میعاری تعلیم کے فروغ میں پرائیویٹ سیکٹر کو درپیش مشکلات



انسان کے سیکھنے کا عمل اس کی پیدائش سے ہی شروع ہو جاتا ہے، اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کے سیکھنے کا عمل اپنے مراحل طے کرتا چلا جاتا ہے، انسانی تاریخ شاہد ہے کہ انسانی ترقی و عروج کا دار و مدار تعلیم کے بل بوتے پر رہا ہے، اقوام عالم میں برق رفتار ترقی صرف انہی اقوام کا مقدر بنی کہ جو حصول علم میں پوری جدوجہد سے مصروف عمل رہی ہیں، آج وہی قومیں ترقی یافتہ گردانی جاتی ہیں کہ جن کا تعلیمی معیار اور تحقیق اعلیٰ پائے کی ہیں، اور بلاشبہ حصول تعلیم ہی وہ واحد راستہ ہے جو کہ ترقی و عروج کا ضامن بنتا ہے، حضرت انسان نے علم کی بدولت کائنات کو تسخیر کیا، چاند تک رسائی حاصل کرلی، زمین کا سینہ چیر کر اس میں چھپے قیمتی معدنیات کو حاصل کرکے ان کی مدد سے اپنی زندگی پر کیف اور آرام دہ بنایا، یہ تعلیم ہی ہے کہ جس کی بدولت انسان نے طب و جراحت پر مہارت حاصل کی اور بنی نوع انسان کو بیماروں سے نجات دلانے والی ادویات بنائیں، تعلیم نے انسان کو اتنا ماہر بنایا کہ اس نے نت نئی ایجادات کر کرکے، بحر و بر اور ہواؤں پر اپنی گرفت مضبوط کرلی، تعلیم وہ دولت ہے کہ جو انسان کو اپنے زمانے کے لوگوں میں ممتاز اور قابل قدر بناتی ہے،

ارض وطن اپنے معرض وجود میں آنے کے بعد سے ہی بد ترین مالی مشکلات کا شکار رہی، برصغیر پاک و ہند کی کی غیر منصفانہ تقسیم میں بہت زیادہ بدنیتی کی گئی تھی، ہندو بنیا روز اول سے قیام پاکستان کے خلاف تھا، اور اس کی بھرپور کوشش تھی کہ کسی بھی طور برصغیر کو منقسم نہ ہونے دیا جائے اور تقسیم ہو بھی تو ایسا ملک مسلمانوں کو دیا جائے کہ جس کو معاشی طور پر اس قابل ہی نہ چھوڑنا جائے کہ وہ بطور ریاست آگے بڑھ سکے، پاکستان کے حصے میں آنے والے وسائل نہ ہونے کے برابر تھے، مگر پھر بھی بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی شاندار قیادت کی بدولت پاکستان نے بطور ریاست کامیابی سے اپنا سفر جاری رکھا،

وسائل کی کمی کی وجہ سے جہاں پاکستان میں دیگر شعبوں میں ترقی سست رفتاری کا شکار رہی وہاں شعبہ تعلیم بھی بہت سے مسائل اور چیلنجز کا شکار رہا ہے،

بدلتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے اور باقی دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومتی نظام تعلیم ناکافی تھا، جس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹر نے تعلیم کے شعبے میں اپنی خدمات سرانجام دینا شروع کیں، اوائل میں پرائیویٹ سیکٹر نے بنیادی رسمی تعلیم میں اپنی خدمات کا آغاز کیا، پھر وقت کے ساتھ، ثانوی، اعلیٰ، فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے شعبے میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا،

یہ بات اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں کا معیار اعلیٰ، ثانوی اور پیشہ وارانہ تعلیم میں بہت اعلیٰ ہے لیکن پاکستان میں آبادی کے بے ہنگم اور ہوشربا اضافے کے پیش نظر، گورنمنٹ کے وسائل اور ادارے ناکافی ہیں، اس کمی کو پورا کرنے، معیار تعلیم کو بہتر کرنے اور موثر تعلیمی سہولیات کے پیش نظر شعبہ تعلیم میں پرائیویٹ سیکٹر کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے، نجی اداروں اور سرکاری اداروں میں ایک مثبت مقابلے کی فضاء بھی پائی جاتی ہے،

ہمارے ہاں تعلیم کا شعبہ ہمیشہ سے ہی ارباب اختیار کے تجربات کا شکار رہا، جو اس شعبے اور اس سے وابستہ تمام لوگوں کے لیے ایک چیلنج ہے،

ہمارے ملک میں آبادی جس حساب بڑھ رہی ہے ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وسائل ناکافی ہیں، سو جب پڑھے لکھے طبقے کو ان کے معیار کے مطابق روزگار میسر نہیں ہوپاتا تو ان کی اولین کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنا کام کریں، اسی لیے پرائیویٹ اداروں کے قیام کا رجحان روز بروز بڑھ رہا ہے، چاہے وہ سکول، کالج یا اکیڈمیز کیوں نہ ہوں، پرائیویٹ تعلیمی اداروں پر ہمیشہ سے کڑی تنقید کی جاتی ہے، کہ انہوں نے تعلیم کو بزنس بنا دیا ہے، یہ والدین سے بھاری فیسیں وصول کرتے ہیں، ایسا کسی خاص حد تک تو صحیح ہے ان میں اکثر وہ ادارے ہیں جن کا فرینچائز سکول سسٹم ہوتا ہے، اس میں بھی سرمایہ کاری کرنے والے ان سسٹمز کے بے دام غلام بن جاتے ہیں حتیٰ کہ ان لوگوں کو ایک پینسل بھی ان بڑے سکول سسٹمز کے مرکزی دفاتر سے خرید کرنی پڑتی ہیں، مگر انہی پرائیویٹ اداروں کی اکثریت ایسے اداروں پر مشتمل ہے جو بہت کم وسائل میں رہتے ہوئے گلی محلے، گاؤں یا بستی کی سطح پر اپنے ذاتی ادارے قائم کرتے ہیں، ان اداروں کو بہت سے مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے،

پرائیویٹ ادارے بہت سے لوگوں کے لیے باعزت روزگار کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں، بہت سے نوجوانوں کو ان کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، پرائیویٹ تعلیمی درسگاہوں میں بآسانی ملازمت مل جاتی ہے، جس سے ان کو پیشہ ورانہ تجربہ حاصل کرنے اور اپنی صلاحیتوں کے مظاہرے کے ساتھ ساتھ ان کو نکھارنے کا موقع بھی مل جاتا ہے گو ان کا پیکج عموماً بہت کم ہوتا ہے لیکن یہ بیروزگار رہنے سے بہت بہتر ہے، اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پرائیویٹ درسگاہوں میں کام کرنے والے نوجوان لڑکوں کو جیسے ہی کوئی بہتر موقع ملتا ہے اور اگر خاتون معلمہ کی شادی ہونا تو وہ دوران سیشن ہی اپنی ملازمت کو خیر باد کہہ جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ادارہ بہت نقصان اٹھاتا ہے، مگر پھر ان درسگاہوں میں آج بھی پڑھے لکھے اور غیر تجربہ کار نوجوانوں کو بآسانی روزگار میسر ہوجاتا ہے، اکثر یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ کچھ پرائیویٹ تعلیمی ادارے نوجوانوں کا استحصال بھی کرتے لیکن ان کی تعداد کوئی اتنی زیادہ قابل ذکر نہیں پے، بہت سی درسگاہوں میں فیسوں کی وصولی عموماً 80 فیصد سے بھی کم ہے، اور اگر موسم گرما یا سرما کی تعطیلات ہوجائیں تو یہ وصولی بھی ایک امتحان سے کم نہیں ہوتی ہے، اس بابت اکثر لوگوں کا کہنا ہوتا ہے کہ پرائیویٹ ادارے ان تعطیلات میں اپنے سٹاف کو تنخواہیں نہیں دیتے،

جب پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن اور دیگر متعلقہ اداروں سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سکولوں کی اکثریت اپنے تمام ملازمین کو دوران تعطیلات تنخواہیں دیتے ہیں، ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی زیادہ عمارتیں کرایہ پر حاصل کی جاتی ہیں، اور بجلی، گیس اور دیگر بلز تو معمول کے مطابق ادا کرنے پڑتے ہیں بے شک وہ نسبتاً کم ہوں، تو اگر ایسے میں فیسوں کی وصولی متاثر ہو گی تو ان کے لیے اپنے ادارے مکمل وقار کے ساتھ چلانا مشکل ہو جائے گا، حالیہ دنوں میں موذی وبا کے پیش نظر حکومتی احکامات کو بجا لاتے ہوئے، سکولوں کو مارچ 2020 میں ہی تاحکم ثانی غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دیا گیا، جس اور حکومت نے عوام کو اس مشکل وقت میں ریلیف دینے کے لیے پرائیویٹ سکولوں کو والدین سے دوران تعطیلات کل فیس میں 20 فیصد کی چھوٹ دینے کے احکام جاری کیے ہیں جو کہ نہایت خوش آئند اقدام ہے، لے کر دوسری طرف سکولوں نہ کھولنے کی سختی کی وجہ سے یہ ادارے بہت مشکل کا شکار ہیں، ایسے وقت میں ان اداروں کے بہترین مفاد کو پیش نظر رکھا جانا چاہیے، حکومت کو خاص طور پر مقامی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے لیے کچھ عبوری مراعات کے ساتھ یوٹیلٹی بلز کی مد میں ایک خاص حد رعایت دینا ناگزیر ہوچکا ہے، دوسری طرف ان اداروں میں زیر تعلیم بچوں کے والدین کو بھی چاہیے کہ اپنی استعداد کے مطابق حکومتی احکامات کو مد نظر رکھ کر اپنے بچوں کے واجبات بروقت ادا کریں، تاکہ ان اداروں کا معاشی استحصال ہونے سے بچایا جاسکے اور یہ اپنی خدمات جاری رکھ سکیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments