آقا آپ عظیم ہیں، ظلم نہ کریں


ہم سب اپنے اپنے دنیا میں مگن تھے۔ ہمیں کون سا ایک دوسرے کی پرواہ تھی۔ ہم تو ایک دوسرے سے دوری اختیار کرنے، ملنا جلنا کم کرنے اور اپنے گھروں تک محدود رہنے کا بہانہ ڈھونڈ رہے تھے۔ کورونا آ گیا ہمیں ایک جاندار بہانہ مل گیا۔

ہم نے مادہ پرستی کو پیشہ ور اور انا پرستی کو خودی کا نام دیا۔

یہ سب گلے شکوے ہیں اب بولنے کا کیا فائدہ، اور رہی بات زمینی حقائق کی۔ اب ایک دوسرے سے دوری اختیار کرنے میں ہی عافیت ہے، اپنا بھی اور دوسروں کے لیے بھی۔

پہلے اس میں ادا تھی ناز تھا، انداز تھا
روٹھنا اب تو تیری عادت میں شامل ہو گیا

(آغا شاعر قزلباش)

خیر اوپر جو بیاں کیا وہ شہری زندگی سے متعلق تھا، جس سے ہم بھی کافی حد تک متاثر ہوئے ہیں۔ چترال کی زندگی پہلے جیسا نہیں لیکن پھر بھی بہتر ہے۔

ایک دوسرے کے غم اور خوشیوں میں شرکت کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کا حال و احوال پوچھتے ہیں۔ بوڑھوں اور ضعیفوں کا خیال رکھتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر کھلے گھاس میں چارپائی ڈال کر سو سکتے ہیں۔ گھروں میں غیر ضروری ہتھیار نہیں رکھتے۔ جانوروں اور پرندوں کے شکار کے خلاف آگاہی مہم زور و شور سے جاری ہے۔

ان سارے خوبیوں کے باوجود پھر بھی ہم بہت پسماندہ ہیں۔ ہمارے روڈ کچے اور تنگ بعض پل، پل صراط کا منظر پیش کرتے ہیں۔ سافٹ ڈرنک اور بناسپتی کے نام سے زہر پلائے اور کھلائے جاتے ہیں۔ ہسپتالوں میں سہولیات کا فقدان ہے۔ ٹرانسپورٹ کا نظام تو پوچھو مت، ڈرائیور حضرات بادشاہ سلامت ہوتے ہیں۔ صوبائی حکومت کرایہ نامہ جاری کرنے کے بعد خواب خرگوش میں سو جاتا ہے۔

ہمارا ضلعی حکومت اپنی کارکردگی بہتر کرنے کے بجائے منہ بندی کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ جن کو اپنے حقوق کا نہیں پتہ وہ خاموش ہیں۔ اور جو بولتے ہیں ان کا منہ بند کرو۔ آقا کیوں تنگ کرتے ہو ہمیں، ہمارے پاس تو ہتھیار بھی نہیں ہیں یار، ہم قلم والے لوگ ہیں۔ ہم مزدوری کر کے ہتھیار نہیں خریدتے۔ ہم خود پڑھتے ہیں اور دوسروں کو پڑھاتے ہیں یار۔ آپ ہمیں پتھر اٹھانے پہ کیوں مجبور کرتے ہو یار۔ آقا نفرت کا جو پتھر ہوتا ہے نا ایٹم بم سے خطرناک ہوتا ہے۔ اگر آپ کے بس میں ہوتا ہے۔ گراں خوری، رشوت خوری کے خاتمے اور اشیاء خورد و نوش کے معیار پہ کام کرو۔ تاکہ ہم دفتروں میں ذلیل ہونے اور زہر کھانے سے بچ سکیں۔ موسم گرما میں دریائے کابل لکڑیوں کے ساتھ ساتھ لاشیں کیوں لے کر آتا ہے۔ ہم اتنا بزدل نہیں کہ خودکشی کر لے۔ مینٹل ہیلتھ کا مسئلہ ہے اس پر آپ ریسرچ کر لیں۔ چترال میں ہارٹ اٹیک اور کینسر سے کئی لوگوں کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس پر آپ کام کر لے۔ آپ کی بہت مہربانی ہوگی۔ شہید اسامہ وڑائچ کا نام آتے ہی ہمارے آنکھیں کیوں نم ہو جاتی ہیں۔ اس نے چترال کے ساتھ ساتھ چترالیوں کے دل میں اپنے لئے جگہ بنایا تھا۔ آپ پیار کرو ہم بھی پیار کریں گے۔ باقی ڈنڈے اور میٹھے دونوں آپ کے پاس ہے آپ کی مرضی۔

یار آپ بڑے لوگ ہیں۔ آپ لوگوں نے میرے مرشد خادم رضوی جیسے دبنگ آدمی کا سافٹ وئیر چینج کر دیا۔ شیر جہاں وغیرہ کیا چیز ہیں۔ مولانا صاحبان سے درخواست ہے۔ شیر جہاں ساحل سمیت ان 21 افراد کی کورٹ میں پیشی، جرم کی نشاندہی اور رہائی میں کردار ادا کر کے ثواب دارین حاصل کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments