کورونا ویکسین کی عالمی چوری


سال 2019 تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس سال دو ایسے واقعات رونما ہوئے جسے دنیا کبھی نہیں بھلا سکے گی۔ اسی سال انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو دبانے کے لئے غیر انسانی لاک ڈاؤن لگایا جبکہ اسی سال کورونا کی وبا چین میں پھوٹی جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کی جانب سے جبری کرفیو اور لاک ڈاؤن پر کشمیری مسلمان جن مصیبتوں اور مشکلات کا شکار ہیں آج پوری دنیا کورونا وبا کی وجہ سے لاک ڈاؤن کی زد میں آکر اس تکلیف اور مشکلات کا اندازہ بخوبی کر سکتی ہے لیکن افسوس عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی ابھی بھی برقرار ہے۔

جب دنیا بھر میں کورونا کی وبا پھیلی تو سپر پاورز نے ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دیا۔ چین کا کہنا تھا کہ امریکہ نے یہ وائرس ان کے ملک میں بھیجا تھا جبکہ امریکہ کا کہنا تھا کہ چین نے یہ وائرس پھیلایا ہے۔ کورونا وائرس کس کی ایجاد ہے اور کس نے اسے پھیلایا؟ دنیا اس عالمی کرائم کے مجرموں کا سراغ نہیں لگا پائی تھی کہ اب ایک نئی عالمی چوری سامنے آ گئی ہے۔ یہ عالمی چوری کسی ایٹم بم کی تیاری کے فارمولے کی چوری نہیں بلکہ کورونا وائرس کی ویکسین کی چوری ہے۔ ثابت ہوا موجودہ حالات میں کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری کسی ایٹم بم کی تیاری سے بڑھ کر ہوگئی ہے۔ اس سے ایک بات یہ بھی ثابت ہوتی ہے کہ شاید اب دنیا میں ایٹمی جنگیں نہیں بلکہ کیمیائی جنگیں لڑی جائیں گی۔

بہرحال ہم کورونا ویکسین کی عالمی چوری کے متعلق بات کر رہے تھے۔ حال ہی میں امریکی تفتیشی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ چین سے ہیکرز تیزی سے تیاری کے مراحل طے کرنے والی کرونا وائرس کی ویکسین کا فارمولا اور معلومات چوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس بات کا دعویٰ امریکی اخبارات ”وال سٹریٹ جرنل“ اور ”نیویارک ٹائمز“ میں شائع ہونے والی انویسٹی گیشن رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ چینی ہیکرز امریکا میں تیار ہونے والی کرونا وائرس کی ویکسین سے متعلق تحقیق اور دیگر معلومات کو ہیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم سخت سائبر سکیورٹی کے باعث وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

امریکی اخبارات نے اپنی رپورٹ میں نے مزید لکھا کہ ”ایف بی آئی اور سائبر سکیورٹی نے چینی ہیکرز کی مشکوک سرگرمیوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ہیکرز کا تعلق چین کی حکومت سے ہے جس کے بعد عملے کو مزید مستعد کر دیا گیا ہے“ ۔ امریکہ نے اس حوالے سے چین کو وارننگ دینے کے لیے ان کی وزارت خارجہ کوایک سمری بھی بھیجی ہے۔

ادھر امریکا کے وفاقی ادارہ تحقیقات (ایف بی آئی) اور سائبر سکیورٹی کے ماہرین کی جانب سے کرونا وائرس کے علاج کے لیے ویکسین کی تیاری کے ضمن میں تحقیق چرانے کے الزام کو چین نے مسترد کر دیا ہے۔ چین نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بیجنگ ویکسین کی تیاری میں قائدانہ حیثیت رکھتا ہے۔ چینی ترجمان کا کہنا تھا کہ چین کسی بھی قسم کی ہیکنگ میں ملوث نہیں ہے۔ چین کے وزارت خارجہ کے ترجمان زاؤ لی جیان نے دعویٰ کیا کہ کورونا وائرس کے علاج اور ویکسین کی تیاری میں چین عالمی سطح پر قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے لہذا شواہد کے بغیر افواہوں کی بنیاد پر چین کو نشانہ بنانا غیر اخلاقی عمل ہے، اس وقت ہم کووڈ 19 کے علاج اور ویکسین کی تیاری کے عمل میں دنیا کی قیادت کر رہے ہیں ایسے میں کسی ثبوت کے بغیر چین کو افواہوں اور مضحکہ خیز کہانیوں کے ذریعے ہدف بنانا بالکل غیر اخلاقی حرکت ہے۔

کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور اس کی ویکسین کی چوری کے الزامات سے قبل صدر ٹرمپ چین پر یہ الزام بھی عائد کر چکے ہیں کہ وہ ا ±نہیں رواں برس ہونے والے صدارتی انتخابات میں ہرانے کا خواہش مند ہیں۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بیجنگ ان کے مخالف صدارتی امیدوار جو بائیڈن کی حمایت کر رہا ہے تاکہ ا ±ن کی انتظامیہ کی جو پابندیاں چین پر عائد کی ہیں، ا ±نہیں ختم کیا جا سکے۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ کرونا وائرس سے نمٹنے کی ان کی کوششیں صدارتی انتخابات پر اثر انداز ہوں گی اور نہ ہی یہ کوئی ریفرنڈم ہو گا۔

کورونا وائرس کا موجد ایک نہ ایک دن ضرور اپنے انجام کو پہنچے گا لیکن اس وائرس کی ویکسین یقینا نسل انسانی کے لئے ایک بڑا احسان ہوگا۔ اس لئے ویکسین کی تیاری کے لئے اقوام عالم کو مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی کیونکہ ویکسین امریکہ دریافت کرے یا چین، اس کا استعمال انسانوں کو بچانے کے لئے ہی تو ہوگا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی ویکسین ہی معمولات زندگی بحال کر سکتی ہے۔ میری نظر میں ”معمولات زندگی کو بحال کرنے کے لئے دنیا کے ممالک کو آپس کے تعلقات بحال کرنا ضروری ہیں۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments