ہم جنسیت کا سوال اور عام تعصب کی نفسیات


پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست نے سوال کردیا کہ بھائی! یہ ہم جنسیت اگر عام ہو جائے اور اس کا جواز اس بات کو بنا لیا جائے کہ ایک انسان اپنی فطرت سے مجبور ہے اور وہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے، اس سے اسے روکنا انسانی اخلاقیات کے خلاف ہے تو کیا غیر قدرتی جنسی رشتوں کی باڑھ نہیں آجائے گی؟ کیا ایسا نہیں ہوگا کہ لوگ پھر اپنے جانوروں کے ساتھ جنسی رشتے بنائیں گےاور اس عمل کا جواز اس بات کو ٹھہرائیں گے کہ یہ ہماری مرضی ہے، چنانچہ کسی اور کو اس میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔

اول تو مجھے اس بات پر اب ہنسی آتی ہے جب یہ غٰیر قدرتی کی پخ کسی بات میں لگا دی جائے۔ میں بھی اسی چکر میں پڑا رہتا اگر جنوبی ہندوستان کے متنازع فلسفی اور مصلح پیریار کی تحریریں میری نظر سے نہیں گزرتیں۔ ایک جگہ اس نے لکھا کہ کسی بات کو غٰیر قدرتی ثابت کردینے سے کیا وہ غلط ہوجاتی ہے؟ اس نے پوچھا کہ لباس کیا قدرتی چیز ہے؟ کیا ہمارے رہائشی مکانات قدرتی طریقہ ہیں؟ بالکل اسی طرز پر سوچ کر دیکھیے تو اس وقت تو کچھ بھی قدرتی رہا ہی نہیں ہے۔ ہم چاروں طرف سے مصنوعی آسائشوں میں گھرے ہیں؟ یہاں تک کہ جس ٹکنالوجی کی مدد لے کر مجھ سے یہ سوال پوچھا گیا ہے کیا وہ خالص قدرتی دریافت ہے؟ فرج میں رکھا ٹھنڈا پانی قدرتی نہیں، واشنگ مشین میں کپڑوں کو گھسنے والا آلہ قدرتی نہیں، محبوبہ کے ساتھ ویڈیو کالنگ کا ذریعہ قدرتی نہیں مگر پھر بھی کسی انسانی عمل میں قدرتی کا فیتہ جوڑنا اصل میں اس پر اپنے احتجاج کی کمزور آواز کو واضح کرنا ہے۔ قدرت کے تعلق سے ہمارا ایک ازلی تعصب ابھی تک ہمارا پیچھا کررہا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ جو کچھ قدرتی ہے، وہ مفید ہے۔ بلکہ ایسا نہیں ہے۔ قدرت ، دراصل ایک سہولت ہے۔ ہمارے سانس لینے کے عمل میں، ہمارے جینے کے عمل میں یہ معاون ہے، مگر یہ سب کچھ نہیں ہے۔ ہمیں جو چیزیں قدرتی طور پر ملی ہیں، انہیں جس کا تس قبول کرلیا جائے اور اس میں انسانی عمل دخل کو سرے سے خارج کردیا جائے تو آپ کا زندہ رہنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ اس میں کیا شک ہے کہ اگر ہم صرف قدرتی وسائل پر بھروسہ کرتے اور اپنی ذہنی و عملی قوتوں کو بروئے کار نہ لاتے تو آج بھی ہم بربریت کے عہد میں جی رہے ہوتے۔ انسان کا سب سے پہلا غیر قدرتی عمل کسی غار میں پناہ لینا تھا، دوسرا غیر قدرتی عمل غذا کی تلاش کی تکنیک دریافت کرنا تھا۔

ہمارے فاضل دوست کا سوال پورے انسانی سماج کے ذہن پر حاوی ہے۔ اول تو یہ سمجھنا ہی بے وقوفی ہے کہ اگر دو لوگوں کو ہم جنسیت کی اجازت اس بنا پر دی جائے کہ ان کو اپنے مخالف جنس کے ساتھ جنسی تسکین حاصل نہیں ہوتی تو پورا سماج اور پوری دنیا اس قسم کے فعل میں ملوث ہوجائے گا، انسانی سماج کا تانا بانا بگڑ جائے گا، ہر شخص کورا ہم جنس پرست بن کر رہ جائے گا اور اس طرح انسانی سماج تولیدی عمل کو ترک کردے گا ، مزید نسلیں پیدا نہیں ہوں گی اور دنیا میں انسان کا وجود اگلے دس بیس پچاس برسوں میں ختم ہوجائے گا۔

کشور ناہید نے ایک کتاب ، جو سکینڈ سیکس کا ترجمہ اور تلخیص ہے، لکھتے وقت اس میں کہیں لکھا ہے کہ وہ ذاتی طور پر اس فعل کو یعنی ہم جنسیت کو پسند نہیں کرتی ہیں۔ اور اس کا جواز بھی جہاں تک مجھے یاد ہے انہوں نے یہی دیا ہے کہ یہ ایک غیر قدرتی فعل ہے۔ بہرحال اردو میں اس موضوع پر کم لوگوں نے لکھا ہے۔ عصمت چغتائی کی کہانی لحاف ہم سبھی پڑھتے ہیں، مگر وہ کہانی اب پڑھتا ہوں تو اس میں کافی جھول نظر آتے ہیں۔ اول بات تو یہ کہانی میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم جنسیت ایک قسم کے فرسٹریشن سے پیدا ہوتی ہے، یعنی اگر کہانی میں موجود ہم جنس عورت کو اس کا شوہر توجہ دیتا تو وہ ایسی ہرگز نہ ہوتی اور پھر اس عمل کو آخر میں اس طرح دکھایا گیا ہے کہ اس سے ایک قسم کا ہول پیدا ہوتا ہے، وحشت ہوتی ہے۔ ہم مان سکتے ہیں کہ یہ کہانی عام ہندوستانی معاشرے کی حبس زدہ زندگی میں جنم لینے والی ہم جنسیت کی ایک مثال ہے۔ مگرعصمت کے لکھے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی کہیں نہ کہیں اس عمل کو پسند نہیں کرتیں ۔ ان کا سارا زور اس گھٹن پر ہے، عورت اور مرد کے اس تعلق پر ہے، جس کے کمزور پڑتے ہی ہم جنسیت کا بھوت معاشرے میں گشت لگانا شروع کردے گا۔ ایک قدم اور بڑھ کر کہوں تو لحاف ہم جنسیت سے بھی زیادہ پیڈوفیلیا پر لکھی ہوئی کہانی ہے۔ اس رجحان کا میں خود بھی مخالف ہوں،خواہ اس کے حق میں سائمن دی بووا جیسی عورتیں ہی کیوں نہ رہی ہوں اور دیکھا جائے تو ادیبوں کا زیادہ تر معاشرہ ، شاید دنیا بھر میں ایک عرصے تک ہم جنسیت کے بجائے پیڈوفیلیا یعنی کم عمر بچوں کے ساتھ جنسی رشتے قائم کرنے پر زور دیتا رہا۔ بعضوں نے تو اس کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور قانونی طور پر کسی کی بلوغت کو قبول کرنے کے مسئلہ پر سوال قائم کردیا اور یہ دیکھ کر شاید ہنسی بھی آئے کہ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوں گے جو چائلڈ میرج یا بال وواہ کے خلاف ہوں گے۔

امرد پرستی کے حق میں کبھی بلا سوچے سمجھے میں نے کچھ لکھا تھا، اب مجھے اس بات کو کہنے میں کوئی جھجھک نہیں محسوس ہوتی کہ یہ رجحان نہایت غٰیر اخلاقی ، تباہ کن اور نابالغ بچوں کو ذہنی طور پر نقصان پہنچانے کا مادہ رکھتا ہے، اس لیے اس پر قانونی طور پر روک لگنی چاہیے اور اس رجحان کی پرورش کم از کم ادیبوں کی طرف سے بالکل نہیں کی جانی چاہیے۔ ہم نابوکوو کی لولیتا اور مارکیز دی ساد کے جسٹین جیسے ناولوں کی جمالیاتی، لسانی یا ادبی سطح پر قدر کرسکتے ہیں، مگر ان رجحانات کی تشہیر کا سامان نہیں کرسکتے اور انہیں اخلاقی طور پرکارآمد نہیں مان سکتے۔ اگر پھر بھی میں بطور ادیب اسے اخلاقی سطح پر برا نہیں سمجھتا تو مجھے کوئی حق نہیں کہ کسی ایسی خبر پر ناک بھوں چڑھائوں جس سے معلوم ہو کہ کوئی باپ ، اپنی نابالغ بچی کے ساتھ برسوں تک بہلا پھسلا کر اس کا ریپ کرتا چلا گیا۔

اردو میں مجھے ایک ہی کہانی ایسی ملی ہے، جس میں ہم جنسیت کی صحیح تصویر پیش کی گئی ہے اور وہ ہے چودھری محمد علی ردولوی کی ، تیسری جنس۔ عصمت کے برخلاف اس کہانی کو اس طرح نہیں لکھا گیا کہ اس میں ہم جنسیت کو کوئی برا یا غیر اخلاقی فعل سمجھا جائے بلکہ اسے پڑھنے والے کی بصیرت پر چھوڑا گیا ہے۔ ردولوی بڑے زبردست فکشن نگار تھے،فلسفی بھی تھے ۔ مگر کہانی کا ر کے طور پر ان کی دریافت ابھی ٹھیک سے نہیں ہوپائی۔ گناہ کا خوف، میٹھا معشوق اور نہ جانے کیسی کیسی کہانیاں انہوں نے لکھیں، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اردو زبان میں وہی پہلے آدمی تھے۔ جنہوں نے انیسویں صدی میں پردے کی بات جیسا مضمون لکھا اور عورتوں کو کنڈوم کے استعمال کے ساتھ ساتھ ان تاریخوں کے بارے میں بھی بتایا ، جن میں اپنے شوہر کے ساتھ جنسی عمل کرنے سے بچنے پر وہ بلاسبب حاملہ ہونے سے محفوظ رہ سکتی تھیں۔ تیسری جنس کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ انگریزی کے تھرڈ جینڈر کا ترجمہ ردولوی نے غلط کیا۔ مگر مادھوی مینن کی کتاب دی ہسڑی آف ڈیزائر ان انڈیا (ہندوستان میں جنس کی تاریخ) پڑھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ کام سوتر کے مصنف واتسائن نے بھی اپنی اس تصنیف میں ایسے لوگوں کے لیے ، جو مرد ہوکر مردوں کے ساتھ یا عورت ہوکر عورتوں کےساتھ رشتہ بنائیں، تھرڈ جینڈر کا لفظ ہی استعمال کیا ہے۔ البتہ منطقی طور پر اس سے بحث کی جاسکتی ہے کہ یہ کتنا درست یا نادرست ہے۔

اردو میں ہم جنسیت کے لیے کوئی تحریک نہیں چلائی گئی۔ سنتے ہیں کینیڈا میں افتخار نسیم نام کے ایک شاعر تھے، ان کا کچھ کلام پڑھا ہے۔ بہت اچھا معلوم ہوا۔ مگر دیکھتے ہیں کہ اب ان کا بھی کوئی نام لیوا نہیں ہے۔ وجہ یہ تھی کہ وہ کھلے طور پر اپنی ہم جنسیت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ واجد علی سید کے بقول اپنے ایک سردار پارٹنر کے ساتھ رہتے تھے۔ زندگی بھر ان کے گھروالوں نے انہیں نہیں اپنایا، مگر ان کے مرتے ہی، ان کی جائیداد پر قابض ہونے کے لیے تل گئے۔ اصل میں یہ سب باتیں بتاتی ہیں کہ ہم جنسیت کے خلاف ہمارا یہ غیر قدرتی کا الاپ کیسی سوچی سمجھی سازش ہے۔ دوسرا جو خوف ہم پر طاری کیا جاتا ہے، یعنی یہی کہ دنیا کا نظام تہہ و بالا ہوجائے گا یہ اس سلسلے میں بھی تھا کہ اگر آزاد جنسی رشتوں کو قبول کرلیا گیا تب بھی ایسا ہوگا، جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے تقریبا تمام ملکوں میں ان رشتوں کو قبول کرلیا گیا ہے اور ان سےایسا کوئی نقصان نہیں ہوا، کوئی اتھل پتھل نہیں مچی۔ دنیا تباہ نہیں ہوگئی۔ ٹھیک یہی ہم جنسیت کے ساتھ ہونا ہے۔

ہمارا یعنی خاص طور پر ادیبوں کی جماعت کا ہم جنسیت سے خوف کھانا خطرناک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ادیبوں کا طبقہ دنیا بھر میں تمام دوسرے طبقات کے مقابلے میں زیادہ دانش مندی سے کام لیتا ہے، اس کے یہاں چیزوں کو ان کی عجیب و غریب اور انوکھی اور نئی شکلوں کےساتھ قبول کرنے کا حوصلہ ہوتا ہے، وہ سماج کو زیادہ بدلتا ہوا محسوس کرتا ہے اور ایسی کسی بھی چیز کو جس کو کرنے سے کسی تیسرے شخص کی زندگی متاثر نہیں ہوتی،قبول کرتا ہے۔ مگر یہاں تو ہم دیکھتے ہیں کہ حال عجب ہے اور ہم ہی اس بات سے ڈرے ڈرے اور گھبرائے گھبرائے گھوم رہے ہیں کہ دو مرد یا دو عورتیں اپنی مرضی سے اپنی تنہائی میں جسمانی رشتہ نہ بنا لیں۔

جہاں تک رہی جانوروں کے ساتھ جنسی رشتہ بنانے کی بات۔ تو اول تو میں نہیں سمجھتا کہ جانور کے ساتھ رشتہ جانور کی مرضی بھی حاصل کرکے بنایا جانا ممکن ہے یا نہیں۔ اور مجھے نہیں لگتا کہ ایسا طریقہ دریافت کیا جابھی سکے گا یا نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں تک میں جانتا ہوں ،جنسی تعلق جانوروں کے لیے لذت حاصل کرنے کی چیز نہیں ہے، وہ ان کے یہاں تولیدی فعل کے طور پر استعمال ہونے والی چیز ہے۔ زیادہ تر جانوروں میں یہ اسی لیے جنسی عمل قائم کرنے کے موسم اور دورانیے تک طے ہوتے ہیں۔ پھربھی میں اس معاملے کا ماہر نہیں ہوں، مگر یہی کہوں گا کہ کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کسی کے ساتھ زبردستی جنسی عمل انجام دے۔ جنسی عمل تو چھوڑیے زبردستی تو کسی کو اپنے ساتھ بٹھا کر ایک کپ چائے پلانا بھی میری نظر میں اچھا عمل نہیں ہے۔

باقی رہی دنیا کی بات تو وہ کون سا کسی کی بات پر کان دھرتی ہے۔ جسے جو کرنا ہے وہ ویسے بھی کررہا ہے، ہم تو ایک خیالی دنیا کی بات کرتے ہیں، جہاں چیزیں ویسی ہوں ، جیسا انہیں ہونا چاہیے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ انسانی سرشت زبردستی کی خواہش سے بالکل پاک ہے، بلکہ کچھ لوگ تو چاہتے ہیں کہ جنسی عمل میں ان کا پارٹنر ان کے ساتھ زبردستی کرے، مگر یہ خواہش ان کے پارٹنر پر واضح ہونی چاہیے اور انہیں معلوم چاہیے کہ سامنے والا کون سا ’نہیں‘ کس مرحلے پر کہہ رہا ہے۔ یہ زبردستی بھی کتنی اور کس حد تک ہو یہ دو لوگوں کو مل کر طے کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments