جدا ہونے والوں کی یادِیں اور عید


بہت دنوں کے بعد تنہا بیٹھا ہوں میرے اردگرد جنگل ہے اندھیرا ہے اور کیڑوں مکوڑوں، مینڈکوں کتوں کے بھونکنے اور پرندوں کی آوازیں ہیں۔ میرے لیے اس رات میں جبری گمشدہ افراد کے علاوہ سوچنے کے لیے کچھ اہم نہیں ہے۔

ویسے میں ایک پنجابی ہوں میرا کوئی رشتہ دار مسنگ پرسنز میں شامل نہیں ہے نہ ہی کسی کی تشدد زدہ لاش کسی ویرانے سے ملی ہے۔ میں ادریس خٹک کے بارے میں سوچ رہا ہوں جو لاپتہ افراد کی آواز تھے میرے ذہن میں ان کی بیٹی کا لکھا گیا آرٹیکل گھوم رہا ہے۔

میں آج بچوں کے بارے میں سوچ رہا ہوں جن والد سالوں سے غائب نہ انہیں ان قصور پتہ ہے نہ یہ کہ وہ ان سے مل کیوں نہیں سکتے میں سوچ رہا ہوں ان کو عید کے کپڑے کس نے دلائے ہوں گے ان کو عید پہ گھمانے کون لے جائے گا وہ کس کو اپنے عید کے کپڑے دکھائیں گے وہ کیسے ان بچوں کا سامنا کریں گے جو اپنے والدین کی عید پہ دلائی ہوئی چیزیں فخر سے انہیں دکھائیں گے۔ میں ان بیویوں کے بارے میں سوچ رہا ہوں جن کو سال گزر گئے اپنے شوہروں کا انتظار کرتے انہیں نہیں معلوم کہ وہ بیوہ ہوگئیں یا ان کے شوہر زندہ ہیں اگر زندہ ہیں تو کہاں ہیں۔

میں ان بہنوں کے بارے میں سوچ رہا ہوں جن کو اپنے بھائیوں کا نہیں پتہ بھائی تو عید پر بہنوں کے لیے گفٹس لاتے ہیں وہ بہنیں تو اپنے بھائیوں کی دید کو ترس گئی ہیں میں اپنے بچوں سے ملنے کے لیے بیتاب ماؤں کے بارے میں سوچ رہا ہوں جن کو اپنے لخت جگر سے جدائی کا غم اندر ہی اندر سے گھن کی طرح کھا رہا ہے۔ میں ان کے بارے میں سوچ رہا ہوں جو پہاڑوں پر ریاستی ڈیتھ سکواڈ کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں میں شہداد بلوچ کے بارے میں اس کے والدین کے بارے میں سوچ رہا ہوں میں سانحہ خڑ کمر کے شہدا کے لواحقین کے بارے میں سوچ رہا ہوں میں عارف وزیر اور اس کے بچوں کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔

اور ہزاروں وہ جو گمنام راہوں میں مارے گئے وہ جو تاریک عقوبت خانوں میں قید اذیتیں سہہ رہے ہیں۔ وہ بلوچ طالب علم جو اپنی آنکھوں میں روشن مستقبل کے خواب سجا کر ملک کے دور دراز علاقوں کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے جاتے ہیں جن کے والدین یہ سوچتے ہیں کہ بیٹے کو دور بھیج دیا اب تو محفوظ رہے گا لیکن ان کا مقدر بھی عقوبت خانے ہی ہوتے ہیں اور والدین ان کی راہ تکتے اس جہاں سے کوچ کر جاتے ہیں۔

یہ کیسا نظام ہے یہ کیسی ریاست ہے آخر وہ کون سا سنگین جرم ہے جس کی سزا عدالتیں نہیں دے سکتیں اور ان لوگوں کے تمام انسانی حقوق سلب کر لیے جاتے ہیں۔ آخر کیوں لوگ انسانیت کی اس ننگی تذلیل کے خلاف نہیں بولتے ارے نہیں بولتے تو ہیں جو بولتے ہیں وہ بھی ان کی فہرست میں شامل ہو جاتے ہیں جن کے لیے بول رہے تھے۔ آخر کب یہ سلسلہ رکے گا؟ کب انصاف ملے گا متاثرین کو یہ ریاست کیوں اتنی خاموش ہے اس معاملے میں آخر کیوں نہیں اس جرم کے ذمہ داروں کی نشاندہی کر کے ان کو سزا دی جاتی۔ کون لوگ ہیں جو یہ سب کر رہے ہیں وہ اس ملک کے خیر خواہ تو ہو نہیں سکتے ضرور یہ کسی دشمن ملک کی چال ہے وہ جو انسانیت کا دشمن ہے اس ملک کی سلامتی کا دشمن اس ملک کے لوگوں کا دشمن تعلیم کا دشمن عقل و شعور کا دشمن۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments