میں، وہ اور خدا


تیری نگاہ کی ملے تمازت تو
میری فصل وجود پہ کوئی بہار آئے

عمر رواں نے جب کھیل کود کی دہلیز پار کی تو رفتہ رفتہ ادراک ہوا کہ میں ایک نہیں بے شمار ہوں۔ اپنے اندر سے اٹھنے والی آوازوں کو اپنی سمجھ، نا سمجھ کے مطابق نام دیے تو ایک سوال کا شدت سے سامنا کیا کہ میں کون ہوں؟ اور پھر اس سے وابستہ سوالات، کیوں ہوں؟ کب تک ہوں؟

عمر کے جوبن میں یہ سوالات مبہم ہو گئے۔ اور میں اپنی مجموعہ ذات میں بپا شور سے بظاہر بے نیاز زندگی کی رنگینیوں میں کھو گئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب زندگی میں ”وہ“ داخل ہوئے۔ ”وہ“ کون؟ وہ کبھی محبت کے روپ میں تو کبھی کسی خواب، مقصد، خواہش کے روپ میں۔ میں بھی ذات کی چکوری تھی مجھے چاند چاہیے تھا، محور، سکون اور تکمیل چاہیے تھی۔ چنانچہ میں محو طواف رہی۔ لیکن ایک طویل مستقل اور تھکا دینے والی لا حاصلیت، کرب کے لمحے بن کر میری روح میں رستی رہی، گھلتی ملتی رہی۔

وقت کے ہاتھ میں کٹھ پتلی عمر لمحوں کی تال پر محو رقص اپنی منزلیں طے کرتی رہی۔ لیکن اندر خانے گہرا خلا، بھنور، اس اندر کے کھو نے کسی کو قبول نہ کیا۔ ہر ’وہ‘ اس ذات کے سمندر میں گرتا، ڈبکیاں کھاتا، کھو جاتا۔ میں اطمینان، تکمیل و حصول کی ان جھوٹی گھڑیوں میں کھوئی ہوتی کہ جب وہ میری ذات کے بھنور سے یوں باہر پھینک دیا جاتا جیسے پانی کی لہریں اتھاہ گہرائیوں سے کوئی لاش اٹھا باہر پھینکتی ہیں۔ اور میں پھر سے بھائیں بھائیں، سائیں سائیں، ویران اور خالی۔

ایسا لگتا تھا کہ جوتوں کی بھری دکان ہے۔ خوبصورت اور عمدہ جوتے۔ لیکن کوئی چھوٹا ہے، ؟ اور کوئی بڑا۔ اور میں یوں ہی ننگے پاؤں آبلوں کے ساتھ دشت خودی میں بھٹکتی پھرتی۔ بس وقتی افاقہ، لمحوں کی تشفی، درد کو ذرا دیر کو آرام لیکن بیماری وہیں موجود۔

پھر عمر رواں کی ایک سیڑھی پر احساس ہوا کہ یہ خود اپنی ذات سے خدا تک کا کٹھن سفر ہے۔ محدود سے لامحدود تک، فانی سے لافانی تک، خالق سے مخلوق تک۔ ۔ ۔ ایک ذرہ بے نشان، نا مکمل جز کی اپنے کل تک رسائی کی تڑپ ہے۔

پہلی بار دل کی گہرائیوں سے احساس ہوا کہ یہ خلا کسی ’وہ‘ کے لئے نہیں بلکہ اپنے رب کے مہان عشق کے لئے ہے۔ محاسن قلب پہ ’وہ‘ قابض ہے، جبکہ یہ تو رب کی جاہ ہے۔ لیکن آنکھ ہے کہ اندھی ہے، یا چکاچوند روشنیوں میں یوں چندھیا سی گئی ہے کہ ہر سمت تاریکی ہے جو لا حاصلیت دکھتی ہی نہیں۔ پھر ایک دن سوچا کیوں نہ اس کو پہچانوں تو سہی، اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھوں کہ شاید خوف کی انتہا پر جا کر خوف ختم ہو جائے۔

یہ جو میرے اور رب کے بیچ میں حائل ہے اس کی پہچان تو کروں۔ جو ذرا غور کیا تو معلوم پڑا کہ یہ تو میرا ہی نفس ہے۔ بھیس بدلنے اور گھات لگانے میں اتنا ماہر کے کبھی محبت بن جاتا ہے تو کبھی نفرت، کبھی خواب بن جاتا ہے تو کبھی حقیقت، کبھی خواہش کا روپ دھارتا ہے تو کبھی امید کا۔ لیکن رہتا درمیان میں ہی ہے۔ اور میں نہ جانے کب سے اس تکونی تعلق میں الجھی، اس کے زاویے درست کرتی رہی، جبکہ اس تعلق کو تو وہ خط مستقیم بننا تھا جس کے ایک نقطہ پر میں ہوں اور دوسرے پر خدا۔ میرے اور خدا کے بیچ سے وہ نکلے تو ہی منزل ملے گی، اندر کی شورش کو سکون ملے گا اور آ گہی ذات نصیب ہو گی۔

نغمانہ حسیب
Latest posts by نغمانہ حسیب (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments