دکھ فسانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں


میں نے صبح جاگ کر جب اپنے کمرے کا بلب روشن کیا تو گھڑی پر چار بج چکے تھے۔ ابھی باہر کافی اندھیرا تھا۔ پچھلے دس سالوں سے میرا اس وقت جاگنا معمول بن چکا تھا۔ صبح جاگنے کے بعد میں اپنے مویشیوں کو چارہ ڈالتا ہوں اور اس کے بعد نماز پڑھ کر باقی گھر والوں کو جگانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس کام میں سب سے زیادہ مشکل تب پیش آتی ہے جب میں اپنے بڑے بیٹے کو جگانے کی کوشش کرتا ہو جو ابھی دسویں جماعت کا طالب علم ہے۔ اس کو جگانے کے بعد میں حسب معمول اس کا یونیفارم استری کر کہ رکھتا ہوں اور پھر قرآن کی تلاوت میں مشغول ہو جاتا ہوں۔

اس بیٹے کے علاوہ میری دو بیٹیاں بھی ہیں جو آرام سے جاگتی ہیں کیونکہ ان کا سکول گھر کے نزدیک ہی ہے۔ جب کہ میرا بیٹا اپنے شہر کے سب سے شاندار سکول میں پڑھتا ہے۔ بیٹوں کی اچھی تعلیم کا خواب کس کا نہیں ہوتا؟ ہر کوئی تو یہ چاہتا ہے کہ اس کا بچا سب سے اچھی تعلیم حاصل کرے۔ ہم غریب لوگوں کا سب سے بڑا سپنا اپنے بیٹے کو بابو بنانا ہوتا ہے۔ جیسے میرے والدین نے میرے لیے تگ و دو کی تھی اور پھر تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت سی سفارشوں اور چوہدری جی کی منت سماجت سے کلرک بھرتی ہوا تھا۔

مجھے آج بھی یاد ہے میرے ابا جی نے اپنی ساری کمائی مجھ پر خرچ کر دی تھی۔ میری بہنیں سرکاری سکول میں پڑھائی اور مجھے شہر کے اچھے انگریزی سکول میں داخل کروایا تھا۔ میرے ابا میرے سے بھی زیادہ میری بہنوں سے پیار کرتے تھے جیسے مجھے بھی اپنی سب سے چھوٹی بیٹی بے حد پیاری ہے لیکن وسائل کم ہونے کی وجہ سے صرف مجھے ہی اچھی تعلیم دلوا سکے۔ اور میں بھی آج اسی طرح اخراجات کے بوجھ تلے دب کر اپنی بیٹیوں کو اچھے سکول نہ بھیج سکا۔

جب بھی میں شام کو اپنے کام سے واپس آ کر کھانے کی میز پر بیٹھتا ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میری بیٹیاں مجھ سے اس نا انصافی پر سوال کر رہی ہوں۔ میں انھیں یہ کیسے بتاؤں کے کاش میں بھی محلے کہ ان چوہدری صاحب کی طرح ہوتا جن کے ہاں دولت کی ریل پیل ہے تو میں اپنی بٹیا کو بھی شہر کے سکول میں بھیج کر بابو بناتا۔ ہم غریب لوگ خواہشات کا بوجھ لے کر پیدا ہوتے ہیں اور مایوسی کی فصل کاٹ کر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی ہماری آنے والی نسلیں اس مایوسی کی وراثت کے بوجھ تلے اپنی جان دے دیتی ہیں۔

مجھے جب میرے ابا جی انگیزی سکول بھیجا کرتے تھے تو میں نے بہت دفعہ ابا سے یہ سوال کیا کرتا تھا کہ میری بہنیں میرے ساتھ کیوں نہیں جاتی۔ ابا مجھے ہمیشہ غصے سے دیکھتے تھے اور اپنی بے بسی چھپاتے ہوئے بات گھما دیا کرتے تھے۔ جب میں خود اس عمر کو پہنچا تو اندازہ ہوا کہ جب جیب میں ذمہ داری اٹھانے کی سکت نہ ہو تو اپنی ہی اولاد انسان کو لاجواب کر دیتی ہے۔

میری اپنی عمر آج ساٹھ سال ہے اور کہانی بالکل ویسی کی ویسی ہی ہے۔ نہ تو میرے ابا کے پاس اتنے وسائل تھے کہ ہم سب بہن بھائیوں کو اچھے سکول میں داخل کرواتے اور نہ آج میرے پاس اتنا پیسا ہے کہ میں اپنے تینوں بچوں کی اچھی تعلیم کا بوجھ برداشت کر سکوں۔ میں سوچتا ہوں کہ اتنا وقت گزر گیا ہے ہمارے گاؤں کے چوہدری صاحب کے ہاں تو گاڑیوں اور زمینوں کی تعداد بڑھ گئی ہے لیکن میرے خاندان کے پاس اتنے پیسے بھی جمع نہ ہو سکے کہ بچوں کے اچھے مستقبل کا خواب پورا کیا جا سکتا۔ میرے گاؤں کے وہ تمام لوگ جو میرے بچپن میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے، آج بھی ان کا حال ویسا ہی ہے۔

میں آج بھی جب اپنے بیٹے کو سکول چھوڑنے جا رہا تھا تو چوہدری صاحب کی گاڑی ہمیشہ کی طرح مجھے اس خیال میں ڈال کر فراٹے بھرتی ہوئی ہمارے قریب سے گزر گئی کہ چوہدری صاحب ہر الیکشن میں ہم سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہماری زندگی میں بہتری آئے گی، ہمارے گھروں کی روشنیوں میں بھی اضافہ ہو گا، ہمارے بچے بھی اچھی تعلیم حاصل کریں گی، ہماری سڑکیں بھی پکی ہوں گی لیکن یہ سب وعدے میرے بچپن سے لے کر اب تک وفا نہ ہو پائے۔ کیا ہم نادار لوگوں کی زندگیوں میں تاریکیاں ہی لکھی گئی ہیں یا خدائی روشنیوں کو دنیاوی بادشاہوں نے تاریکیوں میں بدل دیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments