انصاف پر مبنی نظام کیسے ممکن ہوگا؟


پاکستان میں اگر ایک منصفانہ اور شفاف نظام کو لانا ہے تو یقینی طور پر اس کی ایک بڑی بنیاد سیاسی، سماجی اور معاشی انصاف پر مبنی نظام ہوگا اور اسی بنیاد پر ہم ایک مہذہب اور ذمہ دار معاشرہ کے تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں۔ جو بھی معاشرہ انصاف کے نظام کے تناظر میں برابری یا عدم تفریق کی بجائے طبقاتی بنیادوں پر انصاف کا نظام قائم کرے گا تو ان معاشروں کی کوئی سیاسی، اخلاقی اور قانونی ساکھ نہیں ہوتی۔ اس طرز کے معاشروں میں ریاست، حکومت، سماج اور قانونی اداروں کے درمیان ایک بڑی خلیج اور بداعتمادی کے سائے گہرے ہوتے ہیں او رلوگ اداروں سے انصاف کی توقع رکھنے کی بجائے خود سے انصاف کرنا چاہتے ہیں۔ انصاف کی بنیاد اگر طبقاتی، سیاسی سمجھوتوں، اقراپروری پر مبنی کھیل، طاقت ور او رکمزور پر کھڑی ہوگی تو عدل پر مبنی معاشرہ بہت پیچھے چلاجاتا ہے۔

حال ہی میں سپریم کورٹ کے ایک معزز جج نے ریمارکس دیے کہ ”ملک میں نظام عدل تقریباً ختم ہوچکا ہے۔“ جو ایک بڑے نکتہ کی طرف ہم سب کو متوجہ کرتا ہے کہ انصاف کا نظام کہاں کھڑا ہے۔ عمومی طور پر ہم پاکستان میں انصاف کے نظام پر عوامی یا اہل دانش سمیت رائے عامہ کو بنانے والے افراد یا اداروں کی رائے لیں تو سب انصاف کے نظام پر سوال اٹھاتے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر میڈیا میں ہمیں ایسی خبریں جن میں عدم انصاف کی دردناک یا ظلم سے بھری کہانیاں سننے یا پڑھنے کو ملتی ہیں تو یقینی طور پر کوفت ہوتی ہے کہ لوگوں کو حصول انصاف کے لیے کن بڑی مشکلات اور مظالم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

خاص طور پر دو طرح کا انصاف کا نظام جو طاقت ور او رکمزور کے درمیان مختلف ہوتا ہے وہ خود بڑا تکلیف دہ امر ہے۔ سستا اور فوری انصاف بظاہر ایسا لگتا ہے کہ محض ایک خواہش یا خواب بن کر رہ گیا ہے یا یہ ریاست اور حکومت کی بڑی ترجیحات کا حصہ نہیں ہے۔ عالمی جسٹس منصوبہ کی حکمرانی اشاریہ 2017۔ 18 میں عام آدمی کو انصاف کی فراہمی کے تناظر میں ہم گلوبل سطح پر 113 ممالک میں 105 پر موجود ہیں جبکہ علاقائی سطح پر ہم چھ ممالک میں سب سے آخری نمبر پر ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں چالیس ہزار، پانچو ں ہائی کورٹ میں تین لاکھ اور لوئر عدالتوں میں بیس لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں جو انصاف کی تاخیر کا عملی سبب بنتے ہیں اور فوی انصاف ممکن نہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ انصاف کا نظام اگر ختم ہوتا جا رہا ہے تو اس کا کوئی ایک فریق نہیں او رنہ ہی کسی ایک پر ذمہ داری ڈال کر ہم مسئلے کی اہمیت کو کم کر سکتے ہیں۔ یہ ایک مجموعی ناکامی ہے جو ہمارے سیاسی، انتظامی، معاشی، قانونی اور سماجی نظام سے جڑی ہوئی ہیں او راس میں افراد اور ادارے دونوں کسی نہ کسی شکل میں شامل ہیں۔ اگر ہم نے اپنے مجموعی انصاف کے نظام کو سمجھنا یا پرکھ کر بہتری کی طرف پیش قدمی کرنی ہے تو یہ کام کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگا۔

ہر فریق کو اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا اور کچھ غیر معمولی صورتحال کے پیش نظر کچھ غیر معمولی ہی اقدامات کی طرف پیش قدمی کرنی ہوگی۔ یہ کام ایک بڑی مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ جو بگاڑ ہے وہ کوئی معمولی بگاڑ نہیں بلکہ ایک بڑے مرض کی طرف توجہ دلاتا ہے او ریہ درستگی روایتی طریقوں سے ممکن نہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارے انصاف کے نظام سے جڑے تمام فریقین جن میں سیاسی، انتظامی او رقانونی افراد یا ادارے شامل ہیں وہ کیونکر ایک بڑی اور غیر معمولی جوڈیشل ریفارمز کی طرف نہیں جاتے۔ کیا ان میں صلاحیت کا فقدان ہے یا ان کی ترجیحات وہ نہیں ہے جو ہم دیکھنا اور سمجھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے اپنے انصاف سے جڑے نظام میں جو بڑے پیمانے پر سیاسی بنیادوں پر مداخلتوں کا کھیل کھیلا ہے وہ بھی ایک بڑے بگاڑ کا سبب بنا ہے۔

خاص طور پر ہماری لوئرعدالتی نظام میں بڑے پیمانے پر عام و کمزور طبقات کو استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک بڑا مسئلہ تو ہماری پولیس اور اس سے جڑا تفتیش کا نظام ہے۔ جب تفتیش کے نظام میں ہی بڑا بگاڑ موجود ہوگا اور اس کی بنیاد ہی طبقاتی ہوگی تو اس تفتیشی نظام میں ہماری عدالتیں کیا انصاف کرسکیں گی۔ ہمارے انصاف کے نظام میں بہتری عدالتی نظام کے ساتھ ساتھ پولیس او رتفتیش کے نظام میں بڑی اصلاحات یا غیر معمولی تبدیلیوں سے جڑی ہوئی ہے۔ اسی طرح کمزور عدالتی نظام کے باعث ہماری بری حکمرانی اور عدم معیشت کا شفاف نظام بھی سامنے آتا ہے جو مزید مسائل میں اضافہ کرتا ہے۔

لیکن یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ جہاں ہماری سیاسی قیادت کی ترجیحات میں انصاف کے نظام کو مضبوط کرنے میں کمزوری نظر آتی ہے وہیں ہمارا عدالتی نظام بھی کچھ غیر معمولی کام کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ اگر ہمارا عدالتی نظام اپنے داخلی محاذ پر کچھ بہتری پیدا کرنا چاہے تو بہت کچھ ان حالات میں بھی ہمیں بہتر تصویر دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ اصلاحات کے تناظر میں ہمیں چھ بنیادی باتوں پر توجہ دینی ہوگی۔ اول عدالتی نظام کو ہمیں فوری طو رپر Digitalize کرنا ہوگا اور خاص طو رپر لوئر عدالتی نظام کو۔

دوئم ہمیں اوپر سے لے کر نیچے تک ججز کی تقرری کے نظام کو اور زیادہ منصفانہ، شفاف بنانے کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ سوئم عدلیہ میں موجود ججز او راسی طرح وکلا کی جدیدیت کی بنیاد پر او ردنیا میں آنے والی نئی تبدیلیوں، طریقہ کار پر تربیت کے نظام کو موثر بنانا ہوگا۔ چہارم سیاسی مداخلتوں کے خاتمہ کے لیے ایک داخلی جامع پلان او راس میں شفافیت کے عمل کو پیدا کرنا۔ پنجم بار ایسوسی ایشن میں اصلاحات اور اس تاثر کی نفی کرنا کہ وکلا تنظیمیں بھی عدالتی ریفارمز میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں۔ ششم ججز کو ایسے پاپولر بیانات کی نفی کرنا ہوگی جو عدالتی نظام کی شفافیت کو خراب کرنے کا سبب بنتی ہیں او راپنے داخلی نظام میں مربوط خود احتسابی کے نظام کو وضع کرنا ہوگا۔

سیاسی جماعتیں اور خاص طور پر وہ جماعتیں جو پارلیمانی سیاست کا حصہ ہیں ان کو بھی انصاف کے نظام کے تناظر میں اپنے مجموعی کردار کو کافی حد تک تبدیل کرنا ہوگا۔ روایتی سیاسی او رپارلیمانی نظام کی بنیاد پر کچھ تبدیل نہیں ہوگا او رجب تک اقتدار میں شامل سیاسی جماعتیں خود اپنے داخلی نظام کو سیاسی او رجمہوری بنیادوں پر مضبوط نہیں کریں گی اصلاحات اول ہوں گی نہیں او راگر ہوئی بھی تو ان پر عملدرآمد کا نظام موثر نہیں ہوگا۔

بدقسمتی سے پارلیمنٹ عدلیہ کو اور عدلیہ پارلیمنٹ یا حکومت پر الزام لگا کر اپنا اپنا دامن بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پولیس اور تفتیش کے نظام میں بھی اصلاحات کا عمل سیاسی سمجھوتوں کا شکار نظر آتا ہے۔ ہماری سول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں، میڈیا، اہل دانش، بارایسوسی ایشن، رائے عامہ بنانے والے افراد سمیت پالیسی سازوں میں انصاف کو منصفانہ اور شفاف بنانے کے لیے ایک بڑے سنجیدہ مکالمہ کی عملی طور پر ضرورت ہے۔ ہمیں الزام تراشیوں کی بجائے اصلاح کے پہلو وں کو تلاش کرنا ہے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ کہاں مسائل نئی قانون سازی، پہلے سے موجودقانون سازی میں مزید اصلاحات یا عملدرآمد کے نظام میں موجود رکاوٹوں سے دور کیے جا سکتے ہیں، ایک روڈ میپ تیار کرنا ہوگا۔

ہمیں دنیا میں ہونے والے انصاف کے نظام سے بھی سیکھنا ہوگا کہ وہاں کیا تبدیلیاں آ رہی ہیں او رکون سی ایسی اصلاحات ہیں جن کی مدد سے ان کے نظام میں انصاف کے نظام کو تقویت ملی ہے۔ ہمارے سول سوسائٹی کے معروف دوست اور صحافی ارشد رضوی اس وقت مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو اس نکتہ کی طرف لانا چاہتے ہیں کہ ہمیں ایک نکاتی ایجنڈے کے تحت ”انصاف کے نظام کو موثر اور شفاف“ بنانے پر ایک علمی، فکری اور واچ گروپ کے طور پر کام کرنا ہوگا۔

ارشد رضوی کی بات میں وزن ہے کیونکہ جب تک ہم اپنے ریاستی، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام میں علمی و فکری بنیادوں پر ایک بڑے دباؤ کی سیاست کو پیدا نہیں کریں گے، نظام کی اصلاح ممکن نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ انصاف کے نظام کو یقینی بنانے کے لیے مختلف فریقین کے درمیان مکالمہ کون کرے گا او راس کے خدوخال کیا ہوں گے ، اس پر غور ہونا چاہیے۔ ہماری اپنی کوششیں بنیادی طور پر ماضی کے ماتم کی بجائے مستقبل کی طرف ہونی چاہیے۔

جمہوریت اور قانون کی بالادستی کی جنگ اگر ہم نے جمہوری دائرہ کار میں لڑنی ہے تو ہماری توجہ کا مرکز سیاسی، قانونی اور انتظامی اصلاحات ہی ہو سکتی ہیں۔ لیکن اس کے لیے ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ درکار ہے او ریہ ہی کمٹمنٹ ایک بڑے سیاسی اور قانونی ماحول کو پیدا کرے گا جو ایک موثر تبدیلی کے امکانات کو روشن کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments