عالمی لاک ڈاؤن کی منصوبہ بندی پر چشم کشا دستاویز


میں نے اپریل کے دوسرے ہفتے میں اس دستاویز پر لکھنا شروع کیا تاہم ناگزیر حالات کی بنا پر، میں یہ تحریر مکمل نہ کر سکا۔ انھی دنوں میں نام ور ادیب ناصر عباس نیئر نے اپنی تحریر معزول آدم کے تاثرات میں سوال اٹھایا کہ کیا یہ وبا (کورونا) ہمیں جمہوریت سمجھانے آئی ہے؟ نیئر صاحب کہتے ہیں کہ یہ وبا کسی چہرے کے بغیر ہے یا دوسرے لفظوں میں ہر چہرہ ہی وبا کا چہرہ ہو سکتا ہے۔ اس وبا نے امیر غریب، نیک گناہ گار، عورت مرد کا فرق مٹا دیا ہے، اس لیے یہ ہمیں شاید جمہوریت سکھانے آئی ہے۔

معاصر ادیب کے اس نکتہ پر سوال قائم ہوتا ہے کہ کون سی جمہوریت؟ امریکی جمہوریت؟ یورپی جمہوریت؟ اسلامی جمہوریت؟ یا پھر نیو ورلڈ آرڈر کے تحت تشکیل پانے والی سرمایہ دارانہ جمہوریت؟ جیسے سائنسی دنیا میں مرئی و غیر مرئی تصور کی اہمیت ہے ویسے ہی علم سیاسیات میں گلوبلائزیشن کا تصور رائج ہے یوں تو اس تصور میں تمام شعبہ ہائے زندگی سما جاتے ہیں لیکن اس کی افادیت کا ادراک سب سے زیادہ ملٹی نیشنل کارپوریشنز رکھتی ہیں۔

علم سیاسیات بنیادی طور پر طاقت ور طبقات کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے نظریاتی تصورات کے گرد گھومتا ہے اور یہ علم دنیا کو کنٹرول رکھنے کے لیے فکری راہ مہیا کرتا ہے۔ سیاسیات کا طالب علم ہونے کی بنا پر، دنیا کے نقشے میں پیدا ہونے والی ہر نئی صورت حال کا تیسرا رخ دیکھے بغیر حقائق تک پہنچنے میں دشواری ہوتی ہے اور اگر کھوج لگانے کا مادہ وجود نہ رکھتا ہو تو پھر نفس مطمئنہ تک پہنچنے کے لئے کوئی دوسرا راستہ تلاش کیا جاتا ہے لیکن علم سیاسیات کچھ اور ہی تقاضا کرتی ہے۔

افلاطون کے نزدیک وہ دلائل جو عموماً غلط دعووں پر مبنی ہوں، مغالطے کہلاتے ہیں، علم منطق کے مطابق صحیح مقدمات ہی سے صحیح نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں اگر مقدمات سے مطابقت کے بغیر نتائج حاصل کیے گئے ہوں تو اسے مغالطہ کہتے ہیں۔ ایسے ہی سازشی تھیوری کا استدلال کر کے کسی بھی مقدمے کو یکسر مسترد کر دیا جاتا ہے، یہی استدلال متبادل فکر کو رد کرنے میں موثر ہوتا ہے، یہ رویہ در حقیقت مابعد نوآبادیاتی سماج میں پیوست کر گیا ہے۔

بنی آدم تین ماہ سے ایک نئے بحران میں مبتلا ہے جس نے عالمی سماج کو جھٹک کر رکھ دیا ہے، اقتصادی ڈھانچوں کے ستونوں کو کم زور کر دیا گیا ہے۔ اس بحران کی جڑوں کو پہچاننے کے لیے ہمیں ایک دہائی قبل شائع ہونے والی اس دستاویز کی طرف واپس جانا ہوگا جسے راک فیلر فاؤنڈیشن (یہ ادارہ 1913 میں امریکی شہر نیویارک میں راک فیلر خاندان نے قائم کیا تھا) نے جاری کیا اور ایک ایسا عالمی منظرنامہ تشکیل دیا گیا جو دنیا کی تکونی طاقت کو قابو کرنے والوں کے عزائم عیاں کرتا ہے۔

یہ دستاویز ٹیکنالوجی اور بین الاقوامی ترقی کے مستقبل کے منظرنامے کا احاطہ کرتی ہے جسے مئی 2010 میں گلوبل بزنس نیٹ ورک کے اشتراک سے شائع کیا گیا، 54 صفحات پر مشتمل یہ دستاویز مستقبل کے منظرناموں پر مشتمل ہے جس میں سب سے اہم منظرنامہ عالمی لاک ڈاؤن سے بین الاقوامی سطح پر شہریوں کو گھروں میں قید کرنا ہے۔ دس سال قبل شائع شدہ یہ رپورٹ یوں معلوم ہوتی ہے کہ جیسے کورونا وبا پھیلنے کے بعد اس رپورٹ کو مرتب کیا گیا ہو۔

اس رپورٹ کا دس برس قبل شائع ہونا، اس تصور کو تقویت بخشتا ہے کہ نیو ورلڈ آرڈر میں مزید اصلاحات لانے اور دنیا پر گرفت کو مضبوط کرنے کی منصوبہ بندی کو لاگو کرنے کے لیے اس وائرس کو بہ طور جواز بنایا جائے گا، یہ منصوبہ مکمل طور پر خفیہ نہیں رکھا گیا اور دستاویز کو پبلک کر دیا گیا تاہم اس کے باوجود اس دستاویز کی تیاری کے معاون کاروں کو عیاں کرنا ضروری ہے۔

ذیل میں دستاویز کے متن کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے، اس دستاویز میں دس سال پہلے موجودہ لاک ڈاؤن کی منظر کشی کی گئی ہے، دستاویز کے مطابق ”ملکوں کی انتظامیہ نے حاکمانہ اصولوں کے تحت شہریوں پر مخصوص پالیسی کا نفاذ کر دیا۔ دنیا جس وبائی مرض کی منتظر تھی وہ بالآخر سن 2012 میں حملہ آور ہوا، 2009 کے برعکس یہ نیا انفلوئنزا جنگلی حیات کے باعث پھیلا جو انتہائی وحشی اور جان لیوا تھا، حتیٰ کہ وبائی بیماریوں کے خلاف لڑنے کی صلاحیت رکھنے والی اقوام بھی شدید متاثر ہوئیں اور عالمی آبادی کا بیس فیصد حصہ اس مرض سے متاثر ہوا اور صرف سات مہینوں میں آٹھ لاکھ افراد ہلاک ہو گئے۔ دستاویز کے مطابق، اس وبائی امراض نے سیارے (زمین) کو خالی کر دیا، اس وائرس سے غیر متناسب تعداد افریقہ، جنوب مشرقی ایشیا اور وسطی امریکہ میں ہلاک ہوگئی“ ۔

اس دستاویز میں مزید پیشن گوئی کی گئی کہ ”شہریوں کو پرواز سے روکنے کی نرم پالیسی مہلک ثابت ہوئی جس سے امریکا میں یہ وائرس تیزی سے پھیل گیا، تاہم خاص طور پر چین نے دوسرے ممالک سے زیادہ بہتر فیصلہ کیا، چین نے جنگی بنیادوں پر اپنی تمام سرحدوں کو سیل کر دیا اور شہریوں پر طبی قید یعنی قرنطینہ کی پالیسی لاگو کر دی، یوں اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد ملی اور لاکھوں افراد کی جان بچ گئی۔ عالمی سطح پر پہلے سے زیادہ کنٹرولڈ دنیا کے تصور کو وسیع پیمانے پر قبولیت حاصل ہوئی، شہریوں نے زیادہ سے زیادہ حفاظت اور استحکام کے پیش نظر اپنی خود مختاری اور رازداری کو بھی سرینڈر کر کے پدر پرست ریاست پر رضا مندی کی، شہریوں نے رواداری کا مظاہرہ کیا اور اپنے تک پہنچنے والے احکامات کی تائید کی اور حکم رانوں نے اپنی مرضی کے فیصلے نافذ کیے“ ۔

دستاویز میں غیر ترقی یافتہ ممالک سے متعلق لکھا گیا کہ ”ترقی پذیر دنیا میں، منظور شدہ ٹیکنالوجیز تک رسائی میں اضافہ ہوا، جنوبی امریکہ اور افریقہ میں، علاقائی اور ذیلی علاقائی اتحاد زیادہ منظم ہو گئے۔ افریقہ میں چین کی سرمایہ کاری میں توسیع ہوئی کیونکہ اہم معدنیات یا کھانے کی برآمدات تک رسائی کے بدلے میں نئی ملازمتوں اور بنیادی ڈھانچے کی سودے بازی پر بہت ساری حکومتیں رضا مند ہوئیں۔ سرکاری سلامتی کی امداد کی شکل میں سرحد پار تعلقات بڑھے۔ جب کہ کچھ ایسی ناکام ریاستوں میں غیر ملکی سیکیورٹی ٹیموں کی تعیناتی کا خیرمقدم کیا گیا“ ۔

دستاویز میں مزید لکھا گیا ”کہ 2025 کے بعد حکام کے بے جا اختیارات سے لوگ تنگ آگئے، جہاں قومی مفادات کا انفرادی مفاد کے ساتھ ٹکراؤ ہوا وہاں تنازعہ پیدا ہوا، اس کے بعد ترقی پذیر ممالک میں متاثرہ نوجوانوں نے اپنی حیثیت میں دیگر شہریوں کو بد امنی پر اکسایا۔ اس دستاویز کے اختتام پر فلن تھراپسٹ (مخیر افراد) کے کردار پر بات کرتے ہوئے لکھا گیا کہ مخیر تنظیموں کو دنیا میں سخت انتخاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومتوں کے مضبوط کردار کو دیکھتے ہوئے، امدادی کام کرنے کے لئے سفارتی صلاحیتوں کو بڑھاوا دینے کی صلاحیت کی ضرورت ہوگی، بڑے مخیر افراد (تنظیمیں ) اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کریں گے، اور متعدد چھوٹے مخیر افراد (تنظیمیں ) مالی، انسانی اور آپریشنل وسائل ضم کر سکتے ہیں“ ۔

دستاویز میں مزید لکھا گیا کہ ”اس وبائی مرض نے اقتصادیات پر مہلک اثر ڈالا، عالمی سطح پر سامان کی ترسیل اور لوگوں کی نقل و حرکت بند ہوگئی، سیاحت بند ہوگئی اور اشیا کی ترسیل عالمی سطح پر رک گئی اور جو بڑی بڑی عمارتیں ملازمین و صارفین سے کبھی خالی نہیں ہوئیں وہ ویران ہوگئیں، دستاویز میں مزید منظر کشی کی گئی کہ وبائی مرض کے دوران، دنیا بھر کے حکمرانوں نے سخت قوانین و پابندیاں لاگو کیں، جس میں چہرے پر ماسک پہننے، عوامی مقامات، ریلوے سٹیشنز اور سپر مارکیٹ میں جسمانی درجہ حرارت ماپنے کے لئے آلات کی شرط عائد کر دی۔ یہاں تک کے وبائی مرض کے ختم ہونے کے بعد، شہریوں پر یہ زیادہ آمرانہ کنٹرول اور نگرانی میں شدت آتی گئی، وبائی مرض اور عالمی دہشت گردی سے لے کر ماحولیاتی بحرانوں سمیت ہر چیز پر دنیا بھر کے حکمرانوں نے اقتدار پر مضبوط گرفت اختیار کی“ ۔

دستاویز کے مندرجات کا مطالعہ کرنے کے بعد، یہ سوال ابھرتا ہے کہ دس سال قبل، شائع ہونے والی اس دستاویز پر گلوبل میڈیا اور قومی میڈیا کیوں خاموش ہے؟ دراصل بیسویں صدی کے آغاز پر، جدید سرمایہ داری اصول و قوانین کو اپناتے اور مشعل راہ بناتے ہوئے، کارپوریٹ اشرافیہ نے ایک نیا کاروبار شروع کیا، انسانی ذہنوں اور علم و دانش کی خرید کا کاروبار۔ اس خریداری کا مقصد سرمایہ دارانہ فلاسفی کے تصورات و خیالات کو کارپوریٹ قوت کا سرچشمہ بنا دینا تھا جس کی ریاستی ادارے چلانے کے لیے، بہ راہ راست یا بالواسطہ ضرورت تھی۔

وقت کے ساتھ انٹلیکچوئل مراحل کی یہ جدید صورتیں دنیا کے سماجی و سیاسی افق پر ان تھنک ٹینکس اور غیر منافع بخش تنظیموں کی شکل میں نمودار ہوتی گئیں اور انھوں نے علم و دانش فروشی کا کام جاری رکھا، درجنوں تھنک ٹینکس کو ملٹی نیشنل کارپوریشنز، بین الاقوامی بینکار خاندان کی زیر ملکیت بینک کھلے عام یا پوشیدہ طور پر فنڈز فراہم کرتی ہیں اور یہ تھنک ٹینکس مخصوص طرز کا بیانیہ عوامی سطح پر رکھتی ہیں۔

اس کے بعد، یہ مخصوص بیانیہ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کے توسط سے مین سٹریم گلوبل میڈیا تک لایا جاتا ہے، گلوبل میڈیا کے مرکزی ملکیتی ادارے یہی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں۔ عالمی میڈیا پر نشر ہونے والے مواد کو قومی میڈیا اپنی اپنی نشریات میں جگہ فراہم کرتا ہے اور پھر اس مواد کی بہ طور پراپیگنڈا اس قدر تشہیر کی جاتی ہے کہ اسے عوامی رائے بنا دیا جاتا ہے، سماج کے تعلیم یافتہ افراد، نیم تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ افراد میڈیا کے مواد کے خریدار بن جاتے ہیں اور دانستہ طور پر اس مواد کو اپنی ذاتی رائے بنا لیتے ہیں۔

اب یہ کیسے ممکن ہے کہ راک فیلر فاونڈیشن یا اس طرح کے دیگر عالمی اداروں کی منصوبہ بندی کے برعکس ایسا مواد عوام تک پہنچایا جائے جس سے ان کے مفادات کو زد پہنچے۔ گزشتہ ایک صدی سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا مذہب سائنس ہے، اب یہ بات کتنی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے کہ سائنس کو بہ طور عقل تسلیم کرنے والے ایک وائرس کے خوف میں مبتلا کر دیے جاتے ہیں جس کے نقصانات کو ابھی سائنسی طور پر ثابت ہی نہیں کیا جا سکا۔

میں نے اپنی گزشتہ تحریر ”کورونا کا سراب اور نیو ورلڈ آرڈر“ میں بھی یہ مقدمہ پیش کیا تھا کہ دنیا کو کنٹرول کرنے کے لیے نئے منصوبوں کی ضرورت ہے جس کے لیے نئے سرے سے تقسیم ناگزیر ہوچکی ہے۔ یہ تقسیم جغرافیائی سے زیادہ، اقتصادیات پر مبنی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ مقدمہ مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ لاک ڈاؤن منصوبہ بندی کا حصہ تھا، اس منصوبے سے کہاں کہاں پر کیسے مقاصد حاصل کیے جا رہے ہیں، اس پر آئندہ نئی تحریر سہی۔ البتہ یہ امر قابل غور ہے کہ جب عالمی سسٹم کو مذہب کی ضرورت پیش آئے تو مذہبی نمائندوں سے کاہنوں والا کردار کرایا جاتا ہے اور جب سائنس مذہب بنے تو پھر مخصوص ڈاکٹرز اور طبی ماہرین سے کاہنوں یا مولویوں والا کردار کرایا جاتا ہے ان حالات میں ڈبلیو ایچ او کاہن اعظم کا روپ اختیار کیے ہوئے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments