سپرمین بابے


چند دہائیاں پہلے جب وطن عزیز میں ڈکیتوں کا راج تھا نامور لکھاری امر جلیل نے ایک شاہکار کہانی ”اروڑ کا مست“ لکھی جس کی بعد میں ڈرامائی تشکیل بھی ہوئی۔ کہانی میں ایک سفاک اور بے رحم ڈاکو ڈکیتی چھوڑ دیتا ہے اور جعلی پیر بن کر لوگوں کو لوٹنے کا محفوظ طریقہ اختیار کر لیتا ہے۔

اس کہانی کو اب دہائیاں گزر چکیں۔ اب ڈکیت تو دکھائی نہیں دیتے البتہ جعلی پیروں اور عاملوں میں غیر معمولی اضافہ ضرور ہوا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے سارے سفاک اور بے رحم ڈاکوؤں نے نام نہاد پیروں اور عاملوں کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔

نا انصافی، ظلم، بھوک، بدحالی اور جہالت بھرے معاشرے میں معاشی اور سماجی مسائل کے شکار بے چارے سادہ، ناسمجھ اور مسکین لوگ ہمیشہ اپنے درد کی دوا کی خاطر یا تو کسی معجزے کے منتظر رہتے ہیں یا پھر کسی الہامی مسیحا کے۔ ایسے لوگ فراڈ عاملوں یا پیروں کا سب سے آسان ہدف ہوتے ہیں۔ جو لاعلاج امراض سے لے کر محبوب کو قدموں میں لانے تک سبھی کام لمحوں میں کرنے کے دعوے کرتے ہیں۔ کبھی سپرمین تو کبھی اسپیشلسٹ ڈاکٹر بھی ان کے آگے پانی بھرنے لگتا ہے۔

آپ کسی ترقی یافتہ ملک کے کسی جدید ہسپتال سے تو لاعلاج اور مایوس ہو کر لوٹ سکتے ہیں لیکن وطن عزیز کی دیواروں پر شرطیہ علاج کرنے والے بابوں سے بقول ان کے مایوس ہو کر نہیں لوٹیں گے۔

محبوب اور محبوب کا باپ جائیں تیل لینے لیکن اگر آپ ان بابوں کے قدموں تک پہنچ گئے تو محبوب آپ کے قدموں میں ہوگا۔
آپ کے پاس بھلے سامان پورا ہو نہ ہو لیکن یہ بابے آپ کو اولاد کی نعمت سے محروم ہرگز نہیں رہنے دیں گے۔
ڈائلیسز بھول جائیں، ہرٹ بائے پاس جائے بھاڑ میں، انسولین کو آگ لگا دیں، دم کیا ہوا پانی اندر پتھری باہر۔
سپر مین، اسپائڈر مین اور الہ دین کا چراغ بھول جائیں اور بابے کے قدموں کی خاک آنکھوں سے لگا لیں آپ کا بیڑا پار ہو جائے گا۔

ان بابوں کے چکر میں جو ایک بار پھنس جائے اس کے لیے پھر جان چھڑانا مشکل ہوتا جاتا ہے۔ یہ بابے بڑے فنکار اور اپنے فن کے بڑے گرو ہوتے ہیں۔ ان کی اور ان کے چیلوں کی گفتگو سحر طاری کر دینے والی ہوتی ہے۔ ان کی باتیں ہمیشہ نیم نقاب و پوشاک میں ملبوس کسی عرب ڈانسر کی طرح دلفریب اور پرکشش ہوتی ہیں جس کے آسیب کا عام آدمی آسان شکار بنتے جاتے ہیں۔ یہ کسی سادہ سے قصے کو جاسوسی ناول کی طرح پرتجسس بنا کر بتانے کے ماہر ہوتے ہیں۔

ان بابوں کے آستانوں سے لے کر ان کے لباس تک اور سوالیوں کی صورت میں آس پاس بیٹھے کرائے کے چیلوں تک سب کچھ بڑی مہارت کے ساتھ پری پلانڈ اور پری پلانٹڈ ہوتا ہے۔ اپنے مسائل اور بیماریوں کے حل اور علاج کی غرض سے ان کے جال میں پھنس کر آنے والے لوگوں سے یہ ہمیشہ مبہم، الجھی اور کثیر جہتی باتیں کرتے ہیں تاکہ لوگ ان باتوں سے خود ساختہ مطلب نکال نکال کر مطمئن ہوتے جائیں۔ بابوں کے پیروں میں بیٹھے مجبور اور لاچار لوگوں کے جھکے سر بھلا ایسے میں کہاں سوچ پاتے ہیں کہ کیا اچھا ہے کیا برا اور کیا صحیح ہے کیا غلط۔

میں حیران ہوں کہ کورونا کے آتے ہی وہ سب بابے کہاں غائب ہیں جو اسپیشلسٹ ڈاکٹر بنے ہوئے تھے۔ کوئی پتھری کا علاج کر رہا تھا، کوئی ہیپاٹائٹس کا، کوئی گردوں کا تو کوئی شوگر کا۔ کئی تو جنرل فزیشن اور جنرل سرجن بھی بنے ہوئے تھے اور ہر مرض کا علاج کر رہے تھے اور ہزاروں لوگ روزانہ ان کے درباروں پر دربدر ہو رہے تھے۔ کورونا آتے ہی علیحدگی کیوں اختیار کر لی انہوں نے؟ کیا ان کی سپر نیچرل طاقت کے قابو میں کورونا نہیں آیا؟ کیا کورونا کے لیے ان کے پاس کوئی دم کوئی تعویذ یا نسخہ نہیں؟ جو بابے ترقی یافتہ ممالک کے جدید ترین ہسپتالوں سے لاعلاج و مایوس ہو کر لوٹنے والے مریضوں کو اپنے دم سے لمحوں میں ٹھیک کرنے کے دعویدار بنتے تھے وہ کورونا سے خود کو بچانے کے لیے علیحدگی اختیار کرنے پر کیوں کر مجبور ہو گئے ہیں۔

جان لیوا وبا کے اس بے رحم دور میں ان نام نہاد بابوں کا یوں جان بچا کر بھاگنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈاکٹروں کا کام ان بابوں کے بس کی بات نہیں اور وہ اس طرح کے جھوٹے دعوے کر کے محض مجبور لوگوں کو لوٹتے رہے ہیں۔ پیر و مرشد کا کام مریدوں کی اصلاح کرنا اور ان کا کردار سنوارنا ہوتا ہے نہ کہ سپرمین یا ڈاکٹر بننا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments