سوال کا رشتہ


ارتقائی عمل میں جب کے بہت سے دیوہیکل جانور، پرندے، کیڑے مکوڑے اور دیگر حشرات و مخلوقات جو فطرت میں ہونے والی جان لیوا تبدیلیوں کا مقابلہ نہ کر سکے اور وقت کے ساتھ ساتھ فنا ہو گئے مگر حضرت انسان نے تمام فطری خطرات اور موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کیا اور زندہ رہا۔

زندہ رہنے اور بقا کی اس جنگ میں فقط ایک جذبہ جس نے تمام تر مصیبتوں اور آفات کو شکست دی وہ تھا ”سوال“ یہ سوال ہی تھا جس کے جنم لیتے ہی تجسس پھر تحقیق اور اس کے بعد ایجادات نے ضروریات کے پیش نظر جنم لیا۔

محتاط اندازے کے مطابق دنیا کی کل آبادی تقریباً ساڑھے سات ارب ہے اور پینتالیس سو چھوٹے بڑے مذاہب کے ماننے والے پینسٹھ سو زبانوں میں کسی نہ کسی نقطے کسی نہ کسی کتاب کسی نہ کسی زبان رنگ، نسل، قبیلے یا کسی نہ کسی ایجنڈے پر متفق ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہیں۔

یقیناً وطن عزیز کے تمام دیس واسی بھی خیر سے اسی دنیا کا ایک حصہ ہیں لہذا ہمارا بھی کسی نقطے یا ایجنڈے پر مکمل متفق ہونا کوئی انہونی بات نہیں البتہ زبان، رنگ، نسل، قومیت، مذہب اور روایات میں اتنا دم نہیں کہ ہمیں یکجا کر پائیں۔ لہذا کچھ تحقیق، معلومات، ذاتی تجربات ماضی اور حال کے واقعات اور روز و شب کے مشاہدے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مملکت خداداد میں بسنے والے تقریباً تمام ہی لوگ چاہے وہ کسی بھی رنگ، نسل، مذہب فرقے، صوبے، زبان یا کسی بھی شعبے سے وابستہ امیر ہو یا غریب خواندہ ہو یا ناخواندہ سب ایک بات پر متفق اور ڈٹے ہوئے ہیں کہ ہم ”سوال“ کی کسوٹی پر پرکھے جانے کے لئے نہیں بنے۔

صحافت سے وابستہ پاکستان کے بڑے بڑے برج سوال کرنا تو اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن سوال اٹھائے جانے کو اپنی توہین تصور کرتے ہیں۔ سیاستدان جن کے رگوں میں عوام کی محبت خون کی طرح دوڑتی ہے وہ سوال اٹھانے پر عوام کا خون چوسنے کو تیار بیٹھے ہیں کیونکہ عوام کی جانب سے کیے جانے والے سوالات کا جواب دینا ہے درحقیقت پارٹی آئین سے غداری ہے اور غدار تو کسی صورت برداشت نہیں۔

مذہبی طبقہ جو بات بات پر دلیل اور حق کی بات کرتے ہیں سوال اٹھائے جانے پر کفر کے فتوے بانٹنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں چونکہ سوال کرنے والے کفر کا مرتکب ہے لہذا کافر کو جواب دینا بھی گناہ کبیرہ ہے۔

اسی طرح وکلا صاحبان ہیں جو کسی بھی عمل یا فعل کا جواب دینے سے استثنا حاصل کیے ہوئے ہیں اور جو ڈاکٹر ہیں کہ ان کا کام جواب دینا نہیں۔

بیوروکریسی جو کہ عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہے اور عوام کو جوابدہ نہیں کیونکہ سوال کرنا تو جرم ہے اور جرم سے نفرت ان کی رگ و جان میں سرایت کر چکی ہے۔

محترم جج صاحبان سے سوال نہیں کیا جاسکتا کہ توہین کا اندیشہ ہر وقت غالب رہتا ہے رہی فوج تو اس سے سوال کرے کون؟

اب بچ گئے عوام تو جن کو مدتوں سے اپنے ہی سوالوں کے جوابات نہ ملے ہوں وہ سوال کرنا بھول جاتے ہیں۔ عوام کا ”سوال سے رشتہ“ اتنا کمزور اور ناتواں ہے کہ وہ سوال اٹھانا گستاخی تصور کرنے لگتے ہیں جس کے نتیجے میں تحقیق اور تجسس کے دریچہ بند ہو جاتے ہیں اور نتیجہ وہی جو ہم دہائیوں سے بھگت رہے ہیں کہ زندگی کے ہر شعبے میں اندھی تقلید اور شخصیات کے بت دل میں بسائے بس زندگی گزار رہے ہیں اور ان بتوں کے دیے گئے گیان کو حرف آخر اور ناقابل تردید مان کر اپنی فتح کا جشن منائے نہیں تھکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments