجے ہی بستروں میں گھس کے سو جاتے ہیں۔ میں تو ایسی جگہ ایک دن بھی نہیں گزار سکتا۔

اس پہ جارج نے بحری سفر کا مشورہ جو میں نے اس وجہ سے رد کر دیا کہ بحری سفر کے لئے کم از کم دو ماہ ضروری ہیں جبکہ ہمارے پاس صرف ایک ہفتہ ہے۔ ایک ہفتے کے بحری سفر پہ آپ پیر کے روز یہ سوچ کے روانہ ہوتے ہیں کہ خوب تفریح کریں گے اور بحری جہاز پہ سوار ہوتے ہی سگریٹ سلگا کے عرشے پہ یوں ٹہلنے لگتے ہیں جیسے کولمبس امریکہ دریافت کرنے نکلا ہو۔ منگل کو آپ کو متلی شروع ہو جاتی ہے جو بتدریج بڑھتی چلی جاتی ہے۔ بدھ، جمعرات اور جمعے تک حالت اتنی خراب ہوچکی ہوتی ہے کہ موت زندگی سے بہتر لگنے لگتی ہے۔

ہفتے کو طبیعت ذرا سنبھلتی ہے اور بغیر دودھ کی چائے کے ایک کپ کے ساتھ آپ ڈبل روٹی کا ایک آدھ ٹکڑا نگلنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اتوار کو آپ ٹھوس غذا کھانے اور چلنے پھرنے کے لائق ہو جاتے ہیں اور پیر کو اپنا بیگ اور چھتری سنبھالے جہاز سے اتر کے گھر کا رخ کرتے ہیں۔ نہ بھئی نہ، میں تو ایسی تفریح سے باز آیا۔

میرے بڑے بھائی نے ایک دفعہ بحالئی صحت کے ارادے سے بحری جہاز کا لندن سے لیورپول تک کا ریٹرن ٹکٹ لے لیا۔ لیورپول پہنچ کے اس نے فی الفور ٹرین سے واپسی کی بکنگ کرائی اور بحری سفر کے صدمے کا اثر کم کرنے کے لئے جہاز کا لیورپول سے لندن تک کا (غیر استعمال شدہ) ٹکٹ فروخت کرنے کی کوشش کی جو بدقت تمام اپنی اصل قیمت کے دسویں حصے میں بک سکا۔ اسی طرح میرے ایک اور جاننے والے آغا جی ایک ہفتے کے بحری سفر پہ روانہ ہوئے تو سفر شروع ہوتے ہی بیرے نے ان سے دریافت کیا کہ وہ ہر کھانے کا بل الگ الگ دینا چاہیں گے یا پورے ہفتے کی خورد و نوش کا بل پیشگی یکمشت ادا کرنا پسند کریں گے۔

بیرے نے ان کے کان میں تقریباً سرگوشی کرتے ہوئے یہ راز کی بات بھی بتائی کہ یکمشت ادائیگی کی صورت میں وہ ”چاہے جتنا مرضی کھاؤ“ والی پیکج ڈیل میں پیش کردہ خصوصی ڈسکاونٹ سے بھی مستفید ہوسکیں گے۔ آغا جی اگرچہ کافی خوش خوراک ہیں مگر پیشے کے لحاظ سے اکاونٹنٹ ہیں اور روپے پیسے کے معاملے میں خاصے محتاط واقع ہوئے ہیں۔ انہوں نے جلدی جلدی ایک دن کے ناشتے، لنچ، سہہ پہر کی چائے اور ڈنر کے بل کو جمع کر کے سات سے ضرب دی، حاصل ضرب کا پیکج ڈیل سے موازنہ کیا اور بیس پونڈ کی خطیر رقم کا فرق دیکھ کے فوری طور پہ تیس پونڈ کی یکمشت ادائیگی کردی۔ (جہازوں اور ہوٹلوں کا بیشتر عملہ بندے کی صورت دیکھتے ہی تاڑ جاتا ہے کہ اس کی کھال کیسے اتارنی ہے۔ )

خیر صاحب، سفر شروع ہوا اور دوپہر سے کچھ پہلے سمندر متلاطم ہونے لگا۔ لنچ کے وقت موصوف نے تھوڑے سے بیف اور چند اسٹرابیری پہ اکتفا کیا۔ شام ہوتے ہوتے انہیں کبھی لگتا کہ وہ کئی ہفتوں سے بیف کھا رہے ہیں اور کبھی محسوس ہوتا کہ برس ہا برس سے فقط اسٹرابیری پہ گزارہ ہے۔ جب رات کا کھانا لگنے کا اعلان ہوا تو آغا جی کا کچھ کھانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا لیکن اپنی صبح ادا کی ہوئی رقم کا ڈوبنا بھی انہیں گوارا نہ تھا۔

اس لیے گرتے پڑتے ڈائننگ ہال میں پہنچے مگر وہاں کی تلی ہوئی مچھلی، گوشت اور مصالحوں کی بساند سے بوجھل فضا ان کی برداشت سے باہر ہوگئی۔ اتنے میں وہی صبح والا شاطر بیرا ان کی طرف لپکا اور نہایت ادب سے بولا، سر میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ آغا جی کہنا تو بہت کچھ چاہتے تھے لیکن بمشکل اتنا ہی کہہ پائے کہ خدا کے لئے مجھے یہاں سے نکالو۔

اگلے چار دن آغا جی دنیاوی عیش و عشرت کو تیاگ کے اپنے کیبن میں آلتی پالتی مارے گوتم بدھ بنے رہے جہاں کھانے کے وقت وہ سوپ کے دو تین چمچ اور سوڈا واٹر کے چند گھونٹ ہی نگل پاتے۔ اتوار تک ان کی طبیعت کچھ سنبھلنے لگی، پیر کو پہلی دفعہ تھوڑا سا چکن اور آدھی چپاتی کھائی، اور منگل کے روز ایک بھرپور ناشتے کے بعد اپنی منزل مقصود پہ پہنچ گئے۔ بندرگاہ پہ رخصت ہوتے سمے بحری جہاز کو دیکھ کے ان کے منہ سے نکلا، ”وہ جا رہا ہے بدمعاش، میرے تیس پونڈ کا کھانا غبن کر کے۔ مجھے ایک دن اور مل جاتا تو اپنے پیسے پورے کر کے چھوڑتا“ ۔

اس سیریز کے دیگر حصےکشتی، تین دوست اور برائے نام کتا (قسط 2)۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments