‘۔۔۔۔اور سگ آزاد’


بچوں کی فحش تصاویر اور فلمیں بیچنے والا سعادت امین ضمانت پر رہا ہو گیا۔ یہ خبر سن کے جہاں لوگوں نے غم و غصے کا اظہار کیا وہیں انھیں ملک کے قانونی نظام کی پیچدگیوں نے بھی چکرا کے رکھ دیا ہے۔

ہمیں بچپن سے یہ سبق دیا جاتا رہا ہے کہ قانون کو کبھی ہاتھ میں نہ لیں اور یہ کہ قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں۔ مگر جب جب زندگی میں قانون سے واسطہ پڑا، یہ ہی سبق ملا کہ قانون ایک ایسا جال ہے جسے طاقتور تو توڑ کر نکل جاتا ہے اور کمزور اس میں پھنس کر رہ جاتا ہے ۔

بظاہر یہ دو مکالمے ہیں جو دو الگ الگ فلموں کے لیے لکھے ہوئے لگتے ہیں لیکن پاکستانی عوام کی زندگی ایک ایسی فلم بن کر رہ گئی ہے جہاں ایسے مکالمے حقیقت کا روپ دھار کے مجسم شکل میں سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں ۔

سعادت امین نے مبینہ طور پر تیس، چالیس لاکھ پاکستانی روپوں کے عوض مقامی بچوں اور کچھ غیر ملکی سائیٹس سے یہ فحش مواد اکٹھا کر کے وقتاً فوقتاً فروخت کیا۔

قانون کے لمبے ہاتھوں نے آخر کار اسے گرفتار بھی کر لیا اور اسے سزا بھی ہوئی ۔ لیکن دو ہی سال بعد وہ دو لاکھ روپے کی ضمانت پر رہا ہو کے جیل سے باہر آ گیا۔ قانون کا جال توڑنے کے لیے اس کے پاس رقم بھی موجود تھی اور طرار وکیل بھی۔

اتنا بھولا تو اب بھولا بھی نہیں رہ گیا کہ یہ معلوم نہ ہو کہ ہمارا عدالتی نظام کیسے کام کرتا ہے؟

وکیل کے ‘ ہو شیار’ ہونے کا کیا مطلب ہوتا ہے اور فلاں جج ‘آسان’ اور فلاں جج ‘مشکل’ ہے تو ان الفاظ کا مطلب کتنا بلیغ ہوتا ہے یہ ہمارے ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے۔

‘ مشکل’ججوں کو کیسے ہموار کیا جاتا ہے اور اگر وہ مشکل رہنے پہ زور دیں تو انھیں اس کی قیمت اپنی یا اپنے پیاروں کی جان سے بھی چکانا پڑتی ہے اور یہ بھی اب ہماری لوک دانش کا حصہ بن چکا ہے ۔

لوگ کیسے گرفتار ہوتے ہیں، کیسے ضمانت پاتے ہیں، حوالات میں کون ‘ہوا اور لات ‘ دونوں کھاتا ہے اور کون مٹن کڑاہی اڑاتا ہے، یہ ایک پٹی ہوئی کہانی ہے اور ہر شخص نے اتنی بار سنی اور دیکھی ہے کہ اب تو ذکر سے بھی متلی ہوتی ہے ۔

عدالتی نظام کو رونے والے فقط اُس وقت تک اِس کے خلاف ہیں جب تک انہیں ‘ہو شیار وکیل’ اور ‘ آسان جج’ نہیں ملتا۔ جسے کسی معاملے کے درپیش آنے پر یہ دونوں نعمتیں مل جائیں تو وہ یاروں دوستوں میں بیٹھ کے ایک پرشکم بھیڑیے کی طرح عف عفاتا ہے اور قانون کے ساتھ کیے گئے اپنے کامیاب ‘ دنگل’ کی باریک باریک تفصیلات بیان کرتا ہے۔

جو لوگ قانون کی پاسداری کرتے ہیں انھیں پاکستان میں ‘شریف ‘ کہا جاتا ہے اور یہ نہ صرف ایک طعنہ بلکہ دھمکی بھی ہے کہ آپ شریف آدمی ہیں، کہاں تھانے کچہری کے چکر میں پڑیں گے ؟

شریف آدمی خود بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ واقعی تھانے کچہری کے چکر میں نہیں پڑ سکتا۔

قانون کیا ہے ؟ ایک ضابطہ ہے۔ جب آپ اس ضابطے کو مانتے ہی نہیں، آپ کو ان اصولوں کا احترام ہی نہیں تو آپ کو ایماندار جج اور شریف پولیس والے کہاں سے ملیں گے؟

وکالت کا شعبہ کیا بن چکا ہے؟ جج کیسے متعین کیے جاتے ہیں؟ کون لوگ جج کے عہدے تک پہنچتے اور یہ سارا کھیل کبڈی کیا ہے؟ سب روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

عین اسی طرح جیسے ہم نے زندگی کے ہر شعبے کو اپنی گندی عادتوں سے برباد کیا ہے، ویسے ہی ہم نے اپنے عدالتی نظام کو بھی فنا کیا ہے ۔

قانون کے جھول اپنی جگہ لیکن پاکستان کا اصل مسئلہ ہر شخص کی قانون توڑنے کی شدید خواہش ہے۔

سگنل توڑ کے بھاگ جانے والا ، سگنل پہ کھڑے شخص کو بے وقوف سمجھتا ہے، ٹیکس چرانے والا ٹیکس دینے والے کو احمق گردانتا ہے۔

بغیر لائسنس کے دندنانے والا لائسنس بنوانے والے کو گدھا سمجھتا ہے، نقل کر کے، کسی اور سے پرچے دلوا کے، ممتحن کے سر پہ ٹی ٹی رکھ کر نمبر لگوانے والا اپنی محنت کے بل بوتے پر کامیاب ہونے والے کو کمزور تصور کرتا ہے اور اسی طرح یہ فہرست بڑھتی چلی جاتی ہے ۔

ہمارے ملک میں بچوں کے حقوق ہمیشہ ہی سے پامال ہوتے آئے ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مشہور ’دانشور‘ نے ٹی وی پہ بیٹھ کر بتایا تھا کہ انہوں نے کسی مغربی ملک میں اپنے میزبان کے چلبلے بچے کو اس کی غیر موجودگی میں طمانچہ رسید کیا تھا اور پھر وہ بقول ان کے ‘ ٹک ‘ کے بیٹھ گیا تھا۔ ان کی اس ساری گفتگو کا مقصد بچوں پہ تشدد کو نہ صرف فروغ دینا تھا بلکہ اسے ایک قومی فخر بھی ثابت کرنا تھا۔

ایسی قومی رویوں اور ایسے دانشوروں کی تربیت کا فیضان ہے کہ آج ہمارے بچے غیر محفوظ ہیں اور انھیں غیر محفوظ کرنے والے، قانون کا جال توڑ کے بڑے آرام سے دندناتے پھر رہے ہیں۔

آج کا رونا بجا ہے لیکن کل جب مولوی یا استاد کو یہ کہہ کر بچہ حوالے کیا جاتا تھا کہ ‘ہڈیاں ہماری اور ماس تمہارا ‘ تو کبھی کسی نے یہ کیوں نہ سوچا کہ جس کا ماس مولوی کے حوالے کیا جارہا ہے وہ کوئی بھیڑ بکری نہیں ہمارا بچہ ہے ؟

جب آپ بھیڑیے کو گھر کا راستہ دکھائیں گے تو ایک دن وہ اپنا پورا جتھہ لے آئے گا ۔ تب ہائے وائے کا فائدہ؟

اپنے بچوں کو غیر محفوظ نہ کیجیے، آپ کو ان کو کسی کے حوالے کرنے کا کوئی حق نہیں ۔ وہ بے شک آپ کے بچے ہیں لیکن انھیں تمام انسانی حقوق حاصل ہیں۔ کسی نیم پختہ دانشور کی باتوں میں آکر بچوں پہ تشدد نہ کیجیے۔ کسی مجرمانہ سوچ کے شخص کو قانون ہاتھ میں لیتے دیکھ کر خود بھی اسی راستے پہ مت چلیے ورنہ سعادت امین پیدا ہوتے رہیں گے اور اسی طرح ضمانتوں پہ رہا ہوتے رہیں گے۔ فیصلہ عدالت کے نہیں، آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp