پاکستان پر ٹڈی دل کی یلغار


ان دنوں پاکستان میں ٹڈی دل کے حملے کے حوالے سے کافی کچھ پڑھنے، سننے اور دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت پر الزامات لگا رہی ہیں کہ حکومت ٹڈی دل کے حملوں کی روک تھام میں مجرمانہ غفلت برت رہی ہے اور بروقت حفاظتی اقدامات نہیں لے رہی جبکہ حکومتی ترجمانوں کا کہنا ہے کہ حکومت ٹڈی دل کے معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور ہر ممکن حفاظتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان میں بالخصوص سندھ اور جنوبی پنجاب کے علاقوں میں ٹڈی دل کی یلغار دیکھنے میں آ رہی ہے۔

آج کی اس تحریر میں یہ دیکھتے ہیں کہ ٹڈی دل ہے کیا اور اس کی افزائش نسل کیسے ہوتی ہے اور اس کے حملے کی صورت میں کیا نقصانات ہوتے ہیں اور اس کا تدارک کیسے ممکن ہے۔ یہ یاد رہے کہ ٹڈی دل کا حملہ پاکستان میں پہلی بار نہیں ہو رہا اس سے قبل 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں 1980 کی دہائی میں بھی ٹڈی دل کی یلغار پاکستان میں ہوئی ہے

کہتے ہیں کہ ٹڈی میں دس جانوروں کی شباہت پائی جاتی ہے۔ اس میں گھوڑے کا چہرہ، ہاتھی کی آنکھ، بیل کی گردن، بارہ سنگھے کے سینگ، شیر کا سینہ، بچھو کا پیٹ، گدھ کے پر، اونٹ کی ران، شتر مرغ کی ٹانگ اور سانپ کی دم کی شباہت پائی جاتی ہے۔ ٹڈی حشرات کے خاندان سے ہیں اور ٹڈی کی دو قسمیں ہیں جس میں ایک بری اور دوسری بحری ہے۔ اس وقت موضوع بحث ٹڈی کی اس قسم کی ہے جو بری ہے۔ ٹڈی کی چھ ٹانگیں ہوتی ہیں جس میں سے دو سینے میں دو بیچ میں اور دو ٹانگیں آخر میں ہوتی ہیں۔

ٹڈی کی عمر کے حساب سے مختلف نام ہوتے ہیں جب ٹڈی پیدا ہوتی ہے تو اس کو الذبی کہا جاتا ہے جب اس کے پر نکلتے ہیں تو اس کو غوغا کہتے ہیں اور جب نر ٹڈی زرد رنگ اور مادہ ٹڈی کالے رنگ کی ہو جائے تو اس وقت اس کو جرادۃ کہا جاتا ہے۔ ٹڈی انڈے دینے کے لیے سخت اور بنجر زمین منتخب کرتی ہے اور پھر اپنی دم سے اس زمین میں سوراخ کر کے ان میں انڈے دیتی ہے۔ زمین کی گرمی سے ان انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں۔ ایک مادہ تین بار انڈے دیتی ہے اور ہر بار ان کی تعداد 80 کے قریب ہوتی ہے تیسری بار انڈے دینے کے بعد مادہ مر جاتی ہے۔

سعودی عرب اور سندھ میں لوگ ٹڈی دل کو فرائی کرکے کھاتے ہیں۔ ٹڈیاں کھانے کے شوقین اس کو خشکی کا جھینگا کہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ٹڈی میں 62 فیصد پروٹین، 17 فیصد تیل اور 21 فیصد میگنیشیم، کیلشیئم، آئرن، سوڈیم، پوٹاشیم ہوتا ہے۔ ٹڈی کو پکانے دو طریقے ہیں ایک تو اس کو ابال کر پھر تیل میں فرائی کیا جاتا ہے اور اس پرحسب ضرورت مصالحے ڈال کر ان ٹڈیوں کو کھایا جاتا ہے دوسرا طریقہ ٹڈیوں کو چاولوں کے ساتھ پکایا جاتا ہے۔ بعض ممالک میں ٹڈیوں کو سینڈوچ میں ڈال کر بھی کھایا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن ابواوفی فرماتے ہیں کہ ہم نے آپ ص کے ساتھ غزوات میں شرکت کی جس میں ہم ٹڈی کا گوشت استعمال کرتے تھے۔ جب کہ ٹڈی کا گوشت کھانا مباح ہے اس پر تمام علما کا اجماع ہے۔

پاکستان کے موسمی حالات ٹڈی کی افزائش نسل کے لیے انتہائی موزوں ہیں۔ پاکستان میں تحفظ نباتات کے محکمہ کے ماہرین کے مطابق ’پاکستان میں صحرائی ٹڈی کے افزائش نسل کے دو موسم ہیں۔ ایک فروری سے جون تک ہوتا ہے اور اس کا علاقہ بلوچستان میں ہے جبکہ دوسرا جون سے ستمبر تک ہے اس کا علاقہ بدین سے لے کر پنجاب میں بہاول نگر تک پھیلا ہوا ہے۔ جب ایک سیزن ختم ہوجاتا ہے تو یہ ٹڈیاں دوسرے سیزن میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ مجموعی طور پر دنیا کے 30 سے زائد ممالک ان ٹڈیوں سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کو تین مغربی، وسطی اور مشرقی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور یہ رقبہ کم وبیش ایک کروڑ ساٹھ لاکھ مربع میل بنتا ہے۔ مغربی خطہ میں افریقی ممالک جن میں سوڈان، ایتھوپیا، موریطانیہ، صومالیہ شامل ہیں جبکہ وسطی خطہ میں یمن، مصر اور سعودی عرب وغیرہ اور مشرقی خطہ میں ایران، افغانستان، پاکستان اور انڈیا شامل ہیں۔

ان صحرائی ٹڈیوں کی جب افزائش نسل ہوتی ہے تو یہ جوان ہوکر بالغ ٹڈیوں کے ہمراہ اڑنا شروع کردیتی ہیں۔ اور جب یہ ایک بڑے ہجوم کی صورت اختیار کرلیتی ہیں تو اس لشکر یا ہجوم کو ٹڈی دل کہا جاتا ہے اور جب سبز چارے والا خطہ ان کو کم پڑنے لگتا ہے تو یہ ایک بہت بڑے جھنڈ کی صورت میں سبز چارے والے خطے کی طرف یلغار کرتی ہیں اور اپنی راہ میں آنے والی ہر فصل کو چٹ کرنا شروع کردیتی ہیں۔ ٹڈیوں کے یہ جھنڈ بسا اوقات ایک ارب ٹڈیوں پر بھی مشتمل ہوسکتے ہیں اور سینکڑوں کلومیٹر کے علاقے پر محیط ہوسکتے ہیں۔

ٹڈی دل ایک دن میں کم وبیش 120 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر سکتے ہیں اور ہوا موافق ہوتو یہ فاصلہ 200 کلو میٹر تک ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے زراعت وخوراک (ایف اے او) کے مطابق اس کرہ ارض پر ہر دس میں سے ایک فرد کی زندگی ان ٹڈیوں سے متاثر ہوتی ہے اس وجہ سے یہ دنیا میں منتقل ہونے والی بدترین وبا قرار دی جاتی ہے۔

اس وقت ٹڈی دل تباہی مچانے کے لیے تیار ہیں اور پاکستان میں اس سے ہونے والے نقصانات کا محتاط اندازہ 800 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ اب یہ افریقی ممالک، سعودی عرب، ایران اور پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ کس قسم کے اقدامات کرتے ہیں اور کتنی کامیابی سے اس کا تدارک کرتے ہیں جبکہ ٹڈیوں کے جھنڈ ایک مربوط شکل اختیار کرچکے ہیں اور سبز چارے اور فصلات کو ختم کر رہے ہیں۔ عام کسان ٹڈی دل کے حملہ کے وقت شور مچا کر ڈرم بجا کر ان کو بھگانے کی کوشش کر رہا ہے مگر اس طرح یہ وبا ختم نہیں ہونے والی اس ضمن میں حکومت فی الفور ایمرجنسی نافذ کرے اورٹڈی دل کے خاتمہ کے لیے بروقت اور ٹھیک مقامات پر سپرے کرے۔ تا کہ ٹڈی دل سے ہونے والے نقصانات کی شرح کو کم کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments