وزیراعظم کو غلط معلومات فراہم کی جا رہی ہیں


کورونا کے باعث لاک ڈاؤن کے دوران انفرادی، اجتماعی کاروبار ٹھپ ہوچکا ہے، جبکہ قومی اور بین الاقوامی معیشتیں ہل کر رہ گئی ہیں۔ ایک طرف کرونا کا خوف ہے تو دوسری طرف کروڑوں کی آبادی کو بھوک سے بچانے کی فکر دامن گیر ہے۔ ایسی صورتحال میں جس طرح پوری دنیا میں ”ایس او پیز“ کے تحت آہستہ آہستہ لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی، اسی طرح پاکستان میں بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے معیشت کی بحالی کے لئے اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں، جیسا کہ پہلے مرحلے میں محدود پیمانے پر کاروبار کی اجازت دی گئی، بعض صنعتوں کو چلانے کے لئے ”ایس او پیز“ بنائے گئے، اسی طرح ملک بھر میں چار دن مقررہ اوقات کے اندر دکانیں کھولنے، کاروبار کرنے کی اجازت دی گئی۔

اسی طرح اب اندرون ملک فضائی آپریشن بھی جزوی طور پر بحال ہو چکا ہے، پبلک ٹرانسپورٹ بھی چلانے کا فیصلہ ہوچکا ہے، تاکہ ایک طرف کرونا جیسی وبا کا خوف کم ہو تو دوسری طرف معیشت کا پہیہ چلے، کیونکہ پاکستان سمیت پورے جنوبی ایشیا کے ملکوں کو 142 سے 218 ارب ڈالر نقصان کا خدشہ ہے۔ ظاہر ہے بین الاقوامی معیشت کے خسارے کے اثرات ملکوں اور قوموں پر پڑیں گے تو اس سے نچلی سطح کے لوگ بری طرح متاثر ہوں گے اور خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ ہو جائے گا۔

عام آدمی کے لئے دو وقت کی روٹی اور مشکل ہو جائے گی تو ایسی صورتحال میں معیشت کا پہیہ چلانے اور کاروباری زندگی کی بحالی کے لئے حکومتی اقدامات یقیناً قابل ستائش ہیں، تاہم حفاظتی نکتہ نظر سے احتیاطی اقدامات کی پابندی عوام پر فرض ہے، تاکہ کرونا وائرس کے دوران بھی کاروبار زندگی چلایا اور قومی معیشت کو استحکام کی منزل کی جانب گامزن کیا جاسکے۔

اس میں شک نہیں کہ کورونا کی عالمی وبا سے جلد نجات کے امکانات معدوم ہونے کے باعث ضروری ہوگیا ہے کہ غیر معینہ مدت تک لاک ڈاؤن اور سارا کاروبار زندگی معطل رکھنے کے بجائے انسانی برادری معمولات زندگی بتدریج بحال کر کے اس وائرس کے ساتھ ہی رہنا سیکھے۔ وزیراعظم بھی بار ہا اس حقیقت کی بالکل درست نشاندہی کرتے رہے ہیں کہ ہماری معاشی صورتحال لامتناہی لاک ڈاؤن کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ حکومت لاک ڈاؤن متاثر ین کے لئے دولت مند ملکوں کے ہزاروں ارب ڈالر کے مقابلے میں صرف آٹھ ارب ڈالر کا پیکیج دے سکی ہے، جبکہ ہمارے ہاں متاثرین کی تعداد پندرہ کروڑ ہے، اتنی بڑی تعداد میں متاثرہ خاندانوں کو آخر کب تک بارہ ہزار روپے پہنچائے جا سکتے ہیں۔

وزیراعظم کورونا وبا کے آغاز ہی سے جو بات کہتے چلے آ رہے ہیں، حالات نے اسے پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کے حوالے سے درست ثابت کر دیا ہے اور اب انتہائی با وسائل ممالک بھی وائرس کی موجودگی کے باوجود زندگی کی سرگرمیاں از سرنو شروع کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ پاکستان میں بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ضروری احتیاطی تدابیر کے ساتھ کاروبار زندگی بحال کیا جائے۔

یہ امر اطمینان بخش ہے کہ لامحدود لاک ڈاؤن کے بجائے کورونا کے ساتھ رہنے کے عمل کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے۔ تحریک انصاف حکومت ایک طرف تو کورونا جیسی وبا کے ساتھ رہنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے، جبکہ دوسری جانب اپنی مدت کا نصف مکمل کرنے کے باوجود ابھی تک بیوروکریسی کو کنٹرول کرنے میں کامیاب دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ افسر شاہی کی من مانیوں کا یہ عالم ہے کہ وفاقی کابینہ سے ایسے معاملات کی منظوری بھی لینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جس کی ذمہ داری وزیراعظم سمیت کابینہ کا کوئی رکن قبول کرنے کو تیار نہیں، اقلیتی کمشن کا معاملہ اس کی تازہ مثال ہے۔

حکومتی رٹ کے حوالے سے اس سے بڑا مذاق بھلا اور کیا ہو سکتا ہے کہ وزیراعظم اور وزراء کے علم میں لائے بغیر من پسند افراد کو نہ صرف تعینات کیا جا رہا ہے، بلکہ رپورٹ طلب کرنے پر وزیراعظم کو غلط معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وزیراعظم کی طرف سے تمام ڈویژنز کے سیکرٹریوں کو فراہم کردہ معلومات کے درست ہونے کا اقرار نامہ اپنے دستخط کے ساتھ جمع کروانے کا نہ کہا جاتا۔ وزیراعظم نے خلاف ضابطہ تعیناتیوں سے متعلق گمراہ کن رپورٹ کا نوٹس لیا ہے، بہتر ہو گا کہ وزیراعظم ماضی میں خلاف ضابطہ سرگرمیوں میں ملوث ذمہ داران کے خلاف بھرپور قانونی کارروائی کریں، تاکہ مستقبل میں کوئی وزیراعظم کو اس طرح دھوکہ دینے کی کوشش نہ کر سکے۔

تحریک انصاف حکومت تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی، مگر اقتدار کا نصف عرصہ گزرنے کے باوجود عوام حقیقی تبدیلی کے منتظر ہیں، حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس کورونا کی صورتحال پر بحث کے لیے طلب کیا گیا جو پورا ہفتہ چلتا رہا، لیکن کچھ حاصل نہ ہوسکا، اجلاس کی کارروائی حکومت اور حزب اختلاف میں لفظی جنگ کی نذر ہو گئی، ان اجلاس میں نہ خود وزیراعظم شریک ہوئے اور نہ ہی قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے اپنا چہرہ دکھایا۔

قائد حزب اختلاف تو شاید کسی خوف کے مارے نہیں آئے، لیکن وزیراعظم عمران خان کو تو ضرور آنا چاہیے تھا کہ یہ ان کی ذمے داری ہے۔ عمران خان نے اپنے منصب کا حلف لینے کے بعد اعلان کیا تھا کہ وہ اجلاسوں میں نہ صرف شرکت کیا کریں گے، بلکہ ہر ہفتے سوالوں کے جواب بھی دیا کریں گے، مگر افسوس وہ ہفتہ کبھی نہیں آیا کہ جب عمران خان ارکان قومی اسمبلی کے سامنے جوابدہ ہوں۔ قومی اسمبلی کا حالیہ اجلاس آپس میں جھگڑے اور شور شرابے کی فضا میں غیر معینہ مدت تک ملتوی ہو گیا، سینیٹ کے اجلاس میں بھی قومی اسمبلی جیسے ہی مناظر دیکھنے کو ملے، دونوں ایوان کے اجلاس میں سیاسی جگت بازی کے سوا کچھ نہیں کیا گیا، اس جگت بازی میں حکمران اور اپوزیشن ارکان نے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا، اس طرز عمل سے دونوں کی سنجیدگی کے معیار کو بخوبی پرکھا جاسکتا ہے۔

یہ ہماری قوم کے رہنما ہیں، انہوں نے ہی عوام کو کورونا سمیت دیگر مسائل سے نجات دلانا ہے، جبکہ ان کے غیر سنجیدہ رویے کا یہ عالم ہے کہ اگر ایوانوں میں کچھ کسر باقی رہ جائے تو وہ شام کو ٹی وی چینلوں پر پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں بظاہر اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ کورونا وبا کا مقابلہ ایک قوم بن کر کرنا چاہیے، لیکن اس کے لیے عملاً کوئی تیار نہیں ہے۔ کورونا وبا سے متحد ہو کر لڑنے کے بجائے آپس کی جنگ اور وفاق کی توپوں کا رخ سندھ کی طرف کرنے سے کیا یکجہتی پیدا ہو سکتی ہے۔

حزب اقتدار کا عجب وتیرہ ہے کہ کچھ عرصے بعد نیب کیسز عوام کے سامنے کھولے جاتے ہیں، بڑی گرفتاریاں بھی ہوتی ہیں، بلا امتیاز احتسابی عمل کا نعرہ بھی لگایا جاتا ہے، مگر سزا و جزا کا عمل پورا نہیں ہو پا تا اور پکڑے جانے والے مجرم ضمانتوں پر رہائی پا کر وکٹری کا نشان بناتے ہوئے بیان بازیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ حزب اختلاف کا مطالبہ اپنی جگہ درست ہے کہ حکمران جماعت میں بیٹھے بدعنوان عناصر کا احتساب ہو نا چاہیے، لیکن پہلے اپنا حساب تو دیں، یہ حربہ بہت پرانا ہو چکا ہے کہ دوسرے بھی تو چور ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن چور مچائے شور کی ڈگر پر لگی ہے، جبکہ احتساب، بدعنوانی کی روک تھام، مہنگائی پر قابو اور اب کورونا وبا کی روک تھام کے حوالے سے کہیں کوئی واضح پالیسی نظر نہیں آرہی، ایسا لگتا ہے کہ اب ہمیں کورونا اور کرپشن کے ساتھ مل کر ہی رہنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments