امریکا کے انتخابی نتائج، پاکستانیوں کے لئے دلچسپ اشارے


\"omairامریکیوں کو دو قسم کے صدارتی امیدواروں کا سامنا تھا۔ خاتون امیدوار ہلیری کلنٹن، جو قریب اڑسٹھ برس کی ہیں۔ عوامی عہدوں پر کام کر چکی ہیں، وزیرخارجہ رہی ہیں اور امریکا کی خاتون اول بھی رہ چکی ہیں۔ گویا طویل عرصے سے امریکی سیاست سے منسلک ہیں اور محنت سے اپنا مقام بنایا۔

ان کے مقابلے میں تھے ڈونلڈ ٹرمپ، عمر لگ بھگ ستر برس، والد اراضی اور تعمیرات کا کاروبار کرتے تھے۔ ٹرمپ نے معاشیات کی تعلیم حاصل کی اور اپنے والد کا کاروبار سنبھالا۔ کاروبار کو بہت پھیلایا اور میڈیا سے بھی وابستہ ہوئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا دی اپرنٹس نامی ٹی وی شو بہت مقبول ہوا جس میں امیدواروں کی کاروباری صلاحیتوں کا جائزہ لیا جاتا تھا۔

لا ابالی رویے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سیاست میں قدم رکھا تو بہت سے لوگوں کو حیرت ہوئی۔ ٹرمپ ایک جذباتی سے سیاست دان دکھے۔ ناشائستہ بات چیت کرتے، عصبیت برتتے۔ امریکی عوام اپنے ثقافتی تنوع پر بہت فخر کرتے ہیں، ٹرمپ نے اس تاثر کی بھی نفی کی۔ مسلمان مخالف بیانات دیے۔ بولی ٹھولی میں سلیقہ نہ تھا۔ ایک بار اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔ وہاں موجود خاتون کا بچہ رونے لگا تو اسے باہر جانے کا کہہ دیا۔ عراق جنگ میں کام آنے والے مسلمان فوجی کے والدین کے بارے میں نا مناسب گفتگو کی۔

ان کے مقابلے میں ہلیری کلنٹن تدبر اور فراست کا نمونہ نظر آتیں۔ مسکرا کر سہج سبھاؤ سے بات کرتیں، اپنی زندگی عوامی خدمت میں گزاری تھی، تجربہ کار تھیں، ان کے خاوند بھی امریکی صدر رہ چکے تھے۔ پھر صدر اوبامہ اور ان کی اہلیہ خود ہلیری کلنٹن کے اجتماعات میں شریک ہوتے۔ جہاں ٹرمپ امریکا میں بسی دوسری قوموں کے خلاف بات کرتے، ہلیری سب کو جوڑے رکھنے کا تذکرہ کرتیں۔ امریکی عوام تنوع اور وسعت نظری کی جن روایات پر اتراتے ہیں، ہلیری ان روایات کی شبیہ نظر آتیں۔ ان کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ تنگ دلی کا مجسمہ لگتے۔

ٹرمپ کی صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران لا ابالی پن چھایا رہا۔ کبھی کہتے دھاندلی کر کے انہیں ہرا دیا جائے گا۔ کبھی کہتے اگر ہار گئے تو الیکشن نتائج تسلیم نہیں کریں گے۔ کبھی کہتے ان کے خلاف سازش کی جا رہی ہے۔ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے سے فرار اختیار کرتے رہے۔ پہلے کہا آڈٹ ہو رہا ہے مکمل ہوتے ہی جمع کرائیں گے۔ پھر کہا ہیلری کلنٹن نے ای میلز کے لیے ذاتی اکاؤنٹ استعمال کیا جس سے اہم راز چوری ہو گئے۔ پہلے ہیلری کلنٹن سے تحقیقات ہوں پھر ٹیکس گوشوارے جمع کرائیں گے۔ ایک صدارتی مباحثے میں یہ تک کہہ دیا کہ صدر بننے کے بعد ہیلری کو جیل میں ڈال دیں گے۔

امریکی میڈیا میں یہ اطلاعات بھی آتی رہیں کہ ٹرمپ نے کاروبار میں خسارہ دکھا کر اٹھارہ سال تک کوئی ٹیکس دیا ہی نہیں۔ صدارتی مباحثے میں ہلیری نے کہا ٹرمپ ٹیکس نہیں دیتے تو جواب دیا، کیوں کہ میں چالاک ہوں! گویا بلا واسطہ طور پر ٹیکس چوری کا اعتراف کیا۔

ٹرمپ کو امریکی میڈیا کی بھرپور مخالفت کا سامنا رہا۔ دوسرے صدارتی مباحثے سے چند روز قبل خواتین کے بارے میں ان کی نازیبا گفتگو کی ویڈیو سامنے آ گئی۔ ویڈیو پر شدید رد عمل آیا، لیکن اس معاملے کو ہینڈل کرنے کے لیے بھی ٹرمپ نے خاصا اشتعال انگیز رویہ اختیار کیا۔ صدارتی مباحثے سے ایک گھنٹہ قبل انہوں نے کچھ خواتین کے ہمراہ میڈیا کانفرنس کی اور ان خواتین نے ہیلری کے شوہر بل کلنٹن پر سنگین الزامات لگائے۔

اس کے بعد کئی ایسی خواتین سامنے آئیں جنہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ پر نامناسب رویے کے الزامات لگائے۔ ٹرمپ جذبات میں آ کر بھڑک جاتے تھے، اور ٹوئٹر پر بیانات داغ دیتے۔ ان کی ٹیم نے ٹرمپ کے ٹوئٹر استعمال پر پابندی لگا دی۔ مخالفین نے اس پر بھی خوب بھد اڑائی۔ باراک اوباما نے کہا جو شخص اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ نہیں سنبھال سکتا وہ ملک کے خفیہ جوہری کوڈ کیا سنبھالے گا۔

لیکن اس سب کے باوجود امریکی عوام نے انہیں اپنا صدر منتخب کر لیا ہے۔ طالب علم کو یہ صورت حال بہت دلچسپ معلوم ہوتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی عوام کو اپنے سربراہ کے ٹیکس معاملات غیر شفاف ہونے کی پروا ہے نہ ان کے اخلاقی معاملات پر کوئی اعتراض۔ ٹرمپ کے انتخاب سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ امریکی اتنے وسیع القلب نہیں جتنا وہ پرچار کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ میڈیا ذہن سازی میں کردار ادا کرتا ہے۔ ان انتخابات میں امریکی میڈیا نے ٹرمپ کی بھرپور مخالفت کی۔ ہر دوسرے روز کوئی سروے جاری کیا جاتا جس میں ہلیری کلنٹن کو ٹرمپ پر سبقت حاصل ہوتی۔ انتخابی نتائج سرویز اور ذہن سازی میں میڈیا کی افادیت پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔

میں بطور پاکستانی اس رجحان کو بھی حیرت سے دیکھ رہا ہوں۔ ہلیری کے پاس سیاست کا تجربہ تھا، ٹرمپ کے پاس کاروبار کا۔ ہلیری کے اخلاقی اور مالی معاملات شفاف دکھائی دیتے تھے، ٹرمپ الزامات کی زد میں رہے۔ ہلیری مدبر تھیں، ٹرمپ جذباتی تھے۔ کیا امریکا میں کاروبار جیت گیا اور سیاست ہار گئی؟ کیا وہاں جذبات کی فتح ہوئی اور تدبر کو شکست ہو گئی؟

عمیر محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمیر محمود

عمیر محمود ایک خبری ٹیلی وژن چینل سے وابستہ ہیں، اور جو کچھ کرتے ہیں اسے صحافت کہنے پر مصر ہیں۔ ایک جید صحافی کی طرح اپنی رائے کو ہی حرف آخر سمجھتے ہیں۔ اپنی سنانے میں زیادہ اور دوسروں کی سننے میں کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ عمیر محمود نوک جوک کے عنوان سے ایک بلاگ سائٹ بھی چلا رہے ہیں

omair-mahmood has 47 posts and counting.See all posts by omair-mahmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments