کہانی: روزہ


بانو بار بار دروازے کی طرف نگاہ اٹھاتی اور مایوس ہو کر دوبارہ واپس گھر میں موجود واحد چارپائی پر جا بیٹھتی۔ اس گھر کے صرف 3 مکین تھے، بانو، چارپائی، اور اختر۔ جو دن رات اس چارپائی پر پڑا اپنی بیوی بانو کو دیکھتا رہتا۔ اختر کی آنکھوں میں ایک بے بسی سی رچ بس گئی تھی۔ وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نا کر پاتا۔ معذوری ہی کچھ ایسی تھی کے وہ اپنا جسم بھی خود سے نا ہلا پاتا۔ اور اب تو ویسے بھی 80 برس کا ہو چلا تھا اوپر سے بیماری۔

یوں لگتا جیسے اب تو چارپائی بھی اختر سے تنگ آ چکی تھی۔ اگر کسی کو اختر سے ابھی بھی پیار تھا تو وہ صرف بانو ہی تھی۔ وہی اسے اٹھاتی، کروٹ دلواتی، پانی پلاتی۔ مگر اگر کچھ نہ کر پاتی تو وہ صرف کھانا کھلانا تھا۔ کھلاتی بھی کیسے؟ اس نے تو پچھلے 2 دن سے خود کچھ نا کھایا تھا۔ بانو کے صرف بال ہی سفید نا تھے بلکہ قسمت بھی سفید تھی۔ بچپن سے آج تک اس نے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نا کھایا تھا۔

اختر ڈرائیور تھا، 20 برس پہلے ایک روز حادثے میں ایسا زخمی ہوا کے پھر بستر سے نا اٹھ پایا۔ اس وقت سے آج تک بانو ہی تھی جو گھر کا خرچ محلے کے گھروں میں کام کر کے پورا کرتی اور اختر کو نا صرف کھلاتی پلاتی بلکہ اس کی دوا کا بھی بندوبست کرتی۔ مگر کب تک؟

اب تو بانو کا دمہ بھی اپنے آخری دموں پر تھا۔ آج بانو کو یوں لگ رہا تھا کے جیسے آخری روزہ ہو، مگر آج تو صرف تیسرا روزہ تھا۔ ”کھٹ کھٹ کھٹ“ دروازے شاید کھٹکا تھا۔ شاید محلے سے کسی نے افطاری بھیجی ہو، فوراً سے بانو نے سوچا اور ایک محبت بھری نگاہ اختر پر ڈالی، جس کی آنکھیں اب بھی بانو کو دیکھ رہی تھیں۔ شاید جی بھر کے آخری بار یا پھر جیسے اس نے پہلی بار بانو کو دیکھا تھا شادی کے بعد۔ ”بانو خالہ افطاری لے لیں اماں نے بھجوائی ہے“ ۔

سنتے ہی بانو چارپائی سے اٹھی اور دروازے کی طرف چل پڑی۔ اچانک اک چکر سا آیا اور بانو کا بھوکا جسم دھڑام سے نیچے گر پڑا۔ دو آنسو اختر کی بے جان آنکھوں سے نکلے اور اس کے پچکے ہوئے گالوں سے ہوتے ہوئے اس بے جان چارپائی کو سیراب کر گئے۔ اسی لمحے بانو نے آخری ہچکی لی اور اختر کو ایسے دیکھا جیسے کہ رہی ہو کے
” دیکھو افطار ہوگئی ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments