مذہب،معاشیات اور علم



تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معاشرے اور مذہب کی بنیاد کا اندازہ ہوتا ہے۔ معاشرہ اور مذہب ہمیشہ بنی نوع انسان کی ضروریات کے مطابق تبدیل ہوتے رہے۔ معاشرہ انسان کی ضرورت اور مذہب انسان کی مجبوری بنتا رہا۔ سوشل کنٹریکٹ ضرورت تھی تو خدا کے وجود کی تلاش اس سوشل کنٹریکٹ کو مضبوط کرنے کے لیے مجبوری۔ ان تمام ضروریات اور مجبوریوں کا ذکر ’تھامس ہابز‘ اور ’جان لاک‘ جسے بہت سے دانشوروں نے اپنے اپنے انداز میں کیا۔

معاشرے اور مذہبی قوانین کی تشکیل کی ایک بڑی وجہ انسانی فطرت تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے اور مذاہب بنتے گئے اور فطرتیں بدلتی گئیں۔ ایک ایسا معاشرہ پیدا ہوا جہاں مذہب نے گدی سنبھال لی اور لالچ گدی نشین بن گیا۔ وہ معاشرہ اپنی جڑیں پھیلاتا گیا اور برصغیر کو اپنے آغوش میں چھپانے میں کامیاب رہا۔ بدقسمتی سے اس مذہبی اور لالچی معاشرے کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ باقی دنیا سے لاتعلق ہوتا جا رہا۔ اس معاشرے کو علم نہ تھا کہ پلاٹو اور افلاطون تو اس معاشرے میں ڈھلنے کے لیے پیدا ہی نہیں ہوئے۔

اس معاشرے کی باگ ڈور کبھی سکھوں نے سنبھالی تو کبھی افغانوں نے، کبھی عربوں نے تو کبھی مغلوں نے۔ پھر ایک ایسا معاشرہ نمودار ہوا جہاں مذہب گدی نشین نہ تھا۔ غلام ہوئے، گدی چھوڑی، اور بغاوت کے نعرے بلند ہوئے۔ مذہب کی اصلیت کو سمجھنے والا وہ معاشرہ علم کو فروغ دینے کا حامی تھا۔ جبکہ یہ معاشرہ عمارات بنوانے میں ماہر تھا۔ یہاں عاشق بستے تھے کبھی عشق حقیقی کے نام پر تو کبھی عشق مجازی کے نام پر۔ نئے آنے والے معاشرے کے لوگوں کو کچھ ہی عرصہ میں اندازہ ہو گیا کہ یہ مذہب اور لالچ سے کبھی باہر نہ نکلنے والے لوگ ہیں۔ جو لالچ اور مذہب کے نام پر اپنے لوگوں کو بھی کھا سکتے۔ آخر اسی بات کو اوزار بنا کر مذہب کے نام پہ تقسیم کیا اور عالم چلے گئے۔ وہ معاشرہ آج بھی مذہب اور لالچ کی زنجیروں سے باہر نہ نکل سکا۔ بازاروں، ٹرانسپورٹ اور عبادت گاہوں کو کھولنے والا معاشرہ۔ تعلیمی اداروں میں خوف پھیلانے والا معاشرہ۔ علم سے زیادہ مخفی خدا کے نام پہ اپنی دکانیں چلانے والا معاشرہ۔ تاج محل بنا کر آکسفورڈ اور ہارورڈ بنانے والوں کو کوسنے والا معاشرہ۔ برسوں سے ایک لاحاصل شے کی تلاش میں مذہب، معاشیات کو فروغ دینے اور تعلیم کو روندنے والا معاشرہ۔

تشنگی آنکھوں میں اور دریا خیالوں میں رہے
ہم نوا گر، خوش رہے جیسے بھی حالوں میں رہے
دیکھنا اے رہ نورد شوق! کوئے یار تک
کچھ نہ کچھ رنگ حنا پاؤں کے چھالوں میں رہے
ہم سے کیوں مانگے حساب جاں کوئی جب عمر بھر
کون ہیں، کیا ہیں، کہاں ہیں؟ ان سوالوں میں رہے
بدظنی ایسی کہ غیروں کی وفا بھی کھوٹ تھی
سوئے ظن ایسا کہ ہم اپنوں کی چالوں میں رہے
ایک دنیا کو میری دیوانگی خوش آ گئی
یار مکتب کی کتابوں کے حوالوں میں رہے
عشق میں دنیا گنوائی ہے نہ جاں دی ہے فراز
پھر بھی ہم اہل محبت کی مثالوں میں رہے
(احمد فراز)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments