ارطغرل غازی


ترکی کے عالمی شہرت یافتہ ڈرامے ارطغرل غازی کا ذکر میں ایک عرصہ سے سن رہی تھی مگر کبھی اس میں خاص دلچسپی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ یکم رمضان المبارک سے پی ٹی وی ہوم پر وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر یہ ڈرامہ اردو زبان میں نشر کیا جا رہا ہے اس سے قبل اپنے قائد و مرشد طاہرالقادری صاحب کا ارطغرل غازی کے بارے بیان سنا کہ وہ کون تھے اور تاریخ میں ان کا کیا کردار تھا۔ اس کے بعد ڈرامہ دیکھنا مجھ پر واجب ہوچکا تھا۔ یوں میرا یہ سفر جاری ہوا۔

اس عظیم ڈرامہ سیریل کی شہرت کا یہ عالم ہے کہ اسے 146 ممالک میں ڈبنگ کے ساتھ دیکھایا جا رہا ہے اور ہالی وڈ کے کئی شہرہ آفاق سیزنز کو اس نے مقبولیت میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ تاہم جہاں محبت کرنے والے افراد ہوتے ہیں وہیں مخالفین بھی ہمیشہ صف آرا ضرور ہوتے ہیں اس لئے اس ڈرامہ کے ناقدین کی تعداد بھی کثیر ہے۔

کہا جا رہا کہ مسلمانوں میں اسے دیکھنے کے بعد شدت پسندی اجاگر ہو رہی ہے۔ ایک خبر کے مطابق سعودی عرب اور انڈیا میں ڈرامہ بند کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی اس کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کیا جا چکا ہے مگر یہ تمام تر کوششیں ڈرامے کا جنون رکھنے والوں کے دلوں میں بے سود ثابت ہوئی ہیں۔

لاک ڈاؤن کے دوران فرصت کے طویل لمحات میں، میں نے سیزن 1 چند ہی دنوں میں ختم کر لیا۔ ۔ ۔ ذہن میں رہے اس ڈرامے کے پانچ سیزن پیش کیے جاچکے ہیں اور ہر سیزن کی اقساط ساٹھ ستر کے لگ بھگ ہیں اور ان کا دورانیہ بھی پنتالیس منٹ ہے۔ ۔ ۔ اس ڈرامہ کو دیکھنے کے بعد مجھے ان چند لوگوں پر بے حد دکھ اور افسوس ہوا جو خوامخواہ میں اس پر اعتراضات اٹھا رہے تھے کہ ترک ڈرامہ اردو میں کیوں نشر کیا جا رہا ہے۔ یا اس کا مقصد اسلام کے نام پر ذہن سازی کرنا ہے۔

ایک نکتہ نظر یہ بھی ہے کہ اسلامی تاریخ کا چورن بیچ کر پیسہ کمایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار اعتراضات اور بھی کیے جا رہے ہیں۔ ڈرامہ دیکھنے کے بعد سوچا کہ بطور لکھاری اپنی رائے بھی مجھے سب کے سامنے رکھنی چاہیے۔ لہذا آزادی اظہار اپنا حق سمجھ کر میں بھی اس پر بات کرنے ذہن بنا چکی تھی۔ اسی وجہ سے پورا سیریل مکمل توجہ اور دلچسپی سے دیکھا تاکہ اپنا نکتہ نظر فصاحت کے ساتھ بیان کیا جا سکے۔

اس ڈرامہ پر کیے جانے والے تمام الزامات مجھ کو قریب قریب بے سروپا معلوم ہوئے۔ تاریخ لکھنا پڑھنا ایک الگ چیز ہے جبکہ تاریخ دیکھانا ایک الگ عمل۔ بلاشبہ ترکوں کی یہ کوشش اور محنت خوب رہی ہے۔

ڈرامہ اپنے قاری کو حقیقی مناظر میں گھوڑوں اور تلواروں سے مزین آٹھ سو سال پہلے کے ترکی میں ہی لاکھڑا کرتا ہے۔ انسان خود کو چند لمحوں کے لیے تاریخ کا ایک حصہ ہی سمجھ کر تاریخ میں گم ہو جاتا ہے۔

نوجوان نسل کے لیے تاریخ پڑھنا شروع سے ایک مشکل کام رہا ہے۔ تاہم نوجوانوں کو اپنے تابناک اور روشن ماضی کے ہیروز کو ڈرامائی شکل میں پیش کرنا ترکی کا احسن عمل ہے۔ بہت بڑا طبقہ خلافت عثمانیہ سے تو واقف تھا مگر اس قدر گہرائی میں جانا ارطغرل کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ وہ نوجوان نسل جو ارطغرل کی الف سے بھی واقف نہ تھی آج ترک کے اس سنہری دور کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے اور ارطغرل کا نام زبان زدعام ہے۔

ہر انسان اپنی رائے میں آزاد ہے۔ میں نے اپنے تئیں اس ڈرامہ سے بہت کچھ سیکھا اور سمجھا ہے۔ میں نے اس ڈرامہ کی رعنائیوں اور خوبصورتیوں سے پرے اس کے پیچھے چھپی تلخ حقیقت اور سبق کو دیکھنے کی کوشش کی ہے۔

یہ ڈرامہ بناتے وقت ترکیوں کو بھی اندازہ نہیں ہوگا کہ یہ ڈرامہ اس قدر مقبول بھی ہو سکتا ہے لہذا ہم اس بات کو سختی سے رد کرتے ہیں کہ اس کے پیچھے گھناؤنے مقاصد ہیں۔ خیر مقاصد جو مرضی رہے ہوں کم از کم برے نہیں ہوسکتے۔ جہاں پوری دنیا کی فلم انڈسٹریز خاص کر ہالی وڈ اور بالی وڈ اپنی اپنی تاریخ اپنے نوجوانوں کو پیش کرتی ہیں۔ اسی طرح اگر ترکوں نے اسلامی ہیرو پر ڈرامہ بنایا ہے تو اس کو بھی صبر سے برداشت کر کے دیکھنا چاہیے۔ ۔ ۔ اگر انڈیا مغل بادشاہوں کی تاریخ اوراپنے دیوتاؤں کی کہانیاں دکھا سکتا ہے۔ اگر ہالی وڈ جنگ عظیم کے روح فرسا واقعات فلما سکتا ہے تو مسلمان اسلام کے غازی پر ڈرامہ کیوں نہیں بنا سکتے جس نے صلیبیوں اور منگولوں سے بھرپور جنگ کی اور فتح یاب ٹھہرا۔ ۔ ۔

بحث سے پرے میں نے اس ڈرامہ کو دیکھ کر بہت سبق حاصل کیے بہت کچھ سیکھا۔ اس کو دیکھتے ہوئے اسلام کا عظیم دور بار بار آنکھوں کے سامنے پایا۔ میں نے سیکھا کہ کیسے مسلمانوں کو دشمن تب تک نقصان نہیں پہچا سکتا جب تک مسلمانوں میں چھپے منافقین ان کی مدد نہ کریں۔ ان دوغلے غداروں کی اندورنی سازشوں کی وجہ سے ہی ہر دور میں مسلمان آپس میں دست و گریبان ہو کر کمزور ہوئے ہیں۔ غیروں سے کہیں زیادہ نقصان اپنوں کی لالچ، ذاتی مفاد، اور ہوس اقتدار نے پہنچایا ہے۔ مسلمانوں کی عظیم عمارت ہمیشہ اپنوں نے کھوکھلی کی ہے۔

میں نے دیکھا کہ کس طرح صلیبی اپنے محلوں میں بیٹھے بیٹھے حکم صادر کرتے ہیں اور اسلامی ممالک میں ہلچل سی مچ جاتی ہے ہم نے دیکھا غیر مسلم، کس طرح مسلم ممالک میں اپنی مرضی کے حکمران لانے کے لیے کیا کیا سازشیں کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ مسلمانوں کا روپ لے کر ان کے درمیان آنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ اپنی عورتوں سے بھی غلیظ کام کرواتے ہوئے شرماتے نہیں۔ ۔ ۔

میں نے دیکھا تین بڑے مذاہب یہود عیسائی اور مسلمانوں کے لیے یروشیلم شہر کس قدر مقدس ہے اور تینوں ہی اسے حاصل کرنے کے لیے مدمقابل آتے رہے ہیں۔ میں نے دیکھا مسلمانوں کے لیے ان کی روایات کتنی اہم ہیں وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے نہیں گھبراتے اور کسی بھی مہمان کا خیال اپنی جان سے بڑھ کر کرتے ہیں۔ ۔ ۔

اس ڈرامے کو دیکھتے ہوئے ہمارے ذہن میں صرف ایک ہی خیال بار بار گردش کرتا رہا کہ اگر ارطغرل اتنا بہادر جانباز تھا تو اسلام کے خلیفہ دوم فاروق اعظم رضہ کتنے بہادر ہوں گے۔ جن کے نام سے ہی قیصر و کسری کے دور و دیوار لرزنے لگتے تھے۔ اگر ارطغرل غازی کی تلوار ایک لمحے میں دس کافروں کو جہنم واصل کرتی تھی تو سوچیں مولا کائنات جناب علی مرتضیٰ کی تلوار ذوالفقار کا کیا عالم ہوگا۔ جس کے ایک ہی وار سے خیبر میں یہودی مرحب کا کام تمام ہوگیا تھا۔ اگر ارطغرل ایسا شہ زور جنگجو تھا تو اسلام کے عظیم جرنیل اور فاتح حضرت خالد بن ولید رضہ کی کیا شان ہوگی۔

ڈرامے کو دیکھتے ہوئے میں اپنے خیالات اور تصوارت میں ہی اللہ کے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اکرام کی جماعت کی بہادری اور جانبازی کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتی رہی کہ اگر ارطغرل اپنی حکمت عملی اور بہادری سے دشمنوں پر اکیلا ہی بھاری ہوتا تھا تو غزوہ احد میں آپ کے چچا حضرت حمزہ کی پامردی کا کیا عالم ہوگا جو اکیلے ہی دشمن کی صفیں الٹتے چلے جاتے تھے اور سرخ پٹی والے حضرت ابو دجانہ رضی بھی اکیلے کفار کی صفیں درہم برہم کرتے اور انہیں جہنم واصل کرتے جاتے تھے۔

ہم نے یہاں صرف ڈرامے کے ہیرو ارطغرل ہی پر نظریں نہیں مرکوز رکھیں بلکہ دیگر کرداروں کا بھی بھرپور تجزیہ کیا۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح ارطغرل کے ساتھی اس کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔ ایسی جانثاری دیکھ کر ہمیں غزوہ احد کا وہ واقعہ یاد آنے لگا جب جیتی ہوئی جنگ کا پانسہ اچانک سے اس وقت پلٹا تھا جب مسلمان تیر اندازوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی تھی اور کفار نے مسلمانوں کی اس غلطی سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں چاروں طرف سے اپنے گھیرے میں لے لیا تھا ایسے نازک ترین لمحوں میں آقا علیہ السلام کی زندگی کو شدید خطرہ لاحق ہوگیا تھا اور اس وقت عشرہ مبشرہ میں شامل جان نثار صحابی حضرت طلحہ بن عبیداللہ نے اکیلے محبت و عظمت کی مثال قائم کرتے ہوئے اپنے محبوب آقا کی جان کی حفاظت کی تھی اور ان نازک لمحات میں صحابی رسول اپنی زندگی پر کس طرح محبوب خدا کی زندگی کو ترجیح دیتے تھے۔

ہم نے دیکھا کہ کس طرح کائی قبیلے کے سردار سلیمان شاہ کے بھائی کرتوگلو نے اپنے ہی بھتیجوں کے خلاف سازشیں کیں یہ سب دیکھ کر ہمیں سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ابو لہب یاد آیا جس نے آپ کو اذیتیں دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ صلیبیوں کا خاص آدمی طیتس جب جب مسلمانوں کا بہروپ اپنا کر ابو ہشام بن کر ان کے بیچ آ موجود ہوتا مجھے تب منافقوں کا سردار عبداللہ بن ابی یاد آتا تھا جو صبح کو مسلمان اور رات کو یہودی ہوتا تھا۔ ۔ ۔ میں نے دیکھا کہ اسلام نے عورت کو کتنی عزت بخشی ہے کہ وہ اپنے مردوں کے جنگ کے ایام میں بہادری سے ان کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہیں۔

جہاں دھوکہ دہی دیکھی جہاں غدار دیکھے جہاں سازشوں کے جال در جال دیکھے وہاں میں نے مہاجر اور انصار کی طرح مسلمانوں میں بھائی چارہ کوٹ کوٹ کر بھرا دیکھا۔ ایک دوسرے پر جان نچھاور کرتے مسلمان بھی دیکھے۔ اللہ کی راہ میں اپنے پیاروں کو قربان کر کے سجدہ شکر کرتے مسلمان بھی دیکھے۔

دوسری جانب دنیاوی اسباب اور طاقت کے نشہ میں چور صلیبی آپس میں ہی ایک دوسرے کے خلاف اپنے اپنے دلوں میں بغض پالتے دیکھے۔ میں نے دیکھا کہ کس طرح حلب کے امیر العزیز کی عیاشیوں اور غفلت کے باعث اس کا شہر صلیبیوں کے ہتھے چڑھ گیا تب مجھے سمجھ آیا مسلمانوں پر صرف زوال کی ایک وجہ عیاش حکمران ٹولہ رہا ہے۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ صلیبی ہاتھ آئے قیدیوں کے ساتھ کیسا وحشیانہ سلوک کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب مسلمان قیدیوں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آتے ہیں۔

میں نے دیکھا کہ اسلام دشمن عناصر شروع سے تعداد مال و اسباب میں مضبوط تھے جبکہ دوسری جانب مسلمان خانہ بدوش ہمیشہ سے غریب چرواہے رہے ہیں جن کے دلوں میں ایمان کی شمع کے سوا کچھ نہیں رہا۔ مسلمانوں کی یہی ایمانی طاقت دشمن پر ہیبت بٹھاتی ہے۔ جس طرح غزوہ بدر کے موقع پر مسلمان اپنی تمام تر ظاہری اسباب کی کمزوی کے باوجود متبکر کفار قریش پر غالب آئے تھے۔

ڈرامے کا سب سے اہم اور خاص کردار ابن العربی ہیں جو اندلس سے خاص ارطغرل کی مدد کو آئے تھے۔ وہ تاریخ میں ایک روحانی بزرگ کے طور پر گزرے ہیں جنہوں نے قرآن کی تفسیر بھی لکھی تھی اور ارطغرل کی دو بار جان بھی بچائی تھی ان کی سبق آموز باتیں اور موقع کی مناسبت سے پیغمبروں اور صحابہ کرام کے قصے سنانا ڈرامہ کو چار چاند لگاتے ہیں۔ ۔ ۔

اعتراض کرنے والے تو کہتے رہیں گے کہ ڈرامہ کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں یا تاریخ میں ان کرداروں کا کوئی خاص ذکر نہیں ملتا یہ سب فکشن کے سوا کچھ نہیں تو ان کی اطلاح کے لیے عرض ہے آپ کی بات سر آنکھوں پر مگر جس طرح ترکی والوں نے پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی صحیح تصویر پیش کی ہے ہمیں صرف اس سے غرض ہونی چاہیے۔

ہر طرح کی لاحاصل بحث سے پرے بس یہ دیکھیں کہ ہماری اصل روایات کیا تھیں اور اب آج کا مسلمان کہاں کھڑا ہے اسی بہانے موجودہ صورت حال کی بھی اچھے سے سمجھ آ جائے گی اگر یہ بھی نہیں تو کم از کم آپ کو یہ سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ اس وقت کا انسان کس طرح محنت مشقت کر کے زندہ رہتا تھا خاص کر وہ مسلمان خانہ بدوش جو گرمی ہو یا سردی کھلے آسمان تلے خیموں میں رہتے تھے۔ اگر سیکھنے اور سمجھنے کی غرض سے ڈرامے کو دیکھا جائے تو اس میں بہت کچھ ہے۔

یوں بھی ہر کہانی یا ڈرامہ چاہے وہ فکشن ہو یا حقیقت کچھ نہ کچھ نیا دیکھنے کو ضرور اس میں ملا کرتا ہے اگر آپ یہ بھی نہیں کر سکتے تو محض تفریح کے کیے اسے اسی طرح دیکھیں جیسے ہندی ڈرامے یا انگلش سیزن دیکھتے ہیں۔ اس کو دیکھیں اور اس کے بعد کسی بھی مروجہ ادبی پیمانے پر بھی اگر چاہیں تو اس کا مقابلہ کسی بھی انگریزی یا دوسری زبان کے ڈرامہ یا سیزن سے کریں۔ مجھے یقین ہے کردار نگاری منظر نگاری، مکالمے، ہدایت کاری، اداکاری الغرض کسی بھی شعبہ میں مایوسی نہیں ہوگی۔ آخر میں بس یہی کہنا ہے کہ۔ ۔ ۔

اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے دل جلا کے سر عام رکھ دیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments