سلطنت عثمانیہ کی تاریخ کا ایک اور عبرت ناک ورق


استنبول میں آبنائے باسفورس کے نیلگوں پانیوں کے کنارے، دولمہ باہچے خلافت عثمانیہ کے دور کا شاندار محل ہے۔ ماسکو میں کریملن کے اندر روسی زار کا محل یا پیرس کے قریب لوئی چار دہم کا بنوایا ہوا ورسائی محل ہو تو ہو، کم از کم بر صغیر پاک و ہند میں دولمہ باہچے کی شان کو تاج محل سمیت کوئی عمارت نہیں پہنچتی۔

یوں تو دولمہ باہچے محل مرکزی دروازے سے لے کر آخر تک دیکھنے کی چیز ہے جس کے لئے پورا دن بھی کم ہے لیکن آپ اپنے ذوق طبع کے مطابق محل میں جگہیں دیکھنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ اگر آرٹ میں دلچسپی ہے تو ایک مکمل دو منزلہ عمارت عثمانی دور کی نا یاب اور نادر قسم کی پینٹنگز کے لئے مختص ہے، اگر تکنیکی نوادرات کا رحجان ہے تو عثمانی دور کی شاندار گھڑیوں سے سجا کلاک میوزیم دیکھ لیں، اگر کھانے پکانے سے دلچسپی تو مرکزی عمارت سے ذرا ہٹ کر بیسیوں کمروں پر مشتمل شاہی باورچی خانے میں گم ہو جائیں، اگر اندرونی سجاوٹ سے لگاؤ ہے تو پنک ہال، بلیو ہال وغیرہ دیکھ لیجیے جہاں بیک وقت دو سو کے قریب لوگوں کی شاندار شاہی ضیافت باآسانی ہو سکتی تھی۔

لیکن اگر پھر بھی تسلی نہ ہو اور آپ کی تاریخ میں سنجیدگی انتہاؤں کو چھو رہی ہو تو سب چھوڑ کر ایک علیحدہ مہنگا سا ٹکٹ لیجیے اور حرم سرا میں داخل ہو جائیں۔ یہاں شاہی سلطانی جاہ و جلال کے مظاہرے اور آسائشیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ مسلمانوں کے خلیفہ کی رہائش گاہ ہے یا کسی قیصر و کسری نما شہنشاہ کا عشرت کدہ۔ اگر یہ کسی زار، بادشاہ یا عام حکمران کا محل ہوتا تو اس حیرت کدے پر فخر کرنا بنتا ہے لیکن مسلمانوں کے خلیفہ کا ایسا محل سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں۔

خیر اب یہ سارا شاہی جاہ و جلال محض ایک تماشا بن گیا ہے۔ لوگ آتے ہیں، اور ٹکٹ خرید کر ان سلاطین کی قیمتی پوشاکوں سے لے کر حمام، خواب گاہیں اور حرم سمیت سب کچھ دیکھتے ہیں اور دبی دبی آوازوں میں اپنے کمنٹ دے کر گزر جاتے ہیں۔ اگر بطور طالب علم خلافت عثمانیہ کے زوال کی ایک وجہ دیکھنی ہو یا پھر تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کا موڈ ہو تو استنبول میں قصر دولمہ باہچے سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔

قصر دولمہ باہچے کی شان و شوکت کو دیکھ کر بر صغیر پاک و ہند کی تحریک خلافت شدت سے یاد آنے لگتی ہے۔ بقول محترم وجاہت مسعود صاحب ایک ہی وقت میں یہاں خلافت کے لئے جان دینے اور مصطفیٰ کمال کی بلائیں دور ہونے کی دعاؤں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانان ہند کا سیاسی اور تاریخی شعور کس درجہ بلند تھا۔

حد تو یہ تھی کہ مصطفیٰ کمال کے ہاتھوں خلافت کے خاتمے کے کئی سال بعد تک بھی بر صغیر پاک و ہند میں تحریک خلافت زور و شور سے جاری رہی۔ لیکن قائد اعظم اور علامہ اقبال دونوں ہی عملی طور پر اس تحریک سے دور ر ہے۔

قصر دولمہ باہچے دیکھتے ہوئے یہ خیال بھی ستانے لگتا ہے کہ اس خطے کی وہ سادہ لوح مائیں جو مولانا محمد علی اور شوکت علی کی والدہ سے منسوب ترانہ گاتی پھرتی تھیں ”بولیں اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو“ اگر یہ محل دیکھ لیتیں تو ان کا کیا حال ہوتا۔

ان عورتوں کو جنھوں نے اپنے زیور اور گہنے خلافت بچانے کے لیے دے دیے اگر انہیں یہ پتہ چل جاتا کہ خلیفہ کے دولمہ باہچے محل کی محض چھتوں کی سجاوٹ پر چودہ ٹن سونا استعمال ہوا ہے تو ان کا کیا حال ہوتا۔ وہ سادہ مسلمان جو تحریک خلافت کے دوران ہندوستان کو دارالحرب قرار دینے پر افغانستان ہجرت کر گئے، اگر انہیں خبر ملتی کہ جس کے لیے وہ سب کچھ گنوا بیٹھے وہ نیلے پانیوں کے کنارے دو سو سے زیادہ کمروں والے محل میں عیش سے رہتا ہے تو ان کے کیا جذبات ہوتے۔

قصر دولمہ باہچے تو تاریخ کے دھارے میں ایک استعارہ ہے۔ طاقت اور حکومت کے لیے مذہبی عقیدت کا استعمال بہت پرانا ہے۔ طاقت میں دوام کی تمنا، کبھی فرعون سے خدائی کا دعویٰ کرواتی ہے، کبھی شداد کو جعلی جنت بنانے اکساتی ہے، کبھی ابرہہ کو کعبہ کو ڈھانے پر اکساتی ہے، کبھی اہل کلیسا کو باد شاہوں سے لڑواتی ہے اور کبھی خلافت کو ملوکیت میں بدلواتی ہے۔

پس نوشت: وجاہت مسعود صاحب کے مضمون سلطنت عثمانیہ کی تاریخ کا ایک عبرت ناک ورق سے متاثر ہو کر لکھا گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments